سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل، اس مقدمے میں کیا کچھ ہوتا رہا؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
گزشتہ روز سپریم کورٹ آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق فیصلہ 60 سے زائد سماعتوں کے بعد محفوظ کر لیا جو اِسی ہفتے سنائے جانے کا اِمکان ہے۔
یہ فیصلہ ممکنہ طور پر پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اہم فیصلہ شمار کیا جائے گا اور آئندہ کے لیے طے کرے گا کہ سویلین ملزمان کے ٹرائل فوجی عدالتوں میں ممکن ہیں یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: فیصلہ کرلیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں، جسٹس جمال مندوخیل
اِس مقدمے کے دوران 9 مئی 2023 سے متعلق فوجی تحویل اور فوجی عدالتوں میں انڈر ٹرائل 103 ملزمان کی تفصیلات عدالت میں پیش کی گئیں اور فوجی عدالتوں نے سپریم کورٹ حکم کے تحت ان ملزمان کے خلاف فیصلے بھی سنا دیے ہیں۔
گزشتہ روز اٹارنی جنرل آف پاکستان نے آئینی بینچ کو بتایا کہ ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی دی گئی، ایم آر ڈی کی قیادت پابندِ سلاسل رہی پر وہ کچھ نہیں ہوا جو 9 مئی کو ہوا۔ جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے دلچسپ ریمارکس دیےکہ ہم 9 مئی مقدمے کے میرٹس پر تو بات کر ہی نہیں رہے۔
اٹارنی جنرل نے یہ بھی بتایا کہ جناح ہاوس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی جس میں 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن اور مراعات ریٹائر کر دیا گیا۔
مقدمے میں بحث کا مرکزی نقطہ کیا تھا؟بنیادی طور پر اس مقدمے میں بحث کا محور آرٹیکل 175 رہا۔ یہ آئین کا وہ آرٹیکل ہے جو عدالتوں کی تشکیل کی بنیاد فراہم کرتا ہے ساتھ ہی ساتھ یہ آرٹیکل عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ الگ بھی کرتا ہے۔ مقدمے میں بحث کا دوسرا مدعا آرٹیکل 10 اے یعنی رائٹ ٹو فیئر ٹرائل تھا۔ اس بات پر بحث کی گئی کہ آیا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آرٹیکل 10 اے کے تحت کسی ملزم کو حاصل حق رائٹ ٹو فیئر ٹرائل کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔
مقدمے کا بیک گراؤنڈ9 مئی 2023 کو بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو جب القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا تو اُس کے بعد ملک گیر ہنگامے پھوٹ پڑے،، قومی اور فوجی نوعیت کی عمارتوں اور تنصیبات کے باہر نہ صرف مظاہرے کیے گئے بلکہ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ بھی کیا گیا جن میں کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے۔ اس کے بعد تقریباً 1900 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ زیادہ تر لوگوں کے ٹرائل انسدادِ دہشتگردی عدالتوں جبکہ 103 لوگوں کے ٹرائل فوجی عدالتوں میں چلائے گئے۔
سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف پہلی درخواستیں بیرسٹر اعتراز احسن نے اپنے وکیل سردار لطیف کھوسہ اور سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل احمد حسن کے ذریعے سے دائر کیں۔
یہ بھی پڑھیے: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل،سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
23 جولائی 2023 کو سپریم کورٹ کے مستعفی جج جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رُکنی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو خلاف آئین قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے آرمی ایکٹ کی دفعات اور سیکشن 59(4) بھی کالعدم قرار دی ہیں۔
13 دسمبر 2023 کو جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے انٹرا کورٹ اپیلوں کی ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کردیا۔
فیصلے کے مطابق سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل جاری رہے گا، لیکن فوجی عدالتیں سپریم کورٹ ختمی فیصلے تک سویلین ٹرائل کا فیصلہ جاری نہیں کر سکیں گی۔
اس فیصلے کے ٹھیک ایک سال بعد 13 دسمبر 2024 کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے خلاف فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔
