’ہمیں پرواہ نہیں‘، پاکستان کی طرف کنٹرول لائن کے قریب شادیاں جاری
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی اور جنگ کے منڈلاتے بادلوں میں بھی کشمیر کے رہائشی شادی جیسی خوشی کی تقریبات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ا دارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کی دور دراز وادی میں لائن آف کنٹرول کے قریب شادیاں دھوم دھام سے جاری ہیں۔
کشمیر کی ایک وادی میں 18 سالہ دلہن رابعہ بی بی کی شادی کو سرحدی علاقے میں جنگ کے منڈلاتے بادل بھی نہ روک سکے۔
ڈولی میں بیٹھنے سے قبل دلہن سے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہمارے بچپن میں بھی صورتحال ایسی ہی تھی اس لیے ہم خوفزدہ نہیں۔‘
سرخ دوپٹہ اور بھاری لہنگا پہنے بناؤ سنگھار کیے دلہن کا کہنا تھا کہ ’ہم امن چاہتے ہیں تاکہ ہماری زندگی متاثر نہ ہو۔‘
دلہن کی ڈولی پہنچی تو راستے میں مرغا ذبح کیا گیا۔
شیروانی اور سرخ و سنہری پگڑی میں دولہا چوہدری جنید بھی خوب سجے سنورے نظر آ رہے تھے۔ 23 سالہ دلہے نے کہا کہ ’لوگ کسی حد تک پریشان ضرور ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے کوئی روایتی تقریبات منسوخ نہیں کی۔‘
جوہری ہتھیاروں سے لیس روایتی حریفوں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی اس وقت سے بڑھ گئی ہے جب انڈیا نے پاکستان پر 22 اپریل کو متنازع خطے کشمیر میں 26 شہریوں کو قتل کرنے والے عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کرنے کا الزام لگایا۔
انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی فوج کو حملے کا جواب دینے کے لیے ’مکمل آپریشنل آزادی‘ دینے کا اعلان کیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان متنازع علاقے کشمیر کو تقسیم کرنے والی عارضی جنگ بندی لائن (ایل او سی) پر فائرنگ کا تبادلہ بھی ہو چکا ہے۔ اور پاکستان نے سنیچر کو اپنی ’آپریشنل تیاری‘ کو ثابت کرنے کے لیے میزائل کا تجربہ کیا ہے۔
اسلام آباد نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ اس کے پاس ’معتبر انٹیلیجنس‘ ہے کہ انڈیا حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں پر کشیدگی کم کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کے کھیل کے میدانوں میں ہنگامی مشقیں کی گئی ہیں، اور رہائشیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ خوراک اور ادویات کا ذخیرہ کریں۔ اسی طرح علاقے میں مدارس بند کر دیے گئے ہیں۔
انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں حملہ کرنے والے بندوق برداروں کی تلاش جاری ہے، جبکہ سرحد کے قریب بسنے والے شہری وہاں سے دور جا رہے ہیں یا پھر تنازع بڑھنے کے خوف سے بنکروں کو صاف کر رہے ہیں۔
’ہم امن چاہتے ہیں‘
انڈیا اور پاکستان دونوں ملک ہی کشمیر کے علاقے پر مکمل ملکیت کے حق کا دعویٰ کرتے ہیں، اور 1947 میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد سے اس ہمالیائی علاقے پر کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔
منقسم مسلم اکثریتی خطے کے دونوں طرف رہنے والے عام کشمیری اکثر کراس فائر کا پہلا شکار ہوتے ہیں۔
پاکستان کی طرف کے کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم جو ایک سیاحتی مرکز بھی ہے کو گزشتہ ہفتے بند کر دیا گیا تھا، یہاں سے دریا کے پار کا علاقہ نظر آتا ہے جہاں انڈیا کی فوج کی چوکیاں ہیں۔
وادی کے نیلم کے رہائشیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ممکنہ فوجی تصادم کے خطرے کے پیش نظر پاکستانی حکام نے انہیں چوکس رہنے کی تاکید کی ہے۔
ایک اور گاؤں میں مکینیکل انجینئر شعیب اختر کی بھی شادی تھی۔
خاندان کے افراد میں گھرے 25 سالہ دولہا اختر نے کہا کہ ’یہ ہماری زندگی کا سب سے خوشگوار موقع ہے، اور ہم اسے کسی بھی قیمت پر خراب نہیں ہونے دیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ابھی تو میں شادی کر رہا ہوں اور یہی سب سے اہم ہے۔ اگر جنگ ہوتی ہے تو ہم اس سے بھی نمٹ لیں گے۔‘
بی بی نے کہا کہ ’ہم خوش ہیں، اور اگر انڈیا کو مسئلے ہیں تو ہمیں پرواہ نہیں۔ہم ثابت قدم ہیں اور اپنے مفادات اور اپنی قوم کے لیے لڑیں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
افغانستان نے بگرام ائربیس کا کنٹرول امریکا کے حوالے کرنے کا امکان سختی سے مسترد کردیا
افغانستان کی عبوری حکومت نے بگرام ائربیس کا کنٹرول امریکا کے حوالے کرنے کا امکان سختی سے مسترد کردیا ہے۔
افغان وزارتِ خارجہ کے اہلکار ذاکر جلالی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تاریخ گواہ ہے افغانستان نے اپنی سرزمین پر کبھی بیرونی افواج کو قبول نہیں کیا، دوحہ مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کے دوران بھی اس نوعیت کے کسی امکان کو یکسر رد کردیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بگرام ائربیس چھوڑنا امریکا کے لیے ایک شرمناک لمحہ تھا، ائربیس واپس لینے کے لیے افغانستان سے مذاکرات جاری ہیں۔
ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ فوجیوں کی تعداد کو پانچ ہزار تک کم کرنے کا فیصلہ انہوں نے خود کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بگرام بیس اُس مقام سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے۔
دوسری جانب چین کا ردعمل بھی سامنے آگیا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں، افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے۔
چین نے واضح کیا کہ وہ خطے میں کسی بھی قسم کی کشیدگی کی حمایت نہیں کرے گا اور چاہتا ہے کہ تمام فریقین علاقائی امن کے لیے تعمیری کردار ادا کریں۔
Post Views: 3