علم اور شعورکا مجموعہ ’’ تعلیم‘‘ کہلاتا ہے، ہر انسان کے لیے تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے،کوئی فرد اس وقت تک دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ ہو۔
ہم سب الحمدللہ مسلمان ہیں اور ہمارے مذہبِ اسلام میں تعلیم کی بہت اہمیت ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی مقدس کتاب ’’ قرآن مجید‘‘ کو اس کائنات میں نازل فرمانے کا آغاز لفظ اقراء سے کیا۔
اقراء کے لغوی معنی ہیں ’’پڑھیے‘‘۔ تعلیم کی فضیلت سے متعلق بیشمار احادیثِ مبارکہ بھی موجود ہیں، حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ’’جو شخص حصولِ علم کے لیے نکلا وہ اس وقت تک اللہ کی راہ میں ہے جب تک کہ واپس نہیں لوٹ آتا۔‘‘
اخلاق و تہذیب سکھانے کے عمل کو ’’ تربیت‘‘ کہا جاتا ہے، تعلیم و تربیت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور ان دونوں کا خوبصورت امتزاج ہی انسان کو معاشرے میں عزت دلاتا ساتھ چار لوگوں کے درمیان بیٹھنے کے قابل بناتا ہے۔
دورِ حاضر میں دنیا جس پھرتی سے آگے کی جانب رواں دواں ہے اُس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے یہاں تربیت کا فقدان پیدا ہو رہا ہے اور بِنا تربیت تعلیم بالکل ویسی ہے جیسے پہیوں کے بغیرگاڑی۔ زمانہ حال جس میں آج، آپ اور ہم زندگی گزار رہے ہیں اُسے ’’ماڈرن ایج‘‘ کہا جاتا ہے اور اس ماڈرن ایج میں جنم لینے والے بچوں کو ’’جنریشن زی۔‘‘
اس نئی نسل سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام بچے ذہنی اعتبار سے غیر معمولی ہیں اور اُن کی مثالی ذہانت میں بڑا دخل جدید ٹیکنالوجی کا ہے مگر افسوس تربیت کی کمی سب میں کم و بیش موجود ہے۔
ماڈرن ایج کے تقاضے ماضی سے یکسر مختلف ہیں، یہاں محض پڑھے لکھے ہونا کامیابی کی نشانی سمجھا جاتا ہے، چاہے اُن تعلیم یافتہ افراد کی تربیت مثبت طریقے سے ہوئی ہو یا نہیں۔ آج کل تعلیم علم و شعور کے حصول کے لیے نہیں کی جارہی ہے بلکہ اس کے پیچھے پیسہ کمانا اور خوب کمانا کی سوچ کار فرما ہے۔
اس بدلتے دور میں ہر اچھی چیزکی ہیئت تبدیل ہو رہی ہے پھر وہ طرزِ زندگی، خاندانی نظام یا انسان کے سوچنے کا انداز ہی کیوں نہ ہو۔ جوکام فائدہ پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہو، بس اُسے اپنایا جائے، باقی غیر ضروری اور نفع نہ دینے والے کاموں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا طرزِ عمل نئے زمانے کے تقریباً ہر دوسرے بندے نے اپنایا ہوا ہے۔ لالچ، خود غرضی، دھوکہ اور ان سے منسلک دوسرے منفی احساسات تربیت کی کمی کے باعث کسی بھی فرد کی شخصیت کا حصہ بن سکتے ہیں۔
ابتدا میں مشرقی معاشروں میں تربیت کی کمی دیکھنے کو ملنا حیران کُن ہونے کے علاوہ ناقابلِ یقین تھا، ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتی اس پریشانی کا تجزیہ کرنے کا موقع میسر آیا تو کئی عوامل کا دخل اس میں موجود پایا گیا۔ اول جس سب سے بڑی وجہ سے سامنا ہوا وہ مشترک خاندانی نظام کا ہمارے معاشرے میں تیزی سے کم ہوتا رجحان تھا۔
مشترک خاندانی نظام کے نقصانات اپنی جگہ مگر اس کے فائدے بے حساب ہیں، خاندان کے بزرگوں کی شفقت اور علمیت کے سائے تلے پروان چڑھنا اپنے آپ میں تربیت کی بہترین درسگاہ مانی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک چھت کے نیچے خاندان کے افراد کا مل جُل کر رہنا جہاں ہر کوئی مختلف سوچ و طبیعت کا مالک ہو انفرادی طور پر آپ کے اندر تحمل، برداشت اور جذبہ اخوت اُجاگرکرتا ہے جوکہ تربیت کے اہم جُز ہیں۔