فوجی عدالتوں میں سویلیز کا ٹرائل آئینی بینچ میںاکتوبر 2024 میں آئینی بینچ کی تشکیل کی بعد یہ مقدمہ بھی آئینی بینچ کو منتقل ہوا تو 18 نومبر کو سردار لطیف کھوسہ نے مقدمے کی جلد سماعت کے لیے درخواست دائر کی۔ اُنہوں نے مذکورہ درخواست میں کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے اس سے قبل کیے گئے فیصلے میں 103 سویلین ملزمان کے مقدمات سویلین عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا جبکہ انٹراکورٹ اپیلوں میں سپریم کورٹ نے حتمی فیصلے سے روک رکھا ہے۔ عدالت نے یہ مقدمہ جنوری 2024 کے تیسرے ہفتے میں سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ابھی تک یہ مقدمہ سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو سکا۔
یہ بھی پڑھیے: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی یا پرائیویٹ بل لایا؟ جسٹس امین الدین خان
20 نومبر کو آئینی بینچ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے اعلامیہ جاری کیا کہ جسٹس عائشہ ملک سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق بینچ کا حصّہ نہیں رہ سکتیں کیوںکہ وہ پہلے والے اُس بینچ کا حصّہ تھیں جس نے 23 جولائی 2023 کو فیصلہ دیا تھا۔
5 دسمبر کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا مقدمہ 9 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا۔
9 دسمبر 2024 کو جب اِس مقدمے کی پہلی سماعت ہوئی عدالت نے فوجی عدالتوں کو مقدمات کے فیصلے سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی تھی۔
مقدمے کی پہلی اور آخری سماعت اور حفیظ اللہ نیازیعمران خان کے کزن اور معروف سیاسی تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی نے عدالت سے استدعا کی کہ اُن کا بیٹا ڈیڑھ سال سے تحویل میں ہے، فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی اجازت دی جائے یا اُسے عام جیل بھجوایا جائے تاہم اُس وقت عدالت نے مذکورہ استدعا مسترد کر دی تھی۔
گزشتہ روز اِس مقدمے کی آئینی بینچ کے سامنے آخری سماعت میں بھی حفیظ اللہ نیازی پیش ہوئے اور اُنہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا چلا رہا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں 2 مقامات کو لاک کر رکھا ہے، ایک کوٹ لکھپت جیل اور دوسرا جوہر ٹاؤن لاہور، میرا بیٹا بھی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہے۔ اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا، بے فکر رہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمارا دفاع مضبوط ہے۔
9 دسمبر 2024 پہلی سماعتاُس وقت آئینی بینچ میں موجود جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا تھا کہ آرمی پبلک اسکول حملے کے ملزمان کا ٹرائل کیسے ہوا تھا جس پر وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے بتایا کہ اُس وقت 21 ویں آئینی ترمیم کی گئی تھی۔
اس مقدمے کی پہلی سماعت 9 دسمبر کو ہوئی۔ وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے پہلی سماعت پر کہا کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ سویلنز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا بلکہ آرمی ایکٹ مسلح افواج کے ساتھ کام کرنے والی کمپنیوں کے ملازمین پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ 9 دسمبر کی سماعت میں جسٹس مسرت ہلالی نے استفہامیہ انداز میں ریمارکس دیےکہ کور کمانڈرز جب اپنے گھر کو دفتر کی طرح استعمال کریں تو اُسے دفتر ڈکلیئر کرتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیے: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: قانون کے اطلاق کا معیار طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے عدلیہ کا نہیں، وکیل خواجہ حارث
مقدمے کی تیسری سماعت 12 دسمبر کو ہوئی تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیےکہ جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اِس کے ڈسپلن کے ماتحت کیسے ہو سکتا ہے جس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے کہا کہ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فوجی کو قتل کرنے اور فوجی تنصیبات پر حملے کے مقدمے انسدادِ دہشت گردی عدالتوں میں چلتے ہیں جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ذاتی عناد پر کسی فوجی کا قتل الگ چیز جبکہ بلوچستان اور پختونخواہ میں فوج پر حملے الگ چیز ہیں۔
سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، جسٹس امین الدین خان کے ریمارکسجسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ قانون کو اُس کے غلط استعمال پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ ایک جرم فوجی کرے اور ہی جرم عام آدمی کرے تو ٹرائل الگ جگہ کیسے ہو سکتا ہے۔
