Daily Ausaf:
2025-09-22@05:01:15 GMT

ایٹم بم پھٹنے کے ہولناک اثرات

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

دنیا میں انسان نے جتنی ترقی کی ہے اتنے ہی خطرناک ہتھیار بھی ایجاد کرلئے ہیں۔ ان میں سب سے تباہ کن ہتھیار ایٹم بم ہے۔ اگرچہ یہ ہتھیار جنگی مقاصد کے لیے بنایا گیا مگر اس کے اثرات صرف دشمن فوج یا عسکری اہداف تک محدود نہیں رہتے بلکہ شہری آبادی، نسلوں، ماحول اور انسانیت پر اس کے دیرپا اور ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگرایٹم بم کسی آبادی میں پھٹ جائےتو اسکے اثرات تصورسے زیادہ ہولناک ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے زبردست روشنی اور حرارت پیدا ہوتی ہے جو ہزاروں ڈگری سینٹی گریڈ پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس حرارت کی وجہ سے قریبی انسان، جانور، درخت، عمارتیں، سب کچھ راکھ بن جاتے ہیں۔ جو لوگ کچھ فاصلے پر ہوتے ہیں وہ یا تو جھلس جاتے ہیں یاشدید زخمی ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک زوردار دھماکہ خیز لہر (blast wave) آتی ہے جو کئی کلومیٹر کے دائرے میں عمارتوں کو زمین بوس کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تابکاری (radiation) کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ نظر نہ آنے والی زہریلی توانائی انسانی جسم کے خلیوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ متاثرہ افراد کو الٹی، بخار، بال جھڑنے، جلد کا سیاہ ہونا، اندرونی خون بہنا اور دیگر مہلک علامات لاحق ہو جاتی ہیں۔ بعض افراد فوری موت کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ کینسر یا دیگر بیماریوں سے مرتے ہیں۔
ایٹمی حملے کے صرف فوری اثرات ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے طویل المدتی نتائج بھی تباہ کن ہوتے ہیں۔ تابکاری زمین، پانی اور ہوا کو آلودہ کر دیتی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں کئی سال تک فصلیں نہیں اگتیں، جانور بیمار ہو جاتے ہیں، اور انسانوں میں جینیاتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ آئندہ نسلوں میں معذوری، دماغی کمزوری اور پیدائشی نقائص دیکھنے میں آتے ہیں۔یہ سب صرف نظریاتی خطرات نہیں بلکہ 1945 ء میں جاپان پر ہونے والے دو ایٹمی حملے ان کا عملی ثبوت ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے۔6 اگست 1945 ء کو امریکہ نے ہیروشیما پر “Little Boy” نامی یورینیم بم گرایا۔ اندازا 70,000 لوگ فورا ہلاک ہو گئے۔ اگلے چند دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں مزید ہزاروں افراد تابکاری، زخموں اور بیماریوں سے مر گئے۔ شہر کا 90 فیصد حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔9اگست 1945 ء کو ناگاساکی پر “Fat Man” نامی پلوٹونیم بم گرایا گیا، جس سے تقریبا ً40,000 افراد فوری طور پر ہلاک ہو گئے اور بعد میں مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچی۔ دونوں شہروں میں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی، معاشی اور سماجی تباہی کئی دہائیوں تک جاری رہی لیکن آج جو ایٹمی ہتھیار دنیا کے کچھ ممالک بشمول پاکستان اور بھارت کے پاس ہیں ان کی طاقت ہیروشیما پر گرائے گئے بم سے درجنوں یا سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔ جدید نیوکلیئر ہتھیار نہ صرف بڑے علاقے کو آنِ واحد میں تباہ کر سکتے ہیں بلکہ ان کے بعد آنے والی تابکاری، ماحولیاتی آلودگی اور ’’نیوکلیئر ونٹر‘‘ جیسے اثرات پوری دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں۔جدید تھرمو نیوکلیئر بم جب پھٹتے ہیں تو وہ تقریبا 28 ملین ڈگری سینٹی گریڈ (یعنی تقریبا 50 ملین ڈگری فارن ہائٹ) تک حرارت پیدا کرتے ہیں جو سورج کے مرکز کے درجہ حرارت جتنا یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔
