بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی، ایم) کے صدر سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر فورمز عوام کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں۔

نجی اخبار میں شائع خبر کے مطابق گزشتہ شب شاہوانی اسٹیڈیم میں پارٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مینگل نے کہا کہ ان کی جماعت اپنی سیاست کے لیے حکومت سے اجازت لینے کی زحمت نہیں کرے گی، جب حکومت ہم سے احتجاج نہ کرنے کے لیے کہتی ہے، تو ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی غلط پالیسیوں کو ترک کرے، جو لوگوں کو احتجاج کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر حکام لوگوں اور بلوچ خواتین کی بے حرمتی کرتے ہیں، نسل کشی کرتے ہیں اور نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکتے ہیں تو ان کی پارٹی کیسے خاموش رہ سکتی ہے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ ان کی جماعت فوجی چھاؤنیوں کے باہر احتجاج کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔

اختر مینگل نے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خواتین رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس (ایم پی او) کے تحت غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا، اور عدالتیں انصاف کے بجائے تاریخیں دے رہی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدالتیں قانون اور آئین کے بجائے سیکٹر کمانڈروں کی مرضی کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کر رہی ہیں۔

اجلاس سے بی این پی (ایم) کے سینئر نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیا، اجلاس کے مقررین میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن اقرا بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نصر اللہ بلوچ اور پارٹی کے دیگر رہنما شامل تھے۔

انہوں نے ایم پی او کے تحت حراست میں لی گئی ڈاکٹر ماہ رنگ اور دیگر سیاسی کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے، جعلی مقابلوں میں قتل کیا جا رہا ہے، اور ان کی لاشوں کو صوبے بھر میں پھینکا جا رہا ہے۔

اجلاس میں ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گل زادی بلوچ، بیبرگ بلوچ اور دیگر سیاسی کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے متعدد قراردادیں منظور کی گئیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: انہوں نے کیا کہ

پڑھیں:

میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، جسٹس جمال مندوخیل

تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، کسی سے آپ زبردستی کام نہیں لے سکتے
سوال ہے کہ کیا میں بحیثیت جج اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہوں؟ خطاب

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہاہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، آپ حیران ہوں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ انصاف تو اللہ کا کام ہے ہم تو بس فیصلہ کرتے ہیں، ہم اپنے سامنے موجود دستاویز کو دیکھ کر فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں۔اسلام آباد میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے سنا ہو گا کہ ججز بولتے نہیں لکھتے ہیں، سوچا تھا لکھی ہوئی تقریر پڑھ لوں گا مگر اب دل کی اور آئین کی بات کروں گا۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ صدیقی صاحب نے مشکل میں ڈال دیا کہ میں بالکل اچھا مقرر نہیں مگر بات کرنا ہو گی، آئین کے مطابق تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، آئین کے مطابق کسی سے آپ زبردستی کام نہیں لے سکتے ، ہم نے قوم کے حقوق کے تحفظ کے لیے حلف لیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پالیسی فیصلوں پر میں بات نہیں کر سکتا، ہمارا کلچر ہے کہ مل بیٹھ کر جرگے کی صورت میں بات کریں، میرا کوئی کمال نہیں کہ میں جج ہوں، سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے کام کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟ سوال ہے کہ کیا میں بحیثیت جج اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہوں؟ صرف آپ کو مزدور اور مجھے جج کا نام دیا گیا ہے ، میرا کوئی کمال نہیں کہ میں اس عہدے پر بیٹھا ہوں۔سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ جو میرا حلف ہے کہیں میں اس کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا؟ کوئی فریق کہے گا کہ میرا حق ہے مگر میں تو وہی فیصلہ کروں گا جو میرے سامنے دستاویز ہے ، اللّٰہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو حلف کی پابندی کرنے کی توفیق دے ، مجھیجو اتنے پرتعیش دفاتر اور وسائل ملے ہیں وہ مزدور اور آپ کے توسط سے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ جب ہم آپس میں بیٹھیں گے تو یقین ہے کہ مسائل حل ہوں گے ، کسی بھی ادارے کے ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ یونین بنائے ، یہی بہتر طریقہ ہے کہ مسائل بات چیت سے حل کیے جائیں، بہت سارے چھوٹے چھوٹے مسائل مل بیٹھ کر حل ہو سکتے ہیں، جس صوبے سے میرا تعلق ہے وہاں کان کنی کا کام ہے جو مزدور کرتے ہیں، جو کان کے اندر جاتے ہیں ان مزدوروں کے حوالے سے قوانین حکومت کو بنانے چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین میں درج حقوق سب کو ملنا چاہئیں، کوئی مزدور کسی کا غلام نہیں ہوتا، آئین کے مطابق ہم فیصلہ کرتے اور اس کا تحفظ کرتے ہیں، آئین میں درج پوری قوم کے حقوق کے تحفظ کا ہم نے حلف لیا ہے ، ہم نے جو بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ کسی کے دباؤ، خوف اور لالچ میں آئے بغیر کرنا ہے ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنے اور ساتھی ججز کی جانب سے یقین دلاتا ہوں ہم انصاف اور حقوق کا تحفظ کریں گے ، آئیں جو بھی مسئلہ ہے اس پر مل بیٹھیں، ججز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ میل جول نہ رکھیں، ہم جب کسی کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے ، معلوم نہیں صدیقی صاحب نے تعریف کی یا غیبت کہ میں صبح سویرے نہیں اٹھتا۔

متعلقہ مضامین

  • بی این پی کے سربراہ ا خترمینگل نے عوامی مزاحمت کا اعلان کردیا
  • بھارت کی آئی ایم ایف پروگرام کو سیاست زدہ کرنے کی کوشش ناکام
  • آزادی صحافت ،جمہوریت ،شفاف حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے،عطا تارڑ
  • انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے صحافیوں نے ہر دور میں قربانیاں دیں،خرم نواز گنڈا پور
  • آزادی صحافت جمہوریت و انسانی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے: عطاءاللّٰہ تارڑ
  • ظالم حکمران مظلوم بلوچ خواتین کی آواز سے خوفزدہ ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، جسٹس جمال مندوخیل
  • پاک بھارت کشیدگی، قومی اسمبلی کا اجلاس 5 مئی کو طلب کرنے کا فیصلہ
  • ہم نے ایک ایسا سازگار ماحول پیدا کرنا ہے جس میں آپکے حقوق کا تحفظ ہو ؛ وزیرِ قانون