ایک سماعت پر اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ سویلین کی ایک کیٹگری بھی آرمی ایکٹ کے زُمرے میں آتی ہے۔ یہ تفریق کیسے ہو گی کہ کونسا سویلین آرمی ایکٹ کے ماتحت آتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکسجسٹس جمال خان نے ایک سماعت میں کہا کہ 9 مئی کا جرم تو ہوا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کلین چٹ نہیں دی گئی، سوال یہ ہے کہ ٹرائل کہاں ہوگا؟ یہ پالیسی فیصلہ بھی کرلیں کہ سول نظام ناکام ہو چکا، تمام مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوا دیں۔
فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔ آئین کا آرٹیکل 175 صرف عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے۔کوئی شخص جو فوج کا حصّہ نہ ہو، صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زُمرے میں کیسے آ سکتا ہے۔ آرمی ایکٹ تو واضح کرتا ہے کہ محکمانہ کاروائی کے ساتھ فوجداری سزا بھی دی جاتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9 مئی آئینی بینچ پی ٹی آئی کارکن ٹائم لائن سانحہ نو مئی سماعت سویلینز کا ملٹری ٹرائل عدالت فوجی عدالتیں گرفتاری مقدمہ نو مئی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی کارکن ٹائم لائن سویلینز کا ملٹری ٹرائل عدالت فوجی عدالتیں گرفتاری سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس امین الدین خان وکیل خواجہ حارث فوجی عدالتوں کو سپریم کورٹ کے سماعت کے لیے رمی ایکٹ کے پہلی سماعت میں سویلین سویلینز کا ا رمی ایکٹ ملزمان کے نے کہا کہ ا نہوں نے کا ٹرائل دسمبر کو مقدمے کی اور فوجی نہیں ہو کے خلاف سکتا ہے ا رٹیکل کیسے ہو کرتا ہے نے اپنے کے بعد
پڑھیں:
سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے حق میں دائر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا، آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کے مطابق محفوظ فیصلہ اسی ہفتے سنایا جائے گا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی، جہاں اٹارنی جنرل منصور اعوان نے اپنے دلائل مکمل کیے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو دن 3 بجے سے شام تک 39 جگہوں پر حملہ کیا گیا، پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی دی گئی لیکن ردعمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو 9 مئی کو ہوا تھا، جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل: آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، سلمان اکرم راجہ کا موقف
اٹارنی جنرل کے مطابق ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی، اصغر خان 3 ساڑھے 3 سال تک نظر بند رہے، اس دوران بھی 9 مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا، 9 مئی کو اگر ری ایکشن میں بھی یہ سب کچھ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ پاکستان ایک عام ملک نہیں ہے، جیوگرافی کی وجہ سے اسے کافی خطرات کا سامنا رہتا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، آپ اپیل کی طرف آئیں اپیل کا بتائیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو اس پر بات کرنا ضروری ہے، جناح ہاؤس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی، 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پینشن اور مراعات ریٹائر کیا گیا، جن میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک برگیڈیئر، اور ایک لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل،سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ کیا فوج نے کسی افسر کیخلاف فوجداری کارروائی بھی کی۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہوتا، محکمانہ کارروائی 9 مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کارروائی کےساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پنجاب میں 23، خیبرپختونخوا میں 8، سندھ میں 7 اور بلوچستان میں ایک واقعہ ہوا، جی ایچ کیو لاہور ،ایئر بیس میانوالی سمیت آئی ایس آئی کے دفاتر پر حملے ہوئے، 9 مئی کو رونما ہونیوالے تمام واقعات اتفاقیہ نہیں تھے۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 5:40 سے شام 9 بجے تک پوری کور غیر فعال ہوچکی تھی، 9 مئی کو اگر لاہور پر بیرونی جارحیت ہوتی تو جواب نہیں دیا جاسکتا تھا،