دوسرے نمبر پر تربیت کے انحطاط کی جو وجہ سامنے آئی وہ اکثر والدین کی اس جانب عدم توجہ ہے یعنی مجموعی طور پر ماڈرن ایج کے ماں، باپ اپنے بچوں کو تعلیم تو معیاری دلوانے میں یقین رکھتے ہیں لیکن انگریزی میں گفتگو کرنے والے اُن کے بچے تمیزدار، تہذیبِ یافتہ اور بااخلاق کہلانے کے لائق ہیں یا نہیں، اس کی اُنھیں خاص پرواہ نہیں ہے۔
یہاں بات ساری ترجیحات کی ہے، جب تک والدین اپنی اولاد کو صحیح اور غلط کے فرق سے متعارف نہیں کروائیں گے، زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ نہیں سکھائیں گے وہ ان سب سے ناآشنا تربیت کی لاٹھی کے بغیر اندھوں کی مانند غلط راہوں پر برے تجربات سے سر ٹکراتی پھرے گی۔ مغرب سے مرغوب مغربیت کی جیتی جاگتی تصویر بنے والدین کو آج نہیں توکل ضرور احساس ہوگا کہ تربیت بِنا تعلیم فائدہ کم نقصان زیادہ پہنچاتی ہے۔
اس معاملے کو مزید خراب کرنے میں تیسرا جس عمل کا ہاتھ ہے وہ جنریشن گیپ ہے جہاں پرانی نسل اور نئی نسل کے لوگ ایک دوسرے کو بالکل سمجھ نہیں پارہے ہیں اور وہ بیچارے سمجھیں بھی تو کس طرح جب زبان اور مختلف خیالات کی باڑ اُن کے بیچ میں حائل ہے۔
ماڈرن ایج کے والدین کی کثیر تعداد اپنے بچوں کو عام بول چال کے لیے اُن کی قومی و مادری زبان سکھانے میں عار اور انگریزی زبان کا استعمال کروانے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ جن معاشروں میں خاندان کے بڑے بوڑھے وہاں کے بچوں اور نوجوان نسل کی زبان سے ناواقفیت رکھتے ہوں تو وہ اُن کی تربیت میں اپنا مثبت کردار ادا کریں بھی توکیسے؟ اس کے بعد اُن کے درمیان کئی بیتی بہاروں کا فاصلہ بھی موجود ہے جس نے ماحول، اندازِ بیان، اظہارِ رائے اور سوچ سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے جس کو سمجھنا ہر عمر کے لوگوں کے لیے مشکل ہے۔
چوتھے درجے پر اپنے طلبا کی تربیت میں تعلیمی اداروں کی مایوس کُن کارکردگی معاشرے میں اس مسئلے کو مزید سنگین بناتی ہے، اسکولوں، مدرسوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں محض تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے جوکہ قابلِ تعریف بات ہے مگر اس کے ساتھ با تربیت ہونا بھی تو اہم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر زور اخبار اور خبرناموں میں طالبِ علموں کے جرائم میں ملوث ہونے کی ایک نہ ایک خبر نظروں سے ضرورگزرتی ہے۔ ناخواندہ افراد کے پاس بد لحاظی کا مارجن موجود ہوتا ہے مگر خواندہ انسان اگر بداخلاقی کا مظاہرہ کرے تو یہ ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔
عمومی طور پر پڑھائی، لکھائی ہماری نوجوان نسل کو انسان بنانے میں قاصر معلوم ہو رہی ہے، تعلیمی اداروں کی حدود سے باہر وہ اس طرح ہنگامہ برپا کرتے آرہے ہوتے ہیں جیسے اُنھیں لمبی قید سے رہائی نصیب ہوئی ہو۔
درج بالا چاروں عوامل کے باعث دیسی معاشروں میں تربیت کی کمی کے حوالے سے کافی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور معاملہ اس حد تک بگاڑ کا شکار ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی اس سے شدید متاثر ہیں۔
ہماری گفتار سے اب تہذیب و تمدن کی جھلک شاذ و نادر ہی دکھائی دیتی ہے، شہد میں گھلے الفاظ کی جگہ ناشائستہ اورکھڑی زبان نے لے لی ہے۔ ہمارے اطوار بھی اب بے ڈھنگے ہوچکے ہیں جس کا ہمیں ذرا احساس نہیں ہے، اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ مصافحہ ہمیشہ اپنے ہم عمر لوگوں اور دوستوں سے کیا جاتا ہے جب کہ بڑے، بزرگوں سے ہاتھ ملانا بداخلاقی کے زمرے میں آتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا ہر بندہ انجانے میں یہ غلطی صبح، شام خود کو باتمیز کہلانے کے چکر میں کر رہا ہے۔ ایسی بیشمار بداخلاقیاں ہمارے معاشرے میں آہستہ آہستہ سرایت کرتی جا رہی ہیں، جن کی جلد روک تھام ضرروی ہے،کہیں ہماری کاہلی ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان نہ پہنچا دے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تربیت کی کمی ماڈرن ایج ہیں اور جاتا ہے کے لیے
