ایٹم بم پھٹنے کے ہولناک اثرات
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
دنیا میں انسان نے جتنی ترقی کی ہے اتنے ہی خطرناک ہتھیار بھی ایجاد کرلئے ہیں۔ ان میں سب سے تباہ کن ہتھیار ایٹم بم ہے۔ اگرچہ یہ ہتھیار جنگی مقاصد کے لیے بنایا گیا مگر اس کے اثرات صرف دشمن فوج یا عسکری اہداف تک محدود نہیں رہتے بلکہ شہری آبادی، نسلوں، ماحول اور انسانیت پر اس کے دیرپا اور ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگرایٹم بم کسی آبادی میں پھٹ جائےتو اسکے اثرات تصورسے زیادہ ہولناک ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے زبردست روشنی اور حرارت پیدا ہوتی ہے جو ہزاروں ڈگری سینٹی گریڈ پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس حرارت کی وجہ سے قریبی انسان، جانور، درخت، عمارتیں، سب کچھ راکھ بن جاتے ہیں۔ جو لوگ کچھ فاصلے پر ہوتے ہیں وہ یا تو جھلس جاتے ہیں یاشدید زخمی ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک زوردار دھماکہ خیز لہر (blast wave) آتی ہے جو کئی کلومیٹر کے دائرے میں عمارتوں کو زمین بوس کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تابکاری (radiation) کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ نظر نہ آنے والی زہریلی توانائی انسانی جسم کے خلیوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ متاثرہ افراد کو الٹی، بخار، بال جھڑنے، جلد کا سیاہ ہونا، اندرونی خون بہنا اور دیگر مہلک علامات لاحق ہو جاتی ہیں۔ بعض افراد فوری موت کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ کینسر یا دیگر بیماریوں سے مرتے ہیں۔
ایٹمی حملے کے صرف فوری اثرات ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے طویل المدتی نتائج بھی تباہ کن ہوتے ہیں۔ تابکاری زمین، پانی اور ہوا کو آلودہ کر دیتی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں کئی سال تک فصلیں نہیں اگتیں، جانور بیمار ہو جاتے ہیں، اور انسانوں میں جینیاتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ آئندہ نسلوں میں معذوری، دماغی کمزوری اور پیدائشی نقائص دیکھنے میں آتے ہیں۔یہ سب صرف نظریاتی خطرات نہیں بلکہ 1945 ء میں جاپان پر ہونے والے دو ایٹمی حملے ان کا عملی ثبوت ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے۔6 اگست 1945 ء کو امریکہ نے ہیروشیما پر “Little Boy” نامی یورینیم بم گرایا۔ اندازا 70,000 لوگ فورا ہلاک ہو گئے۔ اگلے چند دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں مزید ہزاروں افراد تابکاری، زخموں اور بیماریوں سے مر گئے۔ شہر کا 90 فیصد حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔9اگست 1945 ء کو ناگاساکی پر “Fat Man” نامی پلوٹونیم بم گرایا گیا، جس سے تقریبا ً40,000 افراد فوری طور پر ہلاک ہو گئے اور بعد میں مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچی۔ دونوں شہروں میں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی، معاشی اور سماجی تباہی کئی دہائیوں تک جاری رہی لیکن آج جو ایٹمی ہتھیار دنیا کے کچھ ممالک بشمول پاکستان اور بھارت کے پاس ہیں ان کی طاقت ہیروشیما پر گرائے گئے بم سے درجنوں یا سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔ جدید نیوکلیئر ہتھیار نہ صرف بڑے علاقے کو آنِ واحد میں تباہ کر سکتے ہیں بلکہ ان کے بعد آنے والی تابکاری، ماحولیاتی آلودگی اور ’’نیوکلیئر ونٹر‘‘ جیسے اثرات پوری دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں۔جدید تھرمو نیوکلیئر بم جب پھٹتے ہیں تو وہ تقریبا 28 ملین ڈگری سینٹی گریڈ (یعنی تقریبا 50 ملین ڈگری فارن ہائٹ) تک حرارت پیدا کرتے ہیں جو سورج کے مرکز کے درجہ حرارت جتنا یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔
تھرمو نیوکلیئر بم دو مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے کو ’’فشن‘‘ کہا جاتا ہے جس میں ایک عام ایٹم بم جیسا دھماکہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یورینیم یا پلوٹونیم کے ایٹمز کو توڑ کر بے پناہ توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ یہ توانائی دوسرے مرحلے یعنی ’’فیوژن‘‘ کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں ہائیڈروجن کے ایٹمز کو آپس میں ملا دیا جاتا ہے اور اس عمل سے کئی گنا زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو کائنات کے خالق و مالک اللہ رب العزت نے سورج میں پیدا کیا ہے۔ تھرمو نیوکلیئر بم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ملین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا دائرہ اثر سینکڑوں کلومیٹر تک پہنچ جاتاہے۔اس میں پیداہونے والی تابکاری، شدیدحرارت، جھٹکا اوردبائو چاروں انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کی تباہی کا دائرہ محض ایک شہر تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے ملک کو متاثر کرسکتا ہے۔ اس خوفناک دھماکے سے بچ جانے والے افراد شدید تابکاری کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجےمیں انہیں کینسر،جسمانی و ذہنی بیماریاں، جلدکا جھلس جانا اور جینیاتی خرابیاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بم سے اٹھنے والے دھوئیں اور راکھ کی موٹی تہہ سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک دیتی ہے جس سے زمین کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور دنیا بھر میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، جسے جوہری سردی یا نیوکلیئر ونٹر کہا جاتا ہے۔