تھرمو نیوکلیئر بم دو مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے کو ’’فشن‘‘ کہا جاتا ہے جس میں ایک عام ایٹم بم جیسا دھماکہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یورینیم یا پلوٹونیم کے ایٹمز کو توڑ کر بے پناہ توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ یہ توانائی دوسرے مرحلے یعنی ’’فیوژن‘‘ کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں ہائیڈروجن کے ایٹمز کو آپس میں ملا دیا جاتا ہے اور اس عمل سے کئی گنا زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو کائنات کے خالق و مالک اللہ رب العزت نے سورج میں پیدا کیا ہے۔ تھرمو نیوکلیئر بم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ملین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا دائرہ اثر سینکڑوں کلومیٹر تک پہنچ جاتاہے۔اس میں پیداہونے والی تابکاری، شدیدحرارت، جھٹکا اوردبائو چاروں انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کی تباہی کا دائرہ محض ایک شہر تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے ملک کو متاثر کرسکتا ہے۔ اس خوفناک دھماکے سے بچ جانے والے افراد شدید تابکاری کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجےمیں انہیں کینسر،جسمانی و ذہنی بیماریاں، جلدکا جھلس جانا اور جینیاتی خرابیاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بم سے اٹھنے والے دھوئیں اور راکھ کی موٹی تہہ سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک دیتی ہے جس سے زمین کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور دنیا بھر میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، جسے جوہری سردی یا نیوکلیئر ونٹر کہا جاتا ہے۔
جاپان پر کئےگئے حملوں کے بعد دنیا کو پہلی بار ایٹمی ہتھیاروں کی ہولناکی کا احساس ہوا۔ تب سے لے کر آج تک دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیار تو بنائے گئے، تجربات بھی ہوئے، مگر کسی ملک نے دوبارہ کسی دوسرے ملک پر ایٹم بم استعمال نہیں کیا۔ یہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ایٹمی جنگ کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔دنیا میں اب نو ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ہیں جن میں امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس، بھارت، پاکستان، اسرائیل (غیر رسمی طور پر) اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں ممالک کی ایٹمی صلاحیت نے ایک توازن پیدا کر رکھا ہے مگر یہ توازن بہت نازک ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو لاکھوں افراد فوری ہلاک ہو سکتے ہیں اور اس کے بعد کے اثرات پورے برصغیر بلکہ پوری دنیا میں محسوس کیے جائیں گے۔ تابکاری، ماحولیاتی تبدیلی، غذائی قلت، اور عالمی معیشت پر شدید اثرات پڑ سکتے ہیں۔ایٹمی ہتھیاروں کے خطرات کو دیکھتےہوئےدنیا میں کئی معاہدے اور کوششیں کی جا رہی ہیں جیسے NPT (Non-Proliferation Treaty) اور CTBT (Comprehensive Test Ban Treaty)، مگر بدقسمتی سے ان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ طاقتور ممالک اپنے مفادات کی خاطر ان معاہدوں کو نظرانداز کرتے ہیں جس سے ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو جاری ہے۔انسانیت کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ کسی روایتی جنگ سے نہیں بلکہ ایٹمی جنگ سے ہے۔ اس لیے تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے دفاع کے نام پر ایسے ہتھیاروں کی دوڑ سے باہر نکلیں اور پائیدار امن کی کوشش کریں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایٹمی ہتھیاروں ایٹمی ہتھیار ہو جاتے ہیں ہوتے ہیں دنیا میں سکتے ہیں ہیں اور ایٹم بم جاتا ہے ہوتی ہے دیتی ہے کے بعد

