مغربی بنگال میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ایک سنگین چیلنج ہے، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
گورنر سی وی آنند بوس کے رپورٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انتظامی ہم آہنگی کی شدید کمی ہے اور پولیس کا ردعمل کمزور ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مغربی بنگال کے گورنر سی وی آنند بوس نے حال ہی میں مرشد آباد ضلع میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد پر بھارت کی مرکزی حکومت کو رپورٹ پیش کی ہے۔ یہ رپورٹ مرکزی وزارت داخلہ کو بھیجی گئی ہے، جس میں ریاست میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کو ایک سنگین چیلنج قرار دیا گیا ہے۔ گورنر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل مرشد آباد اور مالدہ اضلاع کی صورتحال تشویشناک ہے۔ ان اضلاع میں ہندو برادری اقلیت میں ہے جس کی وجہ سے سماجی توازن متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ مرشد آباد میں تشدد کا اثر دوسرے اضلاع تک پھیل سکتا ہے۔ گورنر نے یہ بھی لکھا کہ تشدد پہلے سے منصوبہ بند تھا اور ریاستی حکومت خطرے سے آگاہ تھی، پھر بھی حفاظتی انتظامات ناکافی تھے۔
گورنر نے مرکزی فورسز کی تعیناتی، انکوائری کمیشن کا قیام اور ضرورت پڑنے پر آئین کی دفعہ 356 کے آپشن پر غور کرنے سمیت کئی سخت تجاویز دی ہیں۔ آرٹیکل 356 کا مطلب ریاست میں صدر راج نافذ کرنا ہے۔ تاہم گورنر نے واضح کیا کہ انہوں نے آرٹیکل 356 کے نفاذ کی سفارش نہیں کی ہے بلکہ صرف آپشن کھلے رکھنے کی بات کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت کی طرف سے اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کے بار بار کئے گئے وعدوں سے صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ رپورٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انتظامی ہم آہنگی کی شدید کمی ہے اور پولیس کا ردعمل کمزور ہے۔ گورنر نے مرکزی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ آئینی اقدامات پر غور کرے تاکہ ریاست میں امن و امان بحال ہو سکے اور عوام کا حکومت پر اعتماد ہو سکے۔
بوس نے رپورٹ میں لکھا کہ تقسیم اتنی گہری ہے کہ تشدد میں اضافے کے باوجود وزیراعلٰی کی طرف سے بار بار کئے گئے وعدے کہ وہ اقلیتی مفادات کا تحفظ کریں گی اور یہ کہ ریاست میں اس قانون کو نافذ نہیں کیا جائے گا، نے مسلمانوں کو پُرسکون کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی مضبوطی سے قائم ہو اور پولیس تشدد کو روکے۔ گورنر نے یہ بھی کہا کہ ریاست میں سیاسی تشدد کی تاریخ اور ریاست کے دیگر اضلاع پر مرشد آباد تشدد کے اثرات کو دیکھتے ہوئے، میں یہ تجویز کرنا چاہوں گا کہ حکومت ہند نہ صرف موجودہ حالات پر قابو پانے کے لئے آئینی اختیارات پر غور کرے بلکہ قانون کی حکمرانی میں لوگوں کا اعتماد پیدا کرنے کے لئے بھی کوشش کرے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ریاست میں رپورٹ میں گورنر نے کہ ریاست یہ بھی
پڑھیں:
کشمیری تشدد نہیں، امن چاہتے ہیں، محبوبہ مفتی
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر کا کہنا ہے کہ زبردستی ملک بدر کی جانیوالی خواتین نے مقبوضہ کشمیر میں شادیاں کیں اور بچوں کی پرورش کی، اب انہیں پاکستانی قرار دیکر زبردستی واپس جانے پر مجبور جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد کشمیریوں کی جبری ملک بدری کے احکامات اور جائیدادوں کی ضبطگی کی جاری مہم پر بھارتی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔ ذرائع کے مطابق محبوبہ مفتی نے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ مودی حکومت نے ہزاروں کشمیریوں کو کو گرفتار کیا ہے۔ 30 یا 40سال سے رہائش پذیر لوگوں کو واپس پاکستان جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زبردستی ملک بدر کی جانیوالی خواتین نے مقبوضہ کشمیر میں شادیاں کیں اور بچوں کی پرورش کی، اب انہیں پاکستانی قرار دیکر زبردستی واپس جانے پر مجبور جا رہا ہے؟ انہوں نے خبرار کیا کہ کشمیریوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی مہم اور گھروں پر قبضے سے کشمیری عوام میں بھارت مخالف جذبات بڑھیں گے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت اس اقدام سے غریب کشمیریوں کی زندگیاں تباہ کر رہی ہے۔ پہلگام واقعے کے حوالے سے محبوبہ مفتی نے واضح کیا کہ کشمیری تشدد نہیں، امن چاہتے ہیں اور وہ بدل چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعہ پہلا موقع نہیں جب کشمیریوں پر الزام لگایا جا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں کارگل اور ممبئی حملے جیسے واقعات ہو چکے ہیں لیکن ہمیشہ مذاکرات کا عمل دوبار ہ شروع کیاگیا ۔محبوبہ مفتی نے کہاکہ بھارت اور پاکستان جیسے ہمسایہ ممالک کا جغرافیہ اور تاریخ تبدیل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دونوں ممالک کا بیک وقت کارروائی کرناانتہائی خطرناک ہوگا۔انہوں نے مودی حکومت پر زوردیاکہ وہ مزید عدم استحکام کو بڑھانے کی بجائے اہم اقدامات کرے۔محبوبہ مفتی نے مودی حکومت سے کہاکہ وہ کشمیریوں کے انسانی پہلو کو پہچانیں، انہیں خطرہ نہ سمجھیں اوریہ تصادم کا نہیں، دل کھولنے کا وقت ہے۔