پاک بھارت کشیدگی: آزاد کشمیر کے حساس علاقوں میں انتظامیہ نے آٹا ذخیرہ کرنا شروع کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
مظفرآباد(نیوز ڈیسک)آزاد جموں و کشمیر کے محکمہ خوراک نے بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور سرحد پار سے ممکنہ دراندازی کے خدشے کے پیش نظر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے حساس علاقوں میں گندم کے آٹے کے ذخائر کو بھرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
نجی چینل کی رپورٹ کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کے ایل او سی سے متصل، برف سے ڈھکے ہوئے اور دور افتادہ علاقوں میں محکمہ خوراک روایتی طور پر خصوصی طور پر تیار کردہ گندم کے آٹے کا ذخیرہ کرتا ہے، جس کی شیلف لائف طویل ہوتی ہے، تاکہ مقامی آبادی کو دسمبر سے مئی تک کی ضروریات میسر رہیں، جب کہ نسبتاً محفوظ علاقوں میں آسان رسائی کی وجہ سے معمول کا ذخیرہ 15 دن کی فراہمی تک محدود ہے۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق کی تازہ ہدایات پر محکمہ نے کم از کم 2 ماہ کے لیے رہائشیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دور افتادہ مقامات پر ذخائر میں اضافہ شروع کیا ہے۔
آزاد جموں و کشمیر کے وزیر خوراک چوہدری اکبر ابراہیم نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ ’وزیر اعظم کی ہدایات کے مطابق ہم نے پورے ایل او سی بیلٹ میں 2 ماہ تک گندم کے آٹے کا اسٹاک دستیاب یقینی بنانے کے لیے بھرپور آپریشن شروع کیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ممکنہ گولہ باری یا فوجی سرگرمیوں سے متاثرہ علاقوں سے خوراک کے ڈپوکو نسبتاً محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے پر بھی کام کر رہی ہے۔
وزیر خوراک آزاد کشمیر نے بتایا کہ متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ حساس آبادیوں کو بلا تعطل خوراک کی فراہمی کو برقرار رکھنے کے لیے ہنگامی منصوبے تیار کریں، بالخصوص ان علاقوں کو جو موسم سرما کے دوران یا بھارتی گولا باری کے واقعات کے دوران اکثر منقطع ہوجاتے ہیں۔
جمعرات کو وزیر اعظم آزاد کشمیر نے قانون ساز اسمبلی کو بتایا تھا کہ انہوں نے ایک خصوصی ’ایمرجنسی رسپانس فنڈ‘ تشکیل دیا ہے، جس کے لیے ابتدائی طور پر ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
یہ فنڈ 6 اضلاع نیلم، جہلم ویلی، حویلی، پونچھ، کوٹلی اور بھمبر میں پھیلے ایل او سی کے ساتھ واقع 13 حلقوں میں گندم کے آٹے کی دوبارہ فراہمی، زندگی بچانے والی دوائوں کی خریداری اور دیگر ضروری خدمات کی فراہمی جیسی فوری ضروریات کو پورا کرے گا۔
رابطہ کرنے پر محکمہ خوراک آزاد کشمیر کے ڈائریکٹر عبدالحمید کیانی نے کہا کہ ایل او سی کے ساتھ تمام ڈپوز میں گندم کے آٹے کا وافر ذخیرہ پہلے ہی محفوظ کرلیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاہم وزیراعظم کی ہدایات اور غیر یقینی صورتحال کی روشنی میں اب ہم 2 ماہ کی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنی اسٹوریج صلاحیت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محکمے کی جانب سے کام کرنے والے تمام ٹھیکیداروں کو کم سے کم وقت میں گندم کے آٹے کی ترسیل کے لیے زیادہ سے زیادہ گاڑیاں استعمال کرنے کے لیے متحرک کیا گیا ہے، فلور ملز اور ڈیلیوری زونز، دونوں میں براہ راست ترسیل کی نگرانی کر رہے ہیں۔
عبدالحمید کیانی کے مطابق اب تک تقریباً 70 فیصد ہدف حاصل کر لیا گیا ہے۔
ہفتے کے روز مظفرآباد کے مضافات میں واقع ایک مل سے تقریباً 250 ٹن آٹا روانہ کیا گیا۔
فوڈ انسپکٹر سید زوار حیدر (جو کہ فلور مل میں کارروائیوں کی نگرانی کر رہے تھے) نے بتایا کہ کھیپ وادی نیلم کے مختلف حصوں اور ضلع جہلم کے فارورڈ علاقوں میں بھیجی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بغیر کسی رکاوٹ کے اس کام کو انجام دے رہے ہیں، اور توقع ہے کہ اگلے 2 دن میں آپریشن مکمل ہو جائے گا۔
یوکرین نے روس کا جدید ترین طیارہ تباہ کردیا
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں گندم کے آٹے انہوں نے کہا کہ علاقوں میں ایل او سی کشمیر کے کے لیے
پڑھیں:
ریلیف پیکیج آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کرنا قابل مذمت ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-11-10
فیصل آباد(وقائع نگارخصوصی)جماعت اسلامی کے ضلعی امیرپروفیسرمحبوب الزماںبٹ نے کہاہے کہ حکومت کی طرف سے سیلاب متاثرین کیلئے ریلیف پیکیج کو آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کرنا بھی قابل مذمت اور قومی خود مختاری پر سوالیہ نشان ہے، وزیر اعظم اتنے بے اختیار ہو چکے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے اجازت لیکر عوام کیلئے بجلی کے بل معاف کر سکیں گے۔ صرف اگست کے بجلی کے بل معاف کرنے کی بجائے اگلے چھ ماہ کے بل معاف کئے جائیں۔انہوںنے کہاکہ سیلاب زدگان کے ریلیف اور امداد کیلئے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ حکومت کی طرف سے جامع پیکیج کا اعلان کیا جائے۔صرف بجلی کے بل ہی نہیں متاثرہ علاقوں میں کسانوں کا آبیانہ قرضے اور زرعی انکم ٹیکس معاف کیا جائے، کسانوں کو کھادبیج اور مویشیوں کیلئے چارہ بھی مفت فراہم کیا جائے۔ سیلاب زدہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ حکمران فضائی دوروں کی بجائے زمین پر آئیں اور لوگوں کے مسائل حل کریں ۔ متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور نکاسی آب بڑا مسئلہ ہے۔ بحالی کے اقدامات کے دوران سب سے پہلے تباہ شدہ پلوں کی تعمیر اور آبادیوں سے پانی کی نکاسی کا بندوبست کیا جائے۔ انہوںنے کہاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں متاثرین کی بحالی کے لیے بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا آغاز کریں۔ سیلابی علاقوںمیں تعفن پھیلنے کی وجہ سے ڈینگی، ملیریا، ہیضہ اور دیگر خطرناک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، لوگوں کو ادویات میسر نہیں اور طبی عملہ کی شدید کمی ہے۔ بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے تمام علاقوں میں میڈیکل کیمپ بنائے جائیں۔