جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی۔ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کارروائی میں غیر سنجیدگی کی وجہ سے باہر آگئے۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بھارتی جارحیت پاکستان کی سلامتی کےلیے مسئلہ ہے، قوم ملک کی دفاعی صلاحیت پر اعتماد کرتی ہے۔

قومی اسمبلی میں بھارت کیخلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور

قومی اسمبلی میں بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف قرارداد پیش کردی گئی، قرار داد طارق فضل چوہدری نے پیش کی۔

انہوں نے کہا کہ آج اسمبلی میں توقع تھی قرارداد آئے گی اور موجودہ صورتحال پر بحث ہوگی، نہ وزیراعظم، نہ وزیر خارجہ اور نہ ہی کوئی اہم وزیر ایوان میں موجود تھا۔

جے یو آئی سربراہ نے مزید کہا کہ اسمبلی میں ہم بانسری کس کے سامنے بجائیں، ہم ایک دوسرے پر تنقید کے دائرے سے نہیں نکل سکے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ بھارت نے حملہ کردیا تو داخلی صورتحال کی کیا اسٹریٹجی ہے؟ ملک کی آخری صورتحال کی کیا اسٹریٹجی بنائی گئی ہے؟

مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جنگ میں اضافہ ہو رہا ہے، ہم پارلیمنٹ کارروائی میں غیرسنجیدگی کی وجہ سے باہر آگئے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: فضل الرحمان اسمبلی میں کہا کہ

پڑھیں:

پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے  سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔

حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔

حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے،  ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ  قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان  نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔

متعلقہ مضامین

  • یو این چیف کا عالمی مسائل کے حل میں سنجیدگی اختیار کرنے پر زور
  • حشد الشعبی عراق کی سلامتی کی ضامن ہیں، عراقی سیاستدان
  • امت مسلمہ کے مابین باہمی دفاعی معاہدے کی ضرورت ہے، فضل الرحمان
  • مولانا فضل الرحمان کا قطر کے سفارتخانے کا دورہ، مسلمہ امہ کے درمیان دفاعی معاہدے کی ضرورت پر زور
  • پی ٹی آئی کےسینئٹرز کے استعفے پارلیمنٹ پہنچ گئے
  • امت مسلمہ کے مابین باہمی دفاعی معاہدے کی ضرورت ہے،مولانا فضل الرحمان
  • فضل الرحمان کا قطر کے سفارتخانے کا دورہ، امت مسلمہ کے درمیان دفاعی معاہدے کی ضرورت پر زور
  • امت مسلمہ کو باہمی دفاعی معاہدے کی ضرورت ہے، مولانا فضل الرحمان
  • سیاسی ماحول میں ہلچل، سینیٹر علی ظفر استعفے جمع کرانے پارلیمنٹ پہنچ گئے
  • پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