Islam Times:
2025-08-07@07:56:27 GMT

غزہ میں سراسیمگی کا شکار اسرائیلی جنگی حکمت عملی

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

غزہ میں سراسیمگی کا شکار اسرائیلی جنگی حکمت عملی

اسلام ٹائمز: نیوز ویب سائٹ کریڈل نے اپنی رپورٹ میں صیہونی معاشرے میں بڑھتے تناو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسے وقت جب صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو یہ دعوی کر رہا ہے کہ وہ "بھرپور کامیابی" کی جانب گامزن ہے اور مشرق وسطی کا چہرہ تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلط پسندی اور اندرونی خلفشار کی جانب دھکیل رہا ہے۔ اسرائیل پہلے سے کہیں زیادہ انتشار کا شکار ہو چکا ہے اور اندرونی ٹکراو شدت سے بڑھتا جا رہا ہے۔ کریڈل نیوز ویب سائٹ مزید لکھتا ہے کہ نیتن یاہو نے مارچ 2025ء کے شروع میں غزہ سے جنگ معاہدہ توڑتے ہوئے کہا تھا کہ ہم سات محاذوں پر جنگ کے اگلے مراحل کے لیے تیار ہو رہے ہیں جبکہ اس نے اندرونی مشکلات کو نظرانداز کر دیا تھا۔ اسرائیل کے اندر جو محاذ آرائی جاری ہے اس سے نجات حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں پایا جاتا۔ تحریر: علی احمدی
 
صیہونی فوج نے دھمکی دی ہے کہ اگر جنگ بندی کے بارے میں مذاکرات آگے نہ بڑھے تو غزہ میں جاری فوجی کاروائی میں مزید وسعت اور شدت لائی جائے گی۔ یہ دھمکی حقیقت سے قریب ہونے کی بجائے غاصب صیہونی رژیم کی جنگی حکمت عملی میں بوکھلاہٹ اور سراسیمگی ظاہر کرتی ہے۔ خاص طور پر یہ کہ صیہونی فوج کے بقول گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے جاری جنگ اور حریدی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا فوج میں شامل نہ ہونے کے باعث صیہونی فوج کو 10 ہزار فوجیوں کی کمی کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے اعتراف کیا ہے کہ جمعہ کے روز غزہ میں حماس کے حملے میں اس کے دو مزید فوجی مارے گئے ہیں۔ یہ دو فوجی لاجسٹک افسر اور گروپ کمانڈر ایدو ولوخ 21 سالہ اور رینجرز کا خفیہ پولیس کا افسر 19 سالہ پیتزاک کاہانا تھے۔
 
گذشتہ کچھ دنوں سے غزہ میں صیہونی فوجیوں پر حماس کی جانب سے گھات لگا کر حملوں میں دوبارہ تیزی آئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس نے اپنی فوجی طاقت کا بڑا حصہ محفوظ کر رکھا ہے۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے چند دن پہلے بھی اعلان کیا تھا کہ غزہ شہر کے محلے التفاح میں اس کے فوجی آر پی جی حملے کا نشانہ بنے ہیں۔ صیہونی اخبار ہیوم کو سیکورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ جنگ جاری رہنے کے باوجود اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس سے مذاکرات جاری ہیں اور قطر کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے بھی پریس کانفرنس میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مذاکرات تعطل کا شکار نہیں ہوئے اور ہم دونوں فریقوں کو غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی جانب واپس لانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ لیکن اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال ان مذاکرات میں کوئی اہم پیش رفت حاصل نہیں ہو سکی۔
 
دوسری طرف عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار اسرائیلی ہیوم نے ایک باخبر صیہونی ذریعے کے بقول خبردار کیا ہے کہ اگر آئندہ دو ہفتے تک جنگ بندی مذاکرات میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو اسرائیلی فوج غزہ میں فوجی آپریشن کا دائرہ مزید بڑھا دے گی۔ اس باخبر ذریعے نے بتایا کہ جنگ کے دائرے میں توسیع بڑے پیمانے پر ریزرو فوج تعینات کرنے پر مشتمل ہو گی۔ ریزرو فوج تعینات کرنے کی کوشش ایسے حالات میں انجام پا رہی ہے جب صیہونی ذرائع ابلاغ کے بقول اسرائیلی فوج افرادی قوت کی شدید کمی کا شکار ہو چکی ہے اور لازمی فوجی ٹریننگ کی مدت مزید چار ماہ تک بڑھا دی گئی ہے۔ اسی طرح ہر قسم کی چھٹی ختم کر دی گئی ہے اور تمام فوجیوں کو تین سال سے پہلے چھٹی لینے سے منع کر دیا گیا ہے۔
 
صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوت کے بقول یہ فیصلہ اسرائیلی فوج کو درپیش افرادی قوت میں کمی دور کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے کیونکہ اس وقت اسرائیلی فوج کو دس ہزار فوجیوں کی کمی ہے جن میں سے سات ہزار فوجیوں کا تعلق لڑاکا یونٹس سے ہے۔ اس سے پہلے صیہونی کابینہ نے ایک نیا قانون منظور کرنے کی کوشش کی تھی جس میں لازمی فوجی سروس بڑھا کر تین سال تک کر دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن انتہاپسند آرتھوڈوکس اراکین کی شدید مخالفت کے باعث یہ قانون منظور نہیں ہو پایا۔ انتہاپسند آرتھوڈوکس یہودی جو حریدی کے نام سے جانے جاتے ہیں، ایک کروڑ یہودی آبادی کا تقریباً 13 فیصد حصہ ہیں۔ وہ لازمی فوجی سروس کے مخالف ہیں جبکہ فوج میں بھی شامل نہیں ہوتے۔ ان کی وجہ سے صیہونی معاشرہ دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔
 
غاصب صیہونی رژیم کے اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے حریدی یہودیوں کو فوج میں بھرتی کرنے کی بجائے ریزرو فورس کے افراد لائن حاضر کرنے پر مبنی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ صیہونی کابینہ اس اقدام کے ذریعے حریدی یہودیوں کو فوج میں بھرتی کرنے کی بجائے ریزرو فورس پر دباو بڑھا رہی ہے۔ الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق یائیر لاپید نے کہا کہ یہ اقدام حریدی یہودیوں کو ملنے والی مالی امداد پر سوال اٹھنے کا باعث بنے گا۔ اس نے کہا: "ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے اور جو بھی فوج میں بھرتی ہونے سے گریز کرے گا اس کی مالی امداد ختم کر دی جائے گی۔" یائیر لاپید نے مزید افراد بھرتی نہ کر سکنے پر صیہونی فوج پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "وہ حتی کافی تعداد میں فوجی بھی بھرتی نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے حریدی یہودیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔"
 
نیوز ویب سائٹ کریڈل نے اپنی رپورٹ میں صیہونی معاشرے میں بڑھتے تناو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسے وقت جب صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو یہ دعوی کر رہا ہے کہ وہ "بھرپور کامیابی" کی جانب گامزن ہے اور مشرق وسطی کا چہرہ تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلط پسندی اور اندرونی خلفشار کی جانب دھکیل رہا ہے۔ اسرائیل پہلے سے کہیں زیادہ انتشار کا شکار ہو چکا ہے اور اندرونی ٹکراو شدت سے بڑھتا جا رہا ہے۔ کریڈل نیوز ویب سائٹ مزید لکھتا ہے کہ نیتن یاہو نے مارچ 2025ء کے شروع میں غزہ سے جنگ معاہدہ توڑتے ہوئے کہا تھا کہ ہم سات محاذوں پر جنگ کے اگلے مراحل کے لیے تیار ہو رہے ہیں جبکہ اس نے اندرونی مشکلات کو نظرانداز کر دیا تھا۔ اسرائیل کے اندر جو محاذ آرائی جاری ہے اس سے نجات حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں پایا جاتا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حریدی یہودیوں کو نیوز ویب سائٹ اسرائیلی فوج اور اندرونی صیہونی فوج نیتن یاہو ہے کہ وہ کرنے کی نے اپنی کی جانب نہیں ہو کے بقول کرنے کا کا شکار فوج میں ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

غزہ کے مقبوضہ فلسطین سے الحاق کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، مصر کی وارننگ

قاہرہ نے گذشتہ چند گھنٹوں کے دوران مختلف سفارتی چینلز کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل کو براہ راست طور پر غزہ کی پٹی مکمل طور پر مقبوضہ فلسطین سے ملحق کر دیے جانے کے خطرناک نتائج سے خبردار کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مصر نے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کی پٹی پر وسیع فوجی جارحیت اور اس پر مکمل فوجی قبضہ جما لینے کو اپنی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ایسا اقدام 1979ء میں مصرف اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ العالم نیوز چینل پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق قاہرہ کا موقف ہے کہ غزہ کی پٹی پر غاصب صیہونی فوج کا کوئی بھی وسیع پیمانے پر حملہ غزہ پر نئی صورتحال مسلط کرنے کی کوشش قرار پا سکتا ہے اور مصر یقینی طور پر ایسے اقدام کے خلاف "فیصلہ کن سفارتی ردعمل" ظاہر کرے گا۔ اسی طرح ممکن ہے تل ابیب سے دوطرفہ امن معاہدوں سمیت مختلف سطحوں پر نظرثانی بھی انجام پا جائے۔ یاد رہے مصر نے رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ کی پٹی سے رابطہ برقرار کر رکھا ہے اور وہ صیہونی فوج کی جانب سے کسی بھی ایسے وسیع فوجی آپریشن پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے جس کے نتیجے میں فلسطینی مہاجرین کی بڑی تعداد جلاوطن ہو کر مصر میں داخل ہو جائے۔ دوسری طرف اسرائیلی اور مغربی ذرائع ابلاغ سے موصول ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ سے فلسطینیوں کو جبری جلاوطن کر دینے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ مصر نے اس اقدام کو اپنے لیے سرخ لکیر قرار دے رکھا ہے۔
 
