وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ اور ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف کی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ راہنماؤں کو موجودہ قومی سلامتی کی صورتحال پر اہم بیک گراؤنڈ بریفنگ کا آغاز ہوگیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق بریفنگ کا اہتمام پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز میں کیا گیا ہے۔ جس میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔

بریفنگ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ قومی سلامتی کی صورتحال اور اس کے مضمرات کے حوالے سے دی جائے گی جبکہ شرکاء کو افواج پاکستان کی دفاعی تیاریوں، سفارتی اقدامات اور ریاستی مؤقف سے آگاہ کیا جائے گا۔

پاک بھارت کشیدگی اور موجودہ صورتحال میں یہ بریفنگ قومی یکجہتی اور اتحاد واتفاق کی اعلی مثال ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے واضح کیا تھا کہ وزارت اطلاعات کی جانب سے بریفنگ میں شرکت کا دعویٰ نامہ ملا ہے تاہم پی ٹی آئی اس میں شرکت نہیں کرے گی۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

شخصیت پرستی کی قومی سیاست کا تضاد

پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ شخصیات کے گرد کھڑی ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہاں ادارہ سازی کے بجائے افراد زیادہ مضبوط ہوتے ہیں ۔ یہ کھیل محض سیاست تک محدود نہیں بلکہ ہر شعبے تک اس کی شکلیں دیکھ سکتے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور کے بجائے شخصیات کو اہمیت دی جارہی ہے۔ اگر ہم پاکستان کو دیکھیں تو ہمیں ایسے لگتا ہے جیسے قومی سیاست میں شخصیات بہت زیادہ غالب ہو گئی ہیں اور سیاست ان تک محدود ہے۔

 شخصیات کا سیاست میں بالادست ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے لیکن جب شخصیات کا قد اداروں سے بڑھ جائے تو پھر اداروں کی اہمیت کا کم ہونا زیادہ سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔کیونکہ ہم اپنے اجتماعی فیصلے آئین ، قانون، سیاست اور جمہوریت کے تناظر میں کرنے کے بجائے اپنی سیاسی جماعت کی شخصیت کے سیاسی مفادات کو سامنے رکھ کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نواز شریف ہوں یا بانی تحریک انصاف، آصف علی زرداری یا مولانا فضل الرحمن یا شہباز شریف یہ سب اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن اصولی طور پر ان کی اہمیت سیاسی کارکنوں کی وجہ ہوتی ہے ۔

اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم شخصیات کو اس لیے مضبوط کرتے ہیں تاکہ جان بوجھ کر جمہوری اداروں کو کمزور کیا جا سکے۔ جمہوری اداروں کی بالادستی بنیادی طور پر  احتساب اور چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی بنیاد پر ہوتی ہے مگر اس کے لیے ہماری سیاسی قیادت تیار نہیں ہے اور یہ سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ دیگر طاقتور طبقات بھی خود کو جواب دہ بنانے کے لیے تیار نہیں ۔

شخصیت پرستی کی بنیاد اگر نفرت، تعصب اور منفی بنیادوں پر یا شدت پسندی سمیت جنونیت پر ہوگی تو اس سے قومی سیاست کے اندر اور زیادہ مسائل گہرے ہو جائیں گے۔یہ سب کچھ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ ہماری ترجیحات میں سیاست اور جمہوریت کی مضبوطی کا عمل کہیں کہیں دھندلا نظر آتا ہے۔

ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم سیاست کے ریموٹ کنٹرول کو اپنے ہاتھ میں رکھیں اور اس میں طاقت کا جو ارتکاز ہے وہ بھی ہمارے اپنے ہاتھ میں رہے۔شخصیت پرستی کا یہ جنون جان بوجھ کر سیاسی جماعتیں معاشرے میں پھیلاتی ہیں تاکہ وہ اپنی ورکروں کو یا اپنے کارکنوں کو نفرت اور محبت کے درمیان استعمال کر سکیں۔اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نہ صرف سیاسی جماعتوں کے اندر بلکہ سیاسی جماعتوں سمیت باقی معاشرے کے دیگر طبقات میں جو خلیج ہے وہ بڑھ رہی ہے۔

اس کا ایک اور بڑا نقصان ہم قومی سیاست میں جو مسائل ہیں ان کی درجہ بندی میں دیکھ رہے ہیں اور ایسے لگتا ہے جیسے ہماری ترجیحات قومی مسائل نہیں بلکہ غیر ضروری مسائل میں الجھ کر قوم کو مزید مشکل میں ڈالنا ہے۔سیاست میں اختلافات کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور یہ ہی جمہوریت کا حسن ہے۔لیکن جب اختلافات کو شدت پسندی کی بنیاد پر دشمنی کے ساتھ جوڑ دیا جائے اور اس میں شخصیت پرستی کا سیاسی کارڈ کھیلا جائے گا تو اس کے منفی اثرات کا مرتب ہونا فطری امر ہے۔