پڑھیں:

ہم نے ڈاکٹر خان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250920-03-3

 

متین فکری

ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی تو اپنے ہیروز اور محسنوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، ان کے راستے میں آنکھیں بچھاتے ہیں انہیں عزت و توقیر اور مقبولیت کے بلند ترین مقام پر بٹھاتے ہیں لیکن جو لوگ حکمران وقت ہوتے ہیں وہ اس مقبولیت سے حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں اور قوم کے محسنوں کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں کہ انسانیت شرمانے لگتی ہے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ابھی ایسا ہی ہوا۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکے تو بھارت کے جواب میں 28 مئی 1998ء کو کیے لیکن ڈاکٹر خان نے گولڈٹسٹ کے ذریعے پاکستان کو بہت پہلے ایٹمی صلاحیت سے ہمکنار کردیا تھا۔ یہ جنرل ضیا الحق کا دور حکومت تھا، پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر کشیدگی پھیلی ہوئی تھی بھارت اپنی فوج کا بڑا حصہ سرحدوں پر لے آیا تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر خان نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں جنرل ضیا الحق کو بریفنگ دی اور انہوں نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو وارننگ دی کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا ہم تمہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ وارننگ اتنی دو ٹوک اور واضح انداز میں دی گئی تھی کہ راجیو گاندھی کے پسینے چھوٹ گئے اور اس نے بھارتی فوجوں کو سرحدوں سے واپس بلالیا۔

بھارت نے مئی 1998ء کے آغاز میں 4 ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان پر سبقت لے جانے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان کے بارے میں اس کا رویہ بالکل بدل گیا تھا۔ وہ پاکستان کو مسلسل ڈرانے اور دبانے کی کوشش کررہا تھا۔ چنانچہ پاکستان پر بھی بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اس وقت میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم تھے۔ ان کی کابینہ کے اکثر ارکان ایٹمی دھماکا کرنے کے مخالف تھے، امریکا کا بھی میاں نواز شریف پر دبائو تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی صورت میں صدر کلنٹن نے انہیں اربوں ڈالر کی پیش کش کی تھی لیکن بزرگ صحافی مجید نظامی کی وارننگ کام کر گئی انہوں نے میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’میاں صاحب اگر آپ نے دھماکے نہ کیے تو قوم آپ کا دھماکا کردے گی‘‘۔ چنانچہ میاں صاحب نے نہ چاہتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دے دیا۔ ان کی جگہ کوئی بھی وزیراعظم ہوتا تو اسے یہ کام کرنا پڑتا کیونکہ حالات کا تقاضا یہی تھا۔ انہوں نے صرف حکم دیا تھا۔ دھماکے تو اس ٹیکنیکل ٹیم نے کیے تھے جو اس مقصد کے لیے چاغی (بلوچستان) گئی تھی، البتہ میاں نواز شریف کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ایٹمی صلاحیت کا کریڈٹ ڈاکٹر خان سے چھیننے کی کوشش کی تھی اور ان کے مقابلے میں ایک اور سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو آگے لایا گیا تھا اور ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ ان کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ کوشش بُری طرح ناکام رہی اور عوام نے ڈاکٹر خان کو ہی سر آنکھوں پہ بٹھایا اور انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا خالق اور ہیرو قرار دیا۔