جسٹس اظہر رضوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے،
لوگوں نے خودسوزیاں کیں کیں کسی نے اس وقت پراپرٹی کو آگ نہیں لگائی، اٹارنی جنرل بولے؛ میرے والد نے خود بطور سیاسی کارکن مقدمات بھگتے، کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا کہ پبلک پراپرٹی کوجا کر نقصان پہنچائیں۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیخلاف فیصلہ پر اپیل: اٹارنی جنرل اصل فیصلہ میں غلطی دکھائیں، جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا جناح ہاوس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا؟ اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا، جس پر منصور اعوان بولے؛ میں اس کو چیک کر کے بتاؤں گا کیسے ہوا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا کیا جرم کی نیت سے ہی ہوا، کیا نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ کرنے کی، ہوسکتا ہے نیت احتجاج کی ہوئی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا مؤقف تھا کہ 9 مئی کو جو ہوا جرم ہی تھا، اس موقع پر جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہ آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں، ہم نے 9 مئی واقعہ کی میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی.
مزید پڑھیں:سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، تحریری حکمنامے میں کیا کہا گیا ہے؟
جسٹس نعیم اختر افغان کے مطابق میرٹ پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑے گا، 9 مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے، 9 مئی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب شاید آپ کے لیے دینا ممکن نہ ہوں۔
جسٹس نعیم اختر افغان کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بغیر پینشن ریٹائر کیے گئے جنرل کور کمانڈر لاہور ہی تھے، جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے دریافت کیا کہ کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ سے جب اپیل آئے گی تو عدالت کو معلوم ہوجائے گا، جس پر جسٹس نعیم اختر افغان بولے؛ یہی تو بات ہے کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے بہتر ہے یہ باتیں نہ کریں۔
مزید پڑھیں: سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں ترمیم مشکل کام ہے لیکن 26 مرتبہ کر لیا گیا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ایسا کیا ہے کہ اس میں آسانی سے ہونے والی ترمیم بھی نہیں کی جاتی، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجی عدالتوں سے سزاؤں کیخلاف اپیلیں دائر ہوچکی ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان کے مطابق اب تک 86 مجرمان اپیلیں کر چکے ہیں جبکہ دیگر مجرموں کو اپیل دائر کرنے کے وقت میں رعایت دی جائے گی، اپیل کا حق دینے کے لیے سپریم کورٹ کا آئینی بینچ آبزرویشن دے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے کہنے کی مثال میں ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے، سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ موجود ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ اس فیصلے میں تو پارلیمنٹ کو باقاعدہ ہدایت جاری کی گئی تھی، پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں:فوجی عدالتوں کا کیس: آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، جسٹس جمال مندوخیل
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ آج انہوں نے 45 منٹ مانگے تھے جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات کے تھے، 20 منٹ صرف جسٹس جمال مندوخیل کے لیے رکھے تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انہیں اپنا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ ملک کے مستقبل کا سوچ رہے ہیں، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر اپیلوں پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
آئینی بینچ نے سربراہ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ شارٹ آرڈر کے ذریعے محفوظ فیصلہ اسی ہفتے جاری کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ اٹارنی جنرل انٹرا کورٹ پارلیمنٹ جسٹس اظہر رضوی جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل جسٹس مسرت ہلالی سپریم کورٹ سویلینز قانون سازی کور کمانڈر لاہور ملٹری ٹرائل منصور اعوان