بنیادی طور پر پاکستان میں شخصیت پرستی کو کمزور کرنے کے حوالے سے اہل دانش کی سطح پر بھی کوئی بڑا کام نہیں ہو سکا۔کیونکہ جو کام اہل دانش نے اپنی سطح پر انفرادی یا اجتماعی سطح پہ کرنا تھا اس کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جا سکی، سیاسی جماعتوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن بنا کر پیش کرنے کا رواج بتدریج بڑھ رہا ہے۔

یہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہم قومی سیاست کی ترتیب میں منفی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔جب کہ مثبت عمل ہماری قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔شخصیت پرستی سے نمٹنے کے لیے ہمیں بنیادی طور پر اہل دانش کی سطح پر یا علمی اور فکری بنیادوں پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔مگر یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے اندر تمام طبقات مل جل کر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ وہ لوگوں کے سیاسی اور سماجی شعور کو آگے بڑھائیں ۔

شخصیت پرستی کا یہ کھیل پاکستان کی قومی سیاست کے اندر ایک بانجھ پن کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔جس سے نئی قیادت کا ابھرنا اور نئے سیاسی تصورات کا ابھرنا بھی ممکن نہیں رہا۔جب کہ پوری دنیا اس وقت تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے اور جدید سیاسی نظام اور جدید تصورات اور جدید ٹیکنالوجی کے تصورات عالمی سیاست پر غالب ہیں۔ تو ہمیں بھی اپنی سوچ اور فکر کو نئے خیالات کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔کیونکہ اگر ہم نے اپنے آپ کو نئے حالات کے ساتھ نہ جوڑا تو پھر ایسے میں ہماری سیاست کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔یہ صدی شخصیت پرستی کے مقابلے میں اجتماعیت کی صدی ہے۔

اس لیے ہمیں شخصیت پرستی کے گرد دائرہ لگانے کے بجائے کردار سازی پر توجہ دینی ہوگی۔ شخصیت پرستی کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ سچ اور جھوٹ کی تمیز کو ختم کر دیتا ہے۔لوگوں کو پوجا پرستی کی طرف مائل کرتا ہے اور ان میں اندھی تقلید کو فروغ دیتا ہے۔جو معاشرے میں کشادہ ذہن بنانے کے بجائے اسے تنگ نظری کی طرف لے کر جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی، سماجی، علمی اور فکری نظام کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ اس نے شخصیت پرستی کے معاملے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کو ایک بہت بڑے جن کے طور پر پیش کیا ہے۔

اس کے حق میں اہل دانش کی طرف سے بڑی بڑی دلیلیں دی جاتی ہیں اور اس کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہم دنیا کے تجربات سے سیکھنے کے لیے کچھ بھی تیار نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے خود کو ماضی کی غلطیوں سے جوڑا ہوا ہے یہ جو ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی یا تنگ نظری ہے اس کی ایک بڑی وجہ شخصیت پرستی ہے۔ اس شخصیت پرستی نے ہمارے سیاسی، سماجی، معاشی اور انتظامی ڈھانچوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔لیکن اس کا علاج ہماری ترجیحات کا حصہ نظر نہیں آ رہا۔اس لیے اس پر زیادہ غور ہونا چاہیے کہ ہم شخصیت پرستی کے کھیل میں کیسے خود کو باہر نکال سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی بحرانوں کا حل مذاکرات ہیں‘مرکزی شوریٰ جماعت اسلامی
  • یکساں قومی نصاب کی موجودہ شکل کو مسترد کرتے ہیں، فی الفور واپس لیا جائے، مجلس وحدت مسلمین
  • وزیراعظم سے ارکانِ قومی اسمبلی کی ملاقات، سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال
  •   صدرِ مملکت سے وزیرِ اعظم کی ملاقات، سیاسی اور معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • صدر مملکت سے وزیر اعظم کی ملاقات؛ سیاسی و معاشی صورتحال پر گفتگو
  • صدرِ مملکت سے وزیرِ اعظم کی ملاقات ، ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال پر گفتگو
  • پشاور میں محرم کمیٹی خیبرپختونخوا کا قومی اجلاس
  • شخصیت پرستی کی قومی سیاست کا تضاد
  • سینئر سیاستدان محمود مولوی کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات
  • پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو متحد ہونا ہوگا،وفاقی وزیر صحت