پڑھیں:
تعلیم اور صحت کے شعبے میں حکومتی اقدامات
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تعلیم اور صحت وہ شعبے ہیں جن پر نہ صرف عوام کی فلاح کا دارومدار ہوتا ہے بلکہ قومی ترقی کا راستہ بھی انہی ستونوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ ماضی میں بدقسمتی سے ان دونوں شعبوں کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے، لیکن موجودہ حکومت نے ان شعبوں کی بہتری کے لئے جو اصلاحات متعارف کروائیں، وہ قابلِ تحسین ہیں۔ ان اصلاحات نے نہ صرف اداروں کی ساخت کو بہتر بنایا بلکہ عوام کو بھی براہِ راست سہولتیں پہنچانے کا آغاز کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ چیلنجز اب بھی موجود ہیں، لیکن جس سنجیدگی سے ان مسائل کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے، وہ ایک امید کی کرن ہے۔تعلیم کے میدان میں حکومت نے متعدد مثبت اقدامات کیے ہیں۔ سب سے پہلے، تعلیمی بجٹ میں تاریخی اضافہ کیا گیا۔حکومت نے مالی سال 2024-25ء کے ترقیاتی بجٹ میں 140 فیصد تک اضافہ کر کے حکومت نے یہ واضح پیغام دیا کہ وہ تعلیم کو ترجیحی بنیاد پر اہمیت دے رہی ہے۔ وفاقی سطح پر تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے 20 ارب25کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا، جس کا مقصد سکولوں کی بہتری، اساتذہ کی تربیت، نصاب کی ترقی اور ڈیجیٹل تعلیم کو فروغ دینا ہے۔حکومت نے پہلی مرتبہ طلبہ کے لیے اسکالرشپ اسکیم میں اضافہ کرتے ہوئے ماہانہ وظیفہ 30ہزار روپے سے بڑھا کر50 ہزار روپے کر دیا ہے تاکہ قابل طلبہ کو وسائل کی کمی تعلیم سے دور نہ کر سکے۔ اس کے علاوہ،تعلیمی بورڈ کے پوزیشن ہولڈرز کے لئے لاکھوں روپے کے انعامات اور تعلیمی اخراجات کی ادائیگی کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب میں اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو فعال بنایا گیا اورپہلی مرتبہ ڈویژن، ڈسٹرکٹ اور تحصیل سطح پر میرٹ پر افسران کی تعیناتی کا عمل مکمل کیا گیا۔
نئی بھرتیوں میں شفافیت اور قابلیت کو اولین حیثیت دی گئی تاکہ نظامِ تعلیم میں بہتری لائی جا سکے۔ اساتذہ کی تربیت ایک ایسا پہلو ہے جسے اکثر نظرانداز کیا گیا، لیکن موجودہ حکومت نے اس پر بھی بھرپور توجہ دی۔ ٹیچرز ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا اور نصاب سازی، تعلیمی مواد، اور تدریسی تکنیکوں کو اپ ڈیٹ کیا گیا تاکہ طلبہ کو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کی جا سکے۔ مزید یہ کہ، پنجاب میں ابتدائی جماعتوں میں مصنوعی ذہانت (AI) کی تعلیم متعارف کروانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس کا مقصد طلبہ کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ بنانا ہے۔سکولوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے 5 ہزار نئے کلاس رومز کی تعمیر، سمارٹ بورڈز، لیبارٹریز، اور لائبریریوں کے قیام پر کام جاری ہے۔ حکومت نے جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع جن میں ڈیرہ غازی خان ، راجن پور اور مظفر گڑھ کے سکولوں میں4لاکھ سے زائد غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کے لیے ’’دودھ اسکیم‘‘ شروع کی، جس کے تحت بچوں کو اسکولوں میں دودھ فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما بہتر ہو۔