مالکان نے کہا کہ نئی قیمتوں سے تندور والوں کا نقصان ہو رہا ہے، ضلعی انتظامیہ نئی قیمتوں پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ روکا جائے اور گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ شہر کے تندور مالکان نے ڈی سی کوئٹہ کی جانب سے روٹی کی طے شدہ قیمتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تندور مالکان کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے چھاپے اور مالکان کی گرفتاری قابل مذمت ہے۔ آج کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تندور مالکان نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے آئے روز تندور پر چھاپے ماکر کام کرنے والے افراد کو گرفتار، تندوروں کو سیل کیا جاتا ہے، جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے ہمیں روٹی کا جو نیا ریٹ دیا گیا ہے، وہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ ہمیں دیگر صوبوں کی طرح 260 گرام کی روٹی 30 روپے میں فروخت کرنے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ پرائس کنٹرول کمیٹی بغیر کسی تجزیہ کے روٹی کی نئی قمیت مقرر کی ہے، جس سے تندور مالکان کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے تندور والوں کے ساتھ ظلم کی انتہاء کردی ہے۔ اب تک 100 سے زائد تندوروں کو سیل اور درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جس کی تندور مالکان مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں 100 سے زائد تندور مالکان نے نقصان کی وجہ سے تندور ازخود بند کر دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تندوروں کے خلاف جاری کارروائیاں فوری طور پر بند کی جائیں اور سیل تندوروں کو فوری طور پر کھولنے اور گرفتار افراد کو رہا کیا جائے اور ہمیں 260 گرام کی روٹی 30 روپے میں فروخت کرنے کی اجازت دی جائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ تندور مالکان کی جانب سے مالکان نے افراد کو

پڑھیں:

افغانستان سے حملہ کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کی ذمے داری کابل پر ہے،عطا تارڑ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-01-7
اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک )وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ مشترکہ نگرانی اور توثیق کے نظام کے قیام کے بعد اب یہ ذمہ داری کابل پر عائد ہوگی کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے جو افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔پاکستانی اور افغان طالبان وفود کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ہفتے کے روز استنبول میں شروع ہوا تھا، تاہم کابل سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں پر اسلام آباد کے دیرینہ تحفظات مذاکرات میں بڑا تنازعہ بنے رہے، جس کے باعث بات چیت میں تعطل پیدا ہوا۔بعد ازاں ترکی اور قطر نے دوسری بار ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں مذاکراتی عمل کو اس وقت بچا لیا، جب پاکستان نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ بات چیت ’ ناکام’ ہوگئی ہے اور اس کے مذاکرات کار وطن واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ان مذاکرات میں تین نکاتی سمجھوتہ طے پایا جنگ بندی کے تسلسل، امن کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی اور تصدیق کے ایک نظام کے قیام، اور معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں سزاؤں پر اتفاق۔ اس نظام کی عملی تفصیلات 6 نومبر کو استنبول میں دونوں جانب کے سینئر نمائندوں کی ملاقات کے دوران طے کی جائیں گی۔نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات نے استنبول میں زیرِ بحث نگرانی کے نظام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ دنوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے گا اور مشترکہ نظام کے طریقہ کار پر بات چیت ہوگی۔انہوں نے کہا، ’ ذمے داری افغان حکومت پر ہے کیونکہ ان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک اضافی فورم ہوگا جہاں شواہد فراہم کیے جائیں گے، اور افغان طالبان حکومت کو کارروائی کرنا ہوگی۔ اگر وہ کارروائی نہیں کرتے، تو انہیں سزا ملے گی۔’‘‘فتنہ الخوارج’’ کی اصطلاح ریاست کی جانب سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جبکہ بلوچستان میں سرگرم گروہوں کو ‘‘فتنہ الہندوستان’’ کہا گیا ہے تاکہ دہشت گردی اور عدم استحکام میں بھارت کے مبینہ کردار کو اجاگر کیا جا سکے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر یہ نظام قائم ہونے کے بعد افغانستان سے پاکستان پر حملہ ہو تو کیا پاکستان افغان سرزمین پر جوابی کارروائی کرے گا، تو عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ یہ صورتحال پر منحصر ہوگا۔انہوں نے جواب دیا، ’ اگر صورتحال بہت سنگین ہوئی اور پاکستان کو بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت جوابی کارروائی کا حق حاصل ہوا، تو فیصلہ حالات کے مطابق کیا جائے گا۔’انہوں نے مزید کہا، ’ جب یہ نظام قائم ہو جائے گا، مشترکہ تصدیق ہوگی اور شواہد سامنے آئیں گے، تو جو فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا، اسے سزا ملے گی۔ لیکن یہ حالات پر منحصر ہے۔ اب افغان طالبان کے پاس بہانے بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ چونکہ تیسرے فریق بھی شامل ہیں، انہیں کارروائی کرنا ہوگی۔’افغانستان کی جانب سے دہشت گردی کے مشتبہ عناصر کو پاکستان کے حوالے کرنے کی پیشکش سے متعلق سوال کے جواب میں عطاء اللہ تارڑ نے وضاحت کی کہ پاکستانی حکومت نے یہ پیشکش مسترد کر دی تھی اور سوال اٹھایا کہ افغان طالبان انتظامیہ مذاکرات کے بعد اس طرح کے بیانات کیوں دے رہی ہے۔انہوں نے کہا، ’ معاملہ واضح ہے: پاکستان نے پہلے ہی مطالبہ کیا تھا کہ جو دہشت گرد پاکستان کے لیے خطرہ ہیں، انہیں کنٹرول یا گرفتار کیا جائے۔ تاہم افغان فریق کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور انہیں حوالے کر دیا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ یہ نئے بیانات حقائق کو مسخ کر رہے ہیں۔ ہم نے فوری طور پر سرحدی راستے سے حوالگی کی تجویز دی تھی یہ ہمارا دیرینہ مؤقف ہے۔ ’ میں نہیں جانتا کہ وہ ایسے بیانات دے کر صورتحال کو کیوں پیچیدہ بنا رہے ہیں۔’

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • مسیحوں کے قتل عام کا الزام،ٹرمپ کی نائیجیریا کیخلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
  • افغانستان سے حملہ کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کی ذمے داری کابل پر ہے،عطا تارڑ
  • گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
  • ٹرمپ نے نائجیریا میں ممکنہ فوجی کارروائی کی تیاری کا حکم دیدیا
  •  بدقسمتی سے اسمبلی فورمز کو احتجاج کا گڑھ بنا دیا گیا : ملک محمد احمد خان 
  • بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم
  • پنجگور، لیویز فورس کے پولیس میں انضمام کیخلاف اہلکاروں کا احتجاج
  •  ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور نادہندگان کیخلاف مؤثر کارروائی کیلئے “ون ایپ” متعارف
  • بدقسمتی سے اسمبلی فورمز کو احتجاج کا گڑھ بنا دیا گیا ہے: ملک محمد احمد خان
  • امریکا میں الو بڑھ گئے، محکمہ داخلہ کا سخت کارروائی کا فیصلہ