مصر کے سابق سفیر اور سفارتکار معصوم مرزوق نے اس بارے میں کہا: "موجودہ صورتحال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی بارود کے ڈھیر کے قریب چنگاری لے کر جائے۔" انہوں نے خبردار کیا کہ موثر اقدامات انجام دینے میں ہر دن کی تاخیر ڈیٹرنس طاقت میں کمی کا باعث بن رہی ہے اور جارحانہ اقدامات کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے صیہونی دشمن کی ہوس بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا: "اگرچہ بہت سے مواقع ضائع ہو چکے ہیں لیکن اب بھی فوری اور فیصلہ کن اقدامات کی اشد ضرورت ہے اور ممکن ہے علاقائی سطح پر المیہ روکنے کا یہ آخری موقع ہو۔" دوسری طرف مصر کے سابق نائب وزیر خارجہ اور سفیر رخا احمد حسن نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ مصر غزہ، مغربی کنارے، جنوبی لبنان اور جنوبی شام میں غاصب صیہونی رژیم کے ہر قسم کے فوجی قبضے کو مسترد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونیوں کی جانب سے یہ غاصبانہ قبضہ "اقوام کے حقوق پر واضح جارحیت اور بین الاقوامی قانون کی ناقابل برداشت مخالفت ہے جبکہ فلسطینیوں کی اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے حق کی پامالی بھی ہے جسے بین الاقوامی چارٹر میں تمام اقوام کا مسلمہ حق قرار دیا گیا ہے۔" سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے غزہ کو مقبوضہ فلسطین سے ملحق کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جس کے تحت غزہ پر وسیع فوجی جارحیت کا امکان ہے۔
 
غاصب صیہونی رژیم نے فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے مکمل خاتمے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ لیکن غزہ پر وسیع فوجی جارحیت کا نتیجہ نہ صرف حماس کے خاتمے کی صورت میں ظاہر نہیں ہو گا بلکہ اس کے باعث مزید عام شہری حماس کی صفوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اسی طرح ایسی صورت میں بڑے پیمانے پر جلاوطنی اور قتل عام بھی انجام پانے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ یاد رہے اگر غزہ پر بڑا فوجی حملہ ہوتا ہے اور وہاں سے بڑی تعداد میں فلسطینی جلاوطنی پر مجبور ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے سب سے زیادہ قریب جگہ مصر ہی ہو گا۔ اس خطرے نے مصر کو بہت تشویش کا شکار کر رکھا ہے اور وہ ایک حساس انسانی امتحان کی گھڑی سے گزرنے والا ہے۔ مصر سمجھتا ہے کہ بڑی تعداد میں فلسطینی مہاجرین کی آمد سے اس کی آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا اور یوں اس کی قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو اور فوجی سربراہان میں اختلاف خطرناک حد تک شدید ہو چکا ہے، میڈیا ذرائع
  • صدر ٹرمپ کی نئی اقتصادی حکمت عملی: روسی تیل پر پابندیاں، خود امریکا کو خطرہ؟
  • غزہ کے مقبوضہ فلسطین سے الحاق کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، مصر کی وارننگ
  • غزہ میں جنگی جرائم کا ملزم امریکہ کیجانب سے روس کیلئے ثالث مقرر
  • احتجاجی تحریک: پی ٹی آئی اسلام آباد نے اپنی حکمت عملی کا اعلان کردیا
  • صیہونی رژیم کے فوجی اور سیاسی اداروں میں اختلافات کی شدت بڑھنے لگی
  • تحریک انصاف نے اسلام آباد جلسہ منسوخ کر کے احتجاجی حکمت عملی تبدیل کر دی
  • غزہ میں لڑائی سے خوفزدہ اسرائیلی فوجی خود کشی کرنے لگے، رپورٹ
  • فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی نئی سفارتی حکمت عملی
  • پی ٹی آئی 5 اگست احتجاج پر واضح حکمت عملی بنانے میں ناکام، قیادت تقسیم