پروفیسرخورشید احمد ..اہل کشمیر کے پشتیبان وامت کے پاسباں
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
ان سارے مراحل پر وفیسر مرحوم پارلیمنٹ کے فلور سے اور ہر دستیاب پلیٹ فارم سے حکمرانوں کو متوجہ کرتے رہے کہ وہ اپنے اصولی اور بنیادی موقف سے انحراف نہ کریں اور عالمی سطح پر بطورفریق مسئلہ پر جرات سیاپنا موقف منوائیں لیکن بدقسمتی سے پسپائی کا عمل نہ رک سکا اس عرصے میں بطور مدیر ترجمان القران انہوں نے شاہکار اداریے تحریر کئے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہونے والی جدوجہد اس میں دی جانے والی قربانیاں بھارت کی سازشیں اور بین الاقوامی استعمار کے ہتھکنڈوں کو کیسے ناکام بنایا جا سکتا ہے اور کیسے یہ تحریک اپنی حتمی آزادی کی منزل سے ہمکنار ہو سکتی ہے پرجامع حکمت عملی اور لائحہ عمل پیش کرتے رہے وہ ہمیشہ مایوسی کے اندھیروں میں امید کے چراغ جلاتے رہے بدقسمتی سے ہمارے حکمران اور پالیسی ساز ادارے ان سے کماحقہ استفادہ نہ کر سکے لیکن پروفیسر صاحب کے رہنما اصولوں پر مبنی وہ اداریے ایک مستقل لائحہ عمل کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ حلقوں کو استفادہ کرنا چاہیے ۔
نوے کی دہائی میں ملک کے نامور سینیئر مدبر سیاستدان جناب نواب ذادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں پارلیمانی کشمیر کمیٹی نے بڑا فعال کردار ادا کیا اس کی کارکردگی کے حوالے سے بھی پروفیسر صاحب نے بڑا فعال کردار ادا کیا نواب صاحب پروفیسر صاحب کا بے پناہ احترام کرتے تھے اور ان ہی کی تحریک پر راقم کو بھی کشمیر کمیٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا نواب صاحب کی قیادت میں یورپ اور مسلم ممالک کے دوروں میں سردارابرہیم مرحوم ایس ظفر مرحوم وغیرہم کے ساتھ رہنے کا موقع ملا اور مسئلہ کشمیر پر الحمدللہ بھرپور ترجمانی کرنے کی کوشش کی کشمیر کمیٹی کی فعالیت کے حوالے سے پروفیسر صاحب کی ہر تجویز نواب صاحب خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے چنانچہ پے در پہ پارلیمانی وفود ساری دنیا میں بھیجے گئے جن میں باقی جماعتی قائدین کے علاوہ لیاقت بلوچ ،مظفر ہاشمی مرحوم اور پروفیسر الیف الدین ترابی مرحوم برگیڈیئر شفیع مرحوم سمیت دیگر حریت قائدین کو ان دوروں میں کشمیر کاز کی نمائندگی کرنے کا موقع ملتا رہا پروفیسر صاحب ہی کی تجویز پر اس مسئلے کو جنرل اسمبلی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا نواب صاحب کی قیادت میں وفد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پہنچا پروفیسر صاحب بھی اس وفد کا حصہ تھے لیکن بدقسمتی سے وزارت خارجہ کا مناسب ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے بالکل آخری مرحلے میں جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ واپس لیا گیا جس پر پروفیسر صاحب اور نواب صاحب بہت رنجیدہ ہوئے۔
اسی طرح نوے کی دہائی میں مکہ مکرمہ میں حج کے موقع پر تمام نمائندہ کشمیری اور پاکستانی قیادت کو باہم مل بیٹھنے کا موقع ملا اور مسئلہ کے حوالے سے ایک اعلامیہ مکہ ڈیکلریشن کے عنوان سے منظور کیاگیا جو تحریک آذادی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اعلامیہ کی تیاری کے لئے جناب خالد رحمان راقم اور پروفیسر ترابی صاحب پر مشتمل کمیٹی قائم ہوئی جس نے پروفیسر صاحب کی رہنماء میں مسودہ تیار کیا جسے متفقہ طور منظور کیا گیا اس کانفرنس میں جناب نوابزادہ نصراللہ خان جناب قاضی حسین احمد راجہ ظفرالحق ،پروفیسر خورشید احمد ،لیاقت بلوچ اس وقت کے وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم قائد حزب اختلاف راجہ ممتاز حسین راٹھور قائدین حریت مقبوضہ کشمیر سے سید علی گیلانی ،غلام نبی سو مجھی ، الطاف شاہ ، ڈاکٹر ایوب ٹھوکر ، ڈاکٹر غلام نبی فائی ، نذیر قریشی محمد غالب ،خالد رحمان ، پروفیسر الیف الدین ترابی ،غلام محمد صفی ،سید یوسف نسیم ،مشتاق وانی مرحوم ، بریگیڈئر محمد شفیع میرے معاون خصوصی انجینئر عابد خواجہ شریک ہوئے اس جامع اعلامیہ میں بھارتی عزائم اور مظالم کے تدارک کے لئے عالمی برادری او آء سی کو ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنے کے ساتھ پاکستانی حکومت اورعوام اورخود کشمیریوں کے کردار کا احاطہ کیا گیا۔
پروفیسر صاحب سید علی گیلانی سے لے کر سید صلاح الد ین تک تمام مزاحمتی کشمیری قیادت کا بے پناہ احترام کرتے تھے اوران کے مسائل کے حل کے لئے بے تاب رہتے تھے جناب یاسین ملک کی شادی کے موقع پر بانفس نفیس شریک ہوکر ان کی حوصلہ افزاء کی قلمی محاذ پر سید علی شاہ گیلانی کے لا ذوال کنٹری بیوشن کے معترف بھی تھے اور ان کی کتب کی اشاعت کے لئے اہتمام بھی کرتے تھے گیلانی صاحب اور اشرف صحرائی صاحب کی شھادتوں کے بعد متبادل قیادت کی تیاری کے حوالے سے بہت فکر مند تھے مودی حکومت اگست2019کے اقدامات کے بعد ریاستی اور کشمیری تشخص کی تحلیل پر سخت رنجیدہ اور فکر مند تھے جسکا اظہار اشارات میں کرتے رہے جیلوں میں محبوس حریت قائدین اور کارکنان کے مسئلہ کو بھی ہمیشہ فکرمندی سے اجاگر کیا۔
مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین ہو یا امت مسلمہ کے دیگر مسائل اسی طرح اسلامی فوبیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں کا سلسلہ اور مسلم دنیا سے امتیازی سلوک روا رکھے جانے کے عملاور اس طرح کے جملہِ درپیش مسائل اجاگر کرنے کے لیے اسلامی تحریکوں کا ایک وفد جناب پروفیسر نجم الدین اربکان صاحب کی قیادت میں یورپ اور امریکہ کے دورے پر روانہ ہوا اس کے روح رواں بھی جناب پروفیسر صاحب مرحوم ہی تھے جناب لیاقت بلوچ بھی اس وفد کا حصہ تھے اور انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک نیز ترکی اور خلیجی ممالک کے منتخب نمائندے اور اہل دانش اس وفد میں شامل تھے امریکہ کے تھنک ٹینکس اور پالیسی ساز حلقوں میں اس وفد نے بچا طور پر مسلم دنیا کے جذبات کی ترجمانی کی اسی طرح سے یورپی ممالک میں بھی جہاں جہاں جانے کا موقع ملاا بھرپور طور پر ان مسلم مسائل کو اجاگر کیا گیا اور مغربی دنیا کو مسلمانوں سے امتیازی سلوک ختم کرنے اور عدل و انصاف پر مبنی رویہ اختیار کرنے پر متوجہ کیا گیا اسی طرح پروفیسر صاحب کی سرپرستی میں ممتاز دانشور حاشر فاروقی صاحب مرحوم کی ادارت میں Impact international کے نام سے ایک بین الاقوامی جریدہ سال ہا سال مغربی اہل دانش اور تھنک ٹینکس میں ان اہم مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا ایک کردار ادا کرتا رہا مسئلہ کشمیر کے علاوہ مسئلہ فلسطین ہو امت کی وحدت ہو اور امت مسلمہ کے دیگر مسائل سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کہ مصداق پروفیسر صاحب ان مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے ان سے وابستہ رہنما وں اور کارکنان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے مجھے جناب قاضی حسین احمد صاحب مرحوم اور پروفیسر صاحب مرحوم کی قیادت میں افغان مجاہدین کے اختلافات ختم کرنے کے لیے جانے والے اسلامی تحریکوں کے وفود میں بھی شامل ہونے کا موقع ملتا رہا جس درد سے ہمارے ان قائدین نے اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے شب و روز کوششیں کی وہ انہی کا حصہ ہے اسی طرح خلیجی ممالک کی باہم جنگوں میں سعودی عرب اور عراق کے درمیان خلیج ختم کرنے کے لیے قاضی حسین احمد مرحوم کی قیادت میں اسلامی تحریکوں کے قائدین میں پروفیسر خورشید نے ایک نمایاں اور بھرپور کردار ادا کیا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پروفیسر صاحب کی قیادت میں مسئلہ کشمیر کرنے کے لیے کے حوالے سے نواب صاحب کرتے رہے کرتے تھے تھے اور کا موقع صاحب کی کیا گیا کے لئے اس وفد
پڑھیں:
مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی پر پابندی
ریاض احمدچودھری
بھارتی وزارت داخلہ اور اس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے نے آر ایس ایسـبی جے پی کے رہنما آر آر سوائن کی سربراہی میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر سمیت آزادی پسند جماعتوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کے بینک اکائونٹس منجمد کرنے کے بعدایس آئی اے نے زمینوں، اسکولوں، مکانات اور دفاترسمیت اس کی جائیدادوں کو ضبط کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے پہلے ہی اسلام آباد، شوپیاں، پلوامہ اور جنوبی کشمیر کے کئی دیگر اضلاع میں سو کروڑروپے سے زائد مالیت کے جماعت اسلامی کے اثاثے ضبط کرلئے ہیں۔جموں و کشمیر میں جماعت کی مزید 100جائیدادیں ضبط کرنے کی بھارتی وزارت داخلہ کی فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے لئے نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد جائیدادوں کو سیل کردیا جائے گا۔عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ایسی تمام جائیدادوں کو مرحلہ وار سیل کر دیا جائے گا۔نریندر مودی اور امیت شاہ کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت حق خود ارادیت کے مطالبے کی حمایت کرنے پرجماعت اسلامی کو نشانہ بنارہی ہے۔
