اب کی بار چائے نہیں، انڈیا کو سبق ملے گا، جو ہمیشہ یاد رہے گا، رانا سکندر
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
وزیر تعلیم پنجاب کا کہنا ہے کہ بھارت ہمارے ساتھ مل کر تعلیم کی ترقی اور علاقے میں قیام امن کیلئے کام کرے، ماضی میں بھارت 1965، 1971، کارگل سمیت ہر جگہ پر ہمیں آزما چکا ہے، ہم اب بھی مکمل تیار ہیں اور اپنی مسلح افواج کیساتھ کھڑے ہیں، بھارت ہمیں دوبارہ آزمانے کی غلطی نہ کرے۔ اسلام ٹائمز۔ پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو تعلیم کے فروغ اور امن کے قیام کا پیغام دیدیا۔ وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ بھارت ہمارے ساتھ مل کر تعلیم کی ترقی اور علاقے میں قیام امن کیلئے کام کرے۔ رانا سکندر حیات نے مزید کہا کہ ماضی میں بھارت 1965، 1971، کارگل سمیت ہر جگہ پر ہمیں آزما چکا ہے، ہم اب بھی مکمل تیار ہیں اور اپنی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں، بھارت ہمیں دوبارہ آزمانے کی غلطی نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 6 لاکھ نہیں، 25 لاکھ جوانوں کا ملک ہے، مودی بُھول میں ہے کہ ہمیں ڈرا یا دبا لے گا۔ وزیر تعلیم پنجاب نے کہا کہ اب کی بار چائے بھی نہیں ملے گی، صرف سبق ملے گا اور وہ ایسا کہ یاد رہے گا۔ وزیر تعلیم نے کہا کہ پاکستان کو غزہ نہ سمجھا جائے، ہم ایک ایٹمی ملک ہیں اور اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: وزیر تعلیم کہا کہ
پڑھیں:
تربیت، تعلیم کو نکھارتی ہے
علم اور شعورکا مجموعہ ’’ تعلیم‘‘ کہلاتا ہے، ہر انسان کے لیے تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے،کوئی فرد اس وقت تک دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ ہو۔
ہم سب الحمدللہ مسلمان ہیں اور ہمارے مذہبِ اسلام میں تعلیم کی بہت اہمیت ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی مقدس کتاب ’’ قرآن مجید‘‘ کو اس کائنات میں نازل فرمانے کا آغاز لفظ اقراء سے کیا۔
اقراء کے لغوی معنی ہیں ’’پڑھیے‘‘۔ تعلیم کی فضیلت سے متعلق بیشمار احادیثِ مبارکہ بھی موجود ہیں، حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ’’جو شخص حصولِ علم کے لیے نکلا وہ اس وقت تک اللہ کی راہ میں ہے جب تک کہ واپس نہیں لوٹ آتا۔‘‘
اخلاق و تہذیب سکھانے کے عمل کو ’’ تربیت‘‘ کہا جاتا ہے، تعلیم و تربیت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور ان دونوں کا خوبصورت امتزاج ہی انسان کو معاشرے میں عزت دلاتا ساتھ چار لوگوں کے درمیان بیٹھنے کے قابل بناتا ہے۔
دورِ حاضر میں دنیا جس پھرتی سے آگے کی جانب رواں دواں ہے اُس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے یہاں تربیت کا فقدان پیدا ہو رہا ہے اور بِنا تربیت تعلیم بالکل ویسی ہے جیسے پہیوں کے بغیرگاڑی۔ زمانہ حال جس میں آج، آپ اور ہم زندگی گزار رہے ہیں اُسے ’’ماڈرن ایج‘‘ کہا جاتا ہے اور اس ماڈرن ایج میں جنم لینے والے بچوں کو ’’جنریشن زی۔‘‘
اس نئی نسل سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام بچے ذہنی اعتبار سے غیر معمولی ہیں اور اُن کی مثالی ذہانت میں بڑا دخل جدید ٹیکنالوجی کا ہے مگر افسوس تربیت کی کمی سب میں کم و بیش موجود ہے۔
ماڈرن ایج کے تقاضے ماضی سے یکسر مختلف ہیں، یہاں محض پڑھے لکھے ہونا کامیابی کی نشانی سمجھا جاتا ہے، چاہے اُن تعلیم یافتہ افراد کی تربیت مثبت طریقے سے ہوئی ہو یا نہیں۔ آج کل تعلیم علم و شعور کے حصول کے لیے نہیں کی جارہی ہے بلکہ اس کے پیچھے پیسہ کمانا اور خوب کمانا کی سوچ کار فرما ہے۔
اس بدلتے دور میں ہر اچھی چیزکی ہیئت تبدیل ہو رہی ہے پھر وہ طرزِ زندگی، خاندانی نظام یا انسان کے سوچنے کا انداز ہی کیوں نہ ہو۔ جوکام فائدہ پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہو، بس اُسے اپنایا جائے، باقی غیر ضروری اور نفع نہ دینے والے کاموں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا طرزِ عمل نئے زمانے کے تقریباً ہر دوسرے بندے نے اپنایا ہوا ہے۔ لالچ، خود غرضی، دھوکہ اور ان سے منسلک دوسرے منفی احساسات تربیت کی کمی کے باعث کسی بھی فرد کی شخصیت کا حصہ بن سکتے ہیں۔
ابتدا میں مشرقی معاشروں میں تربیت کی کمی دیکھنے کو ملنا حیران کُن ہونے کے علاوہ ناقابلِ یقین تھا، ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتی اس پریشانی کا تجزیہ کرنے کا موقع میسر آیا تو کئی عوامل کا دخل اس میں موجود پایا گیا۔ اول جس سب سے بڑی وجہ سے سامنا ہوا وہ مشترک خاندانی نظام کا ہمارے معاشرے میں تیزی سے کم ہوتا رجحان تھا۔