جاپان پر کئےگئے حملوں کے بعد دنیا کو پہلی بار ایٹمی ہتھیاروں کی ہولناکی کا احساس ہوا۔ تب سے لے کر آج تک دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیار تو بنائے گئے، تجربات بھی ہوئے، مگر کسی ملک نے دوبارہ کسی دوسرے ملک پر ایٹم بم استعمال نہیں کیا۔ یہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ایٹمی جنگ کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔دنیا میں اب نو ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ہیں جن میں امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس، بھارت، پاکستان، اسرائیل (غیر رسمی طور پر) اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں ممالک کی ایٹمی صلاحیت نے ایک توازن پیدا کر رکھا ہے مگر یہ توازن بہت نازک ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو لاکھوں افراد فوری ہلاک ہو سکتے ہیں اور اس کے بعد کے اثرات پورے برصغیر بلکہ پوری دنیا میں محسوس کیے جائیں گے۔ تابکاری، ماحولیاتی تبدیلی، غذائی قلت، اور عالمی معیشت پر شدید اثرات پڑ سکتے ہیں۔ایٹمی ہتھیاروں کے خطرات کو دیکھتےہوئےدنیا میں کئی معاہدے اور کوششیں کی جا رہی ہیں جیسے NPT (Non-Proliferation Treaty) اور CTBT (Comprehensive Test Ban Treaty)، مگر بدقسمتی سے ان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ طاقتور ممالک اپنے مفادات کی خاطر ان معاہدوں کو نظرانداز کرتے ہیں جس سے ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو جاری ہے۔انسانیت کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ کسی روایتی جنگ سے نہیں بلکہ ایٹمی جنگ سے ہے۔ اس لیے تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے دفاع کے نام پر ایسے ہتھیاروں کی دوڑ سے باہر نکلیں اور پائیدار امن کی کوشش کریں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایٹمی ہتھیاروں ایٹمی ہتھیار ہو جاتے ہیں ہوتے ہیں دنیا میں سکتے ہیں ہیں اور ایٹم بم جاتا ہے ہوتی ہے دیتی ہے کے بعد
پڑھیں:
پاکستان: گولہ پھٹنے سے 5 بچوں کی ہلاکت پر یونیسف کا اظہار افسوس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ میں بم دھماکے سے پانچ بچوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام بچوں کو بارودی سرنگوں اور اَن پھٹے گولہ بارود سے تحفظ ملنا چاہیے۔
ادارے نے متاثرہ بچوں کے خاندانوں، دوستوں اور اس افسوسناک واقعے سے متاثرہ تمام لوگوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے صوبے میں ایسے بارودی مواد کی موجودگی کی مذمت کی ہے جس سے بچوں سمیت شہریوں کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
Tweet URLیہ واقعہ تین روز قبل خیبرپختونخوا کے شہر لکی مروت میں پیش آیا جہاں بچوں نے ایک کھیت میں موجود مارٹر گولے کو کھلونا سمجھ کر اٹھایا اور اسے گاؤں میں لے آئے جہاں وہ دھماکے سے پھٹ گیا جس سے پانچ بچے ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔
(جاری ہے)
یونیسف کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بارودی سرنگوں اور ایسے دیگر مواد سے بچوں کو کہیں زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں کیونکہ جب وہ ایسی چیز دیکھتے ہیں تو انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ کس قدر خطرناک ہو سکتی ہے۔ جب یہ بارودی مواد پھٹتا ہے تو بڑوں کے مقابلے میں بچوں کو سنگین زخم آنے اور ان کی موت واقع ہونے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
بارودی مواد سے تحفظ کی تربیترواں سال جنوری کے بعد یونیسف نے خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت کے تعاون سے 9,500 بچوں کو دھماکہ خیز مواد سے لاحق خطرات کے بارے میں آگاہی دی ہے۔ اس تعلیم و تربیت کی بدولت بچوں، ان کی نگہداشت کرنے والوں اور اساتذہ کو یہ جاننے میں مدد ملی کہ بارودی سرنگوں اور اَن پھٹے مواد کو پہچاننا اور اس سے بچنا کیونکر ممکن ہے۔
یونیسف نے پاکستان کی حکومت اور شراکت داروں سے کہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ تعلیم و تربیت مہیا کرنے میں تعاون کریں تاکہ بچوں کو تحفظ زندگی سے متعلق ضروری معلومات میسر آ سکیں۔
ادارے نے واضح کیا ہے کہ تمام بارودی سرنگوں اور اَن پھٹے گولہ بارود کو صاف کرنے، بچوں کو تحفظ دینے، متاثرین کی بحالی اور محفوظ ماحول میں زندگی گزارنے سے متعلق ہر بچے کے حق کو برقرار رکھنے کے لیے مرتکز اور تیزرفتار اقدامات کی ہنگامی بنیاد پر ضرورت ہے۔