(گزشتہ سے پیوستہ)
ان سارے مراحل پر وفیسر مرحوم پارلیمنٹ کے فلور سے اور ہر دستیاب پلیٹ فارم سے حکمرانوں کو متوجہ کرتے رہے کہ وہ اپنے اصولی اور بنیادی موقف سے انحراف نہ کریں اور عالمی سطح پر بطورفریق مسئلہ پر جرات سیاپنا موقف منوائیں لیکن بدقسمتی سے پسپائی کا عمل نہ رک سکا اس عرصے میں بطور مدیر ترجمان القران انہوں نے شاہکار اداریے تحریر کئے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہونے والی جدوجہد اس میں دی جانے والی قربانیاں بھارت کی سازشیں اور بین الاقوامی استعمار کے ہتھکنڈوں کو کیسے ناکام بنایا جا سکتا ہے اور کیسے یہ تحریک اپنی حتمی آزادی کی منزل سے ہمکنار ہو سکتی ہے پرجامع حکمت عملی اور لائحہ عمل پیش کرتے رہے وہ ہمیشہ مایوسی کے اندھیروں میں امید کے چراغ جلاتے رہے بدقسمتی سے ہمارے حکمران اور پالیسی ساز ادارے ان سے کماحقہ استفادہ نہ کر سکے لیکن پروفیسر صاحب کے رہنما اصولوں پر مبنی وہ اداریے ایک مستقل لائحہ عمل کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ حلقوں کو استفادہ کرنا چاہیے ۔
نوے کی دہائی میں ملک کے نامور سینیئر مدبر سیاستدان جناب نواب ذادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں پارلیمانی کشمیر کمیٹی نے بڑا فعال کردار ادا کیا اس کی کارکردگی کے حوالے سے بھی پروفیسر صاحب نے بڑا فعال کردار ادا کیا نواب صاحب پروفیسر صاحب کا بے پناہ احترام کرتے تھے اور ان ہی کی تحریک پر راقم کو بھی کشمیر کمیٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا نواب صاحب کی قیادت میں یورپ اور مسلم ممالک کے دوروں میں سردارابرہیم مرحوم ایس ظفر مرحوم وغیرہم کے ساتھ رہنے کا موقع ملا اور مسئلہ کشمیر پر الحمدللہ بھرپور ترجمانی کرنے کی کوشش کی کشمیر کمیٹی کی فعالیت کے حوالے سے پروفیسر صاحب کی ہر تجویز نواب صاحب خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے چنانچہ پے در پہ پارلیمانی وفود ساری دنیا میں بھیجے گئے جن میں باقی جماعتی قائدین کے علاوہ لیاقت بلوچ ،مظفر ہاشمی مرحوم اور پروفیسر الیف الدین ترابی مرحوم برگیڈیئر شفیع مرحوم سمیت دیگر حریت قائدین کو ان دوروں میں کشمیر کاز کی نمائندگی کرنے کا موقع ملتا رہا پروفیسر صاحب ہی کی تجویز پر اس مسئلے کو جنرل اسمبلی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا نواب صاحب کی قیادت میں وفد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پہنچا پروفیسر صاحب بھی اس وفد کا حصہ تھے لیکن بدقسمتی سے وزارت خارجہ کا مناسب ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے بالکل آخری مرحلے میں جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ واپس لیا گیا جس پر پروفیسر صاحب اور نواب صاحب بہت رنجیدہ ہوئے۔
اسی طرح نوے کی دہائی میں مکہ مکرمہ میں حج کے موقع پر تمام نمائندہ کشمیری اور پاکستانی قیادت کو باہم مل بیٹھنے کا موقع ملا اور مسئلہ کے حوالے سے ایک اعلامیہ مکہ ڈیکلریشن کے عنوان سے منظور کیاگیا جو تحریک آذادی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اعلامیہ کی تیاری کے لئے جناب خالد رحمان راقم اور پروفیسر ترابی صاحب پر مشتمل کمیٹی قائم ہوئی جس نے پروفیسر صاحب کی رہنماء میں مسودہ تیار کیا جسے متفقہ طور منظور کیا گیا اس کانفرنس میں جناب نوابزادہ نصراللہ خان جناب قاضی حسین احمد راجہ ظفرالحق ،پروفیسر خورشید احمد ،لیاقت بلوچ اس وقت کے وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم قائد حزب اختلاف راجہ ممتاز حسین راٹھور قائدین حریت مقبوضہ کشمیر سے سید علی گیلانی ،غلام نبی سو مجھی ، الطاف شاہ ، ڈاکٹر ایوب ٹھوکر ، ڈاکٹر غلام نبی فائی ، نذیر قریشی محمد غالب ،خالد رحمان ، پروفیسر الیف الدین ترابی ،غلام محمد صفی ،سید یوسف نسیم ،مشتاق وانی مرحوم ، بریگیڈئر محمد شفیع میرے معاون خصوصی انجینئر عابد خواجہ شریک ہوئے اس جامع اعلامیہ میں بھارتی عزائم اور مظالم کے تدارک کے لئے عالمی برادری او آء سی کو ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنے کے ساتھ پاکستانی حکومت اورعوام اورخود کشمیریوں کے کردار کا احاطہ کیا گیا۔
پروفیسر صاحب سید علی گیلانی سے لے کر سید صلاح الد ین تک تمام مزاحمتی کشمیری قیادت کا بے پناہ احترام کرتے تھے اوران کے مسائل کے حل کے لئے بے تاب رہتے تھے جناب یاسین ملک کی شادی کے موقع پر بانفس نفیس شریک ہوکر ان کی حوصلہ افزاء کی قلمی محاذ پر سید علی شاہ گیلانی کے لا ذوال کنٹری بیوشن کے معترف بھی تھے اور ان کی کتب کی اشاعت کے لئے اہتمام بھی کرتے تھے گیلانی صاحب اور اشرف صحرائی صاحب کی شھادتوں کے بعد متبادل قیادت کی تیاری کے حوالے سے بہت فکر مند تھے مودی حکومت اگست2019کے اقدامات کے بعد ریاستی اور کشمیری تشخص کی تحلیل پر سخت رنجیدہ اور فکر مند تھے جسکا اظہار اشارات میں کرتے رہے جیلوں میں محبوس حریت قائدین اور کارکنان کے مسئلہ کو بھی ہمیشہ فکرمندی سے اجاگر کیا۔
مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین ہو یا امت مسلمہ کے دیگر مسائل اسی طرح اسلامی فوبیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں کا سلسلہ اور مسلم دنیا سے امتیازی سلوک روا رکھے جانے کے عملاور اس طرح کے جملہِ درپیش مسائل اجاگر کرنے کے لیے اسلامی تحریکوں کا ایک وفد جناب پروفیسر نجم الدین اربکان صاحب کی قیادت میں یورپ اور امریکہ کے دورے پر روانہ ہوا اس کے روح رواں بھی جناب پروفیسر صاحب مرحوم ہی تھے جناب لیاقت بلوچ بھی اس وفد کا حصہ تھے اور انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک نیز ترکی اور خلیجی ممالک کے منتخب نمائندے اور اہل دانش اس وفد میں شامل تھے امریکہ کے تھنک ٹینکس اور پالیسی ساز حلقوں میں اس وفد نے بچا طور پر مسلم دنیا کے جذبات کی ترجمانی کی اسی طرح سے یورپی ممالک میں بھی جہاں جہاں جانے کا موقع ملاا بھرپور طور پر ان مسلم مسائل کو اجاگر کیا گیا اور مغربی دنیا کو مسلمانوں سے امتیازی سلوک ختم کرنے اور عدل و انصاف پر مبنی رویہ اختیار کرنے پر متوجہ کیا گیا اسی طرح پروفیسر صاحب کی سرپرستی میں ممتاز دانشور حاشر فاروقی صاحب مرحوم کی ادارت میں Impact international کے نام سے ایک بین الاقوامی جریدہ سال ہا سال مغربی اہل دانش اور تھنک ٹینکس میں ان اہم مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا ایک کردار ادا کرتا رہا مسئلہ کشمیر کے علاوہ مسئلہ فلسطین ہو امت کی وحدت ہو اور امت مسلمہ کے دیگر مسائل سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کہ مصداق پروفیسر صاحب ان مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے ان سے وابستہ رہنما وں اور کارکنان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے مجھے جناب قاضی حسین احمد صاحب مرحوم اور پروفیسر صاحب مرحوم کی قیادت میں افغان مجاہدین کے اختلافات ختم کرنے کے لیے جانے والے اسلامی تحریکوں کے وفود میں بھی شامل ہونے کا موقع ملتا رہا جس درد سے ہمارے ان قائدین نے اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے شب و روز کوششیں کی وہ انہی کا حصہ ہے اسی طرح خلیجی ممالک کی باہم جنگوں میں سعودی عرب اور عراق کے درمیان خلیج ختم کرنے کے لیے قاضی حسین احمد مرحوم کی قیادت میں اسلامی تحریکوں کے قائدین میں پروفیسر خورشید نے ایک نمایاں اور بھرپور کردار ادا کیا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پروفیسر صاحب کی قیادت میں مسئلہ کشمیر کرنے کے لیے کے حوالے سے نواب صاحب کرتے رہے کرتے تھے تھے اور کا موقع صاحب کی کیا گیا کے لئے اس وفد