مشترک خاندانی نظام کے نقصانات اپنی جگہ مگر اس کے فائدے بے حساب ہیں، خاندان کے بزرگوں کی شفقت اور علمیت کے سائے تلے پروان چڑھنا اپنے آپ میں تربیت کی بہترین درسگاہ مانی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک چھت کے نیچے خاندان کے افراد کا مل جُل کر رہنا جہاں ہر کوئی مختلف سوچ و طبیعت کا مالک ہو انفرادی طور پر آپ کے اندر تحمل، برداشت اور جذبہ اخوت اُجاگرکرتا ہے جوکہ تربیت کے اہم جُز ہیں۔
دوسرے نمبر پر تربیت کے انحطاط کی جو وجہ سامنے آئی وہ اکثر والدین کی اس جانب عدم توجہ ہے یعنی مجموعی طور پر ماڈرن ایج کے ماں، باپ اپنے بچوں کو تعلیم تو معیاری دلوانے میں یقین رکھتے ہیں لیکن انگریزی میں گفتگو کرنے والے اُن کے بچے تمیزدار، تہذیبِ یافتہ اور بااخلاق کہلانے کے لائق ہیں یا نہیں، اس کی اُنھیں خاص پرواہ نہیں ہے۔
یہاں بات ساری ترجیحات کی ہے، جب تک والدین اپنی اولاد کو صحیح اور غلط کے فرق سے متعارف نہیں کروائیں گے، زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ نہیں سکھائیں گے وہ ان سب سے ناآشنا تربیت کی لاٹھی کے بغیر اندھوں کی مانند غلط راہوں پر برے تجربات سے سر ٹکراتی پھرے گی۔ مغرب سے مرغوب مغربیت کی جیتی جاگتی تصویر بنے والدین کو آج نہیں توکل ضرور احساس ہوگا کہ تربیت بِنا تعلیم فائدہ کم نقصان زیادہ پہنچاتی ہے۔
اس معاملے کو مزید خراب کرنے میں تیسرا جس عمل کا ہاتھ ہے وہ جنریشن گیپ ہے جہاں پرانی نسل اور نئی نسل کے لوگ ایک دوسرے کو بالکل سمجھ نہیں پارہے ہیں اور وہ بیچارے سمجھیں بھی تو کس طرح جب زبان اور مختلف خیالات کی باڑ اُن کے بیچ میں حائل ہے۔
ماڈرن ایج کے والدین کی کثیر تعداد اپنے بچوں کو عام بول چال کے لیے اُن کی قومی و مادری زبان سکھانے میں عار اور انگریزی زبان کا استعمال کروانے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ جن معاشروں میں خاندان کے بڑے بوڑھے وہاں کے بچوں اور نوجوان نسل کی زبان سے ناواقفیت رکھتے ہوں تو وہ اُن کی تربیت میں اپنا مثبت کردار ادا کریں بھی توکیسے؟ اس کے بعد اُن کے درمیان کئی بیتی بہاروں کا فاصلہ بھی موجود ہے جس نے ماحول، اندازِ بیان، اظہارِ رائے اور سوچ سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے جس کو سمجھنا ہر عمر کے لوگوں کے لیے مشکل ہے۔
چوتھے درجے پر اپنے طلبا کی تربیت میں تعلیمی اداروں کی مایوس کُن کارکردگی معاشرے میں اس مسئلے کو مزید سنگین بناتی ہے، اسکولوں، مدرسوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں محض تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے جوکہ قابلِ تعریف بات ہے مگر اس کے ساتھ با تربیت ہونا بھی تو اہم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر زور اخبار اور خبرناموں میں طالبِ علموں کے جرائم میں ملوث ہونے کی ایک نہ ایک خبر نظروں سے ضرورگزرتی ہے۔ ناخواندہ افراد کے پاس بد لحاظی کا مارجن موجود ہوتا ہے مگر خواندہ انسان اگر بداخلاقی کا مظاہرہ کرے تو یہ ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔
عمومی طور پر پڑھائی، لکھائی ہماری نوجوان نسل کو انسان بنانے میں قاصر معلوم ہو رہی ہے، تعلیمی اداروں کی حدود سے باہر وہ اس طرح ہنگامہ برپا کرتے آرہے ہوتے ہیں جیسے اُنھیں لمبی قید سے رہائی نصیب ہوئی ہو۔
درج بالا چاروں عوامل کے باعث دیسی معاشروں میں تربیت کی کمی کے حوالے سے کافی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور معاملہ اس حد تک بگاڑ کا شکار ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی اس سے شدید متاثر ہیں۔
ہماری گفتار سے اب تہذیب و تمدن کی جھلک شاذ و نادر ہی دکھائی دیتی ہے، شہد میں گھلے الفاظ کی جگہ ناشائستہ اورکھڑی زبان نے لے لی ہے۔ ہمارے اطوار بھی اب بے ڈھنگے ہوچکے ہیں جس کا ہمیں ذرا احساس نہیں ہے، اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ مصافحہ ہمیشہ اپنے ہم عمر لوگوں اور دوستوں سے کیا جاتا ہے جب کہ بڑے، بزرگوں سے ہاتھ ملانا بداخلاقی کے زمرے میں آتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا ہر بندہ انجانے میں یہ غلطی صبح، شام خود کو باتمیز کہلانے کے چکر میں کر رہا ہے۔ ایسی بیشمار بداخلاقیاں ہمارے معاشرے میں آہستہ آہستہ سرایت کرتی جا رہی ہیں، جن کی جلد روک تھام ضرروی ہے،کہیں ہماری کاہلی ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان نہ پہنچا دے۔