ڈیجیٹل تعلیم کے فروغ کے لیے سکولوں میں انٹرنیٹ، سمارت اسکرینز ، کروم بکس اور ٹیبلٹس فراہم کئے جا رہے ہیں تاکہ دور دراز علاقوں میں موجود طلبہ بھی آن لائن تعلیمی مواد تک رسائی حاصل کر سکیں۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ ملک بھر میں تعلیم کے لیے یکساں نصاب رائج کیا جائے تاکہ طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو۔جہاں تک صحت کے شعبے کا تعلق ہے، موجودہ حکومت نے اس محاذ پر بھی کئی انقلابی اقدامات کئے ہیں۔ صحت کارڈ اسکیم ان میں سب سے نمایاں ہے، جس کے تحت غریب اور متوسط طبقے کے افراد کو نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
لاکھوں افراد اس سہولت سے مستفید ہو چکے ہیں اور اس سے نہ صرف عوام کا اعتماد بحال ہوا ہے بلکہ صحت کے شعبے پر مالی دباؤ بھی کم ہوا ہے۔سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے حکومت نے متعدد منصوبے شروع کئے ہیں، جن میں جدید طبی مشینری کی فراہمی، عمارتوں کی مرمت اور طبی عملے کی تربیت شامل ہے۔ حکومت نے بنیادی صحت مراکز (BHU) اور دیہی صحت مراکز (RHC) کو بھی فعال بنانے کی جانب توجہ دی ہے تاکہ دیہاتی عوام کو ان کی دہلیز پر صحت کی سہولتیں دستیاب ہوں۔ایک اہم قدم جو حالیہ برسوں میں اٹھایا گیا وہ ویکسینیشن پروگرامز ہیں، جن کے ذریعے بچوں کو پولیو، خسرہ، کالی کھانسی اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قومی سطح پر مہمات چلائی گئیں۔ کورونا کے دوران حکومت کی جانب سے شروع کیا گیا حفاظتی ٹیکہ جات کا نظام اس وقت بھی جاری ہے اور اس میں مسلسل بہتری لائی جا رہی ہے۔حکومت نے ماں اور بچے کی صحت کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔ زچہ بچہ سینٹرز کی بہتری، حاملہ خواتین کے لیے مفت معائنے اور ادویات کی فراہمی جیسے اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں درجنوں نئے ہسپتالوں کی تعمیر اور موجودہ ہسپتالوں میں بستروں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ہیلتھ ورکرز کو جدید تربیت دی گئی ہے تاکہ وہ دیہی علاقوں میں بھی معیاری طبی خدمات فراہم کر سکیں۔ موبائل ہیلتھ یونٹس کے ذریعے ان علاقوں میں خدمات فراہم کی جا رہی ہیں جہاں مستقل ہسپتال موجود نہیں۔ اس کے علاوہ، ایمرجنسی میڈیکل سروسز جیسے ریسکیو 1122 کی توسیع کی گئی ہے تاکہ فوری طبی امداد یقینی بنائی جا سکے۔حکومت نے ایک اور بڑی پیش رفت میں دیہی علاقوں میں پانی کی صاف فراہمی کے لئے واٹر فلٹریشن پلانٹس کا آغاز کیا ہے، کیونکہ پانی کی آلودگی کئی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف بیماریوں میں کمی آئی بلکہ عوامی صحت پر مجموعی اثر بھی بہتر ہوا۔یہ سب اقدامات اپنی جگہ، مگر یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ کئی چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ دیہی علاقوں میں صحت و تعلیم کی سہولتوں کی کمی، عملے کی قلت اور مالی وسائل کی محدودیت وہ رکاوٹیں ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے مزید سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، شفافیت، کرپشن کے خاتمے اور اداروں کی خودمختاری کو یقینی بنانا ہو گا تاکہ یہ اصلاحات مستقل بنیادوں پر جاری رہ سکیں۔عوام کی فلاح کے لئے حکومت کے یہ اقدامات اگر اسی تسلسل کے ساتھ جاری رہیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان نہ صرف تعلیم اور صحت کے میدان میں خود کفیل ہو گا بلکہ ایک فلاحی ریاست کے خواب کو بھی شرمندہ ٔ تعبیر کیا جا سکے گا۔ ترقی کا سفر طویل ضرور ہے، مگر صحیح سمت میں کیا گیا ایک قدم کئی منزلیں آسان بنا دیتا ہے۔