نائن الیون کے بعد جب جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے آگے سرنڈر کردیا تو امریکا کی حریصانہ نگاہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بھی پڑنے لگیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر فوج کی تحویل میں تھا۔ ڈاکٹر خان اس پروگرام کے بانی اور معمار ضرور تھے لیکن انہیں من مانی کرنے کی آزاد نہ تھی سب کچھ فوج کے کنٹرول میں تھا لیکن امریکا نے نہایت بددیانتی کے ساتھ ڈاکٹر خان کے خلاف ایٹمی پھیلائو کی مہم شروع کردی، ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ ایران، شمالی کوریا اور دیگر ملکوں کو غیر قانونی طور پر ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرکے دنیا میں خطرناک ایٹمی پھیلائو کے مرتکب ہورہے ہیں جس سے عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ امریکی اور یورپی میڈیا میں ڈاکٹر خان کے خلاف یہ مہم اتنی بڑھی کہ امریکا نے اس کی آڑ میں ڈاکٹر خان پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔ جنرل پرویز مشرف سے کہا گیا کہ وہ ڈاکٹر خان کو امریکا کے حوالے کردیں۔ جنرل پرویز مشرف پہلے ہی امریکا کے آگے گھٹنے ٹیک چکے تھے وہ امریکا کے اس دبائو کا سامنا نہ کرسکے اور آمادہ ہوگئے، چنانچہ امریکی طیارہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو لینے کے لیے آگیا اور نور خان ائر بیس پر کھڑا ہوگیا لیکن ڈاکٹر خان کو امریکا کے حوالے کرنے کے لیے کابینہ اور وزیراعظم کی منظوری ضروری تھی۔ وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کی قومی غیرت آڑے آگئی انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے اصرار کے باوجود کابینہ کا اجلاس بلانے اور ڈاکٹر خان کی امریکا منتقلی کے حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا اس طرح امریکی طیارہ کئی دن تک ائر بیس پر کھڑا رہنے کے بعد خالی واپس چلا گیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا ڈاکٹر خان کو اپنی تحویل میں لے کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بیان دلوانا چاہتا تھا اور اس بیان کی روشنی میں وہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرکے اسے ایٹمی صلاحیت سے محروم کردیتا لیکن ظفر اللہ جمالی کی مخالفت نے اس کا یہ منصوبہ ناکام بنادیا۔ اگرچہ جمالی کو اس کی قیمت وزارت عظمیٰ سے برطرفی کی صورت میں ادا کرنا پڑی لیکن وہ پاکستان پر احسان کرگئے۔

ڈاکٹر خان کے ساتھ ناروا سلوک کا سلسلہ ان کی زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر خان سے ٹیلی فون پر باقاعدہ معافی منگوائی اور انہیں ایٹمی پھیلائو کے حوالے سے اعترافی بیان دینے پر مجبور کیا۔ انہیں ان کے قائم کردہ ادارے کے آر ایل کہوٹا کی سربراہی سے محروم کردیا گیا، ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگادی گئی اور انہیں عملاً نظر بند کردیا گیا۔ انہوں نے باقی زندگی اسی حال میں گزاری۔ ان کا انتقال ہوا تو حکمرانوں میں سے کوئی بھی ان کے جنازے میں نہیں گیا۔ البتہ عوام نے بڑی تعداد میں ان کے سفر آخرت میں شرکت کی۔ وہ آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں جس شخص کا چرچا کیا جارہا ہے اور یوم تکبیر کے موقع پر سرکاری اشتہارات میں جس کی تصویر لگائی جارہی ہے وہ مر گیا تو کوئی اس کا نام لیوا بھی نہ ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • پاک سعودی عرب معاہدے سے معاشی استحاکم پیدا ہوگا،ہاشم خان
  • پاکستان سعودی عرب تاریخی دفاعی معاہدہ...بدلتی دنیا پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے!!
  • دہشت گردی کا تسلسل اور قومی ذمے داری کا تقاضا
  • پاکستان ہمارا محافظ، آزاد کشمیر میں افراتفری پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، سردار عتیق
  • تصادم کی فضا پیدا کرنے سے امریکہ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا، بگرام ائیربیس ایشو پر چین کا ردعمل
  • ہم نے ڈاکٹر خان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا
  • البانیہ میں تاریخ رقم: دنیا کے پہلے اے آئی وزیر کا پارلیمنٹ میں خطاب
  • مصنوعی ذہانت سیاست میں داخل، البانیہ کے وزیر کا پارلیمنٹ سے پہلا خطاب
  • موضوع: آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے دین اور اخلاق پر اثرات اور مستقبل 
  • خوارج کی جانب سے مساجد کو فتنہ انگیزی کےلئے استعمال کرنے کا ہولناک انکشاف