اگلے 100 دن میں تیسری عالمی جنگ کی پیشگوئی
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 06 مئی ۔2025 )خود کو عہد حاضر کانوسٹراڈیمس کہلوانے والے امریکی نجومی کریگ ہیملٹن پارکر نے خبردار کیا ہے کہ اگلے 100 دنوں میں دنیا کے چار بڑے خطوں میں ایسے فلیش پوائنٹس جنم لے سکتے ہیں جو عالمی سطح پر شدید کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں حتی کہ تیسری عالمی جنگ کو جنم دے سکتے ہیں.
(جاری ہے)
کریگ نے سب سے خطرناک امکان تائیوان کے حوالے سے ظاہر کیا جسے چین اپنا حصہ سمجھتا ہے اور اس کے آس پاس مسلسل فوجی مشقیں کرتا ہے کریگ نے پیشگوئی کی کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ چین تائیوان پر بڑا قدم اٹھانے جا رہا ہے. انہوں نے کہا کہ ٹرمپ تائیوان کی مدد کو آئے گا لیکن اس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی کریگ ہیملٹن پارکر نے جنوبی ایشیا میں بھی بگڑتی صورتحال کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہاکہ میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ابھرتے ہوئے تنازعات دیکھ رہا ہوں اس نے خبردار کیا کہ بھارت کی فوج نیپال اور پاکستان میں داخل ہو سکتی ہے اور ٹرمپ اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے بھارت سے نئے عسکری اور اقتصادی معاہدے کرے گا تاکہ بھارت کو روس سے مزید دور کیا جا سکے. مشرقِ یورپ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے پارکر نے دعوی کیا کہ ٹرمپ روس سے ایسا معاہدہ کر سکتا ہے جس کے تحت یوکرین کریمیا پر اپنا دعوی واپس لے لے گا کریگ نے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کریمیا کو باضابطہ طور پر روس کے حوالے کر دیا جائے گا. پارکر نے خبردار کیا کہ اس کے باوجود یوکرین میں اگست کے آس پاس دوبارہ تشدد بھڑک سکتا ہے کریگ کی سب سے چونکا دینے والی پیشگوئی مشرقِ وسطی سے متعلق کی ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدہ ہوگا جس کے تحت غزہ کو اسرائیل میں ضم کر لیا جائے گا اس کا کہنا تھا کہ یہ اقدام خطے میں مزید غصہ اور بغاوت کو جنم دے گا. کریگ ہیملٹن پارکر نے کہا کہ عالمی امن کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوں گی میں دیکھ رہا ہوں کہ جون میں ہونے والی عالمی امن کانفرنس اختلافات اور بد نظمی کا شکار ہو کر ناکام ہو جائے گی یہ پیشگوئیاں اگرچہ محض نظریاتی بنیادوں پر کی گئی ہیں لیکن عالمی سیاست اور موجودہ کشیدہ حالات کے تناظر میں ان کی بازگشت دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹی بجا سکتی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں دیکھ رہا ہوں پارکر نے سکتے ہیں کریگ نے کہ میں
پڑھیں:
ایران میں امریکی فوجی مداخلت کے سنگین نتائج ناقابل پیشگوئی ہوں گے، روس کا انتباہ
روس کی وزارت خارجہ نے جمعرات کے روز امریکا کو خبردار کیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے تناظر میں ایران کے خلاف کسی قسم کی فوجی مداخلت سے گریز کرے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری فضائی جنگ شدت اختیار کر چکی ہے اور امریکا کے اس تنازعے میں شامل ہونے کی قیاس آرائیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا، روسی صدر پیوٹن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے ایک بیان میں مشرقِ وسطیٰ میں موجود امریکی افواج کی جانب سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کے امکان کا عندیہ دیا، اور ساتھ ہی تہران سے ’بلا شرط ہتھیار ڈالنے‘ کا مطالبہ بھی کیا، جس سے صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی۔
امریکا فوجی مداخلت سے گریز کرےروس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے جمعرات کو کہا:
ہم خاص طور پر واشنگٹن کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ اس صورتحال میں فوجی مداخلت سے گریز کرے۔ امریکا کی جانب سے ایسا کوئی قدم انتہائی خطرناک ہوگا جس کے نتائج سنگین اور ناقابلِ پیش گوئی ہوں گے۔
یہ انتباہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے چینی صدر شی جن پنگ سے فون پر گفتگو کی، جس میں دونوں رہنماؤں نے اسرائیلی کارروائیوں کی شدید مذمت کی اور فوری جنگ بندی پر زور دیا۔
کریملن کے بیان کے مطابق دونوں رہنما اسرائیل کے اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
مسئلہ سیاسی و سفارتی طریقوں سے حل ہونا چاہیےروسی صدر کے خارجہ امور کے مشیر یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ ماسکو اور بیجنگ دونوں کا ماننا ہے کہ یہ تنازع صرف اور صرف سیاسی و سفارتی طریقوں سے حل ہونا چاہیے۔
روس، ایران کے ساتھ قریبی عسکری تعلقات رکھتا ہے، خاص طور پر یوکرین پر حملے کے بعد دونوں ممالک کے روابط مزید مضبوط ہوئے ہیں، لیکن ماسکو اسرائیل کے ساتھ بھی متوازن تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایران سے رابطے میں ہوں، پیوٹنپیوٹن نے یہ بھی واضح کیا کہ اگرچہ اسرائیل کی بمباری کے بعد ایران سے رابطے میں ہیں، مگر ایران نے روس سے کسی قسم کی فوجی مدد کی درخواست نہیں کی۔
ان کے بقول ہمارے ایرانی دوستوں نے اس حوالے سے ہم سے کچھ نہیں کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنوری میں ایران کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا، وہ دفاعی معاہدہ نہیں بلکہ تعاون کی نوعیت کا ہے، جس کے تحت دونوں فریق ایک دوسرے کو فوجی مدد دینے کے پابند نہیں۔
آیت اللہ خامنہ ایجب پیوٹن سے پوچھا گیا کہ اگر آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کر دیا گیا تو روس کا ردعمل کیا ہوگا، تو انہوں نے جواب دیا:
’میں ایسی کسی صورتحال پر بات کرنا بھی نہیں چاہتا۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا ایران پیوٹن روس روسی صدر کریملن