2019 میں مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی حمایت کرنے پر بھارت نے جماعت اسلامی کشمیر پر پابندی لگا دی تھی۔بھارت کے مرکزی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کے عسکریت پسندوں سے قریبی روابط ہیں اور وہ ان کی مکمل حمایت بھی کرتے ہیں۔جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کے اقدام کی وادی کشمیر کی تقریباً تمام سیاسی، مذہبی و سماجی جماعتوں نے مذمت کی تھی۔ جماعت نے پانچ سالہ پابندی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں محاصرے اور تلاشی کارروائیوں میں جماعت اسلامی کے پانچ رہنماؤں سمیت مقبوضہ جموں وکشمیر کے7 سرکردہ علمائے کرام کوگرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا مشتاق احمد ویری، عبدالرشید داودی، جماعت اسلامی کے رہنما عبدالمجید دار المدنی، فہیم رمضان اور غازی معین الدین بھی شامل ہیں۔
جماعت اسلامی نے دہشت گردی کی فنڈنگ سے متعلق بھارتی ایجنسیوں کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا، ‘نہ تو کبھی کسی عسکریت پسند گروہ کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی وہ تحریکی سیاست پر یقین رکھتی ہے’۔بھارتی ایجنسیوں کا یہ بھی الزام ہے کہ جماعت اسلامی وادی کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں اور بھارت مخالف سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ اسی لیے گزشتہ ہفتے این آئی اے نے جموں و کشمیر میں واقع جماعت اسلامی سے وابستہ بہت سے کارکنان کے گھروں پر چھاپے بھی مارے تھے۔تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ بس ہراساں کرنے اور دھونس جتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ تنظیم اس وقت سرگرم تو ہے نہیں۔ انہیں کوئی ثبوت دینا چاہیے کہ آخر جماعت نے کس کو فنڈنگ کی ہے اور کہاں دیا ہے؟ جماعت 1997 سے یہ مسلسل کہتی رہی ہے کہ ہمارا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کشمیر میں سماجی خدمات کا کام کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ مذہبی تبلیغ کے لیے جلسے جلوس کرتی تھی جو پابندی کے سبب سب بند پڑے ہیں۔کشمیر میں اس وقت زبردست خوف اور دہشت ہے۔ ہر ایک کو کم سے کم بنیادی آزادی کے حقوق ملنے چاہیں۔ ہر شخص کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادانہ طور پر کام کرنے کی تو اجازت ہونی چاہیے۔ ہم کسی غیر قانونی کام کی بات نہیں کرتے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے مظالم ڈھانے کا سلسلہ تو گزشتہ پون صدی سے جاری ہے۔ اب کشمیریوں کے مذہبی، سیاسی اور انسانی حقوق کو دبانے کے لیے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مودی سرکار بین الاقوامی قوانین اور عالمی اداروں کی طرف سے طے کردہ حدود و قیود کو بھی خاطر میں نہیں لا رہی۔ حال ہی میں بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے دو تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھارتی حکام کی جانب سے عوامی ایکشن کمیٹی اور جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کو پانچ سال کے لیے غیر قانونی قرار دینے کی مذمت کی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت ممتاز سیاسی اور مذہبی رہنما میر واعظ عمر فاروق کررہے ہیں جبکہ جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کی بنیاد ایک اور قابل ذکر سیاسی اور مذہبی رہنما مولانا محمد عباس انصاری نے رکھی تھی۔حالیہ فیصلے سے کالعدم کشمیری سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی کل تعداد 16 ہو گئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی لگانا کشمیر میں بھارتی حکام کے ظالم ہاتھوں سے چلنے والے رویے کا ایک اور مظہر ہے۔ یہ سیاسی سرگرمیوں اور اختلاف رائے کو دبانے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ جمہوری اصولوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سراسر بے توجہی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ بیان میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کشمیری سیاسی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ایمانداری سے عمل درآمد کروائے۔
مودی سرکار ہر اس آواز کو دبانا چاہتی ہے جو کشمیر اور مسلمانوں کے حق میں بلند ہوتی ہو۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی ہر قسم کی آزادی سلب کی جا چکی ہے۔ انھیں نہ مذہبی آزادی حاصل ہے نہ سیاسی۔ عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھارت کے یہ مظالم کیوں نظر نہیں آتے؟
مقبوضہ جموں و کشمیر میں نریندر مودی اور امیت شاہ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا حکومت سیاسی اور سماجی کارکنوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے علاقے میںجماعت اسلامی اور دیگر فلاحی تنظیموں سے وابستہ تقریبا 100مزید تعلیمی اداروں اور جائیدادوں کو سیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
٭٭٭