پڑھیں:

کشمیری حریت رہنما عبدالغنی بٹ آزادی کا خواب آنکھوں میں لیے چل بسے

معروف آزادی پسند کشمیری رہنما اورکل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ مختصر علالت کے بعد مقبوضہ کشمیر کے علاقے سوپور میں انتقال کرگئے۔

پروفیسر عبدالغنی بٹ ساری زندگی بھارتی مظالم کے خلاف برسرپیکار رہے، اور اپنی زندگی آزادی کے لیے وقف کیے رکھی۔

کشمیر کی آزادی کی ایک اور توانا آواز بند
سابق حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بھٹ 89 برس کی عمر میں انتقال کرگئے pic.twitter.com/w16XRj5q8Z

— Sheraz Ahmad Sherazi (@Sherazi_Silmian) September 17, 2025

ان کی عمر قریباً 90 برس تھی۔ اور وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلم کانفرنس کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔

کل جماعتی حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند تنظیموں نے پروفیسر عبدالغنی بٹ کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے درجات کی بلندی اور غمزدہ لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعاکی۔

ادھر وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق، سابق وزیراعظم سردار عتیق، راجا فاروق حیدر سمیت دیگر کشمیری قیادت نے بھی عبدالغنی بٹ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور سوگواران کو صبر جمیل عطا کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews انتقال حریت رہنما عبدالغنی بٹ مقبوضہ کشمیر وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • بہادر اور جری حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ 89 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
  • زندگی بھر بھارتی مظالم کے خلاف برسرپیکار رہنے والے عبدالغنی بھٹ کون تھے؟
  • کشمیری حریت رہنما عبدالغنی بٹ آزادی کا خواب آنکھوں میں لیے چل بسے
  • سابق چیئرمین کل جماعتی حریت کانفرنس پروفیسر عبدالغنی بٹ انتقال کرگئے
  • امیر مقام کا پروفیسر عبد الغنی بٹ کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار
  • ارض کشمیر جنت نظیر کے عظم فرزند غنی بھٹ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے
  • حریت پسندکشمیری رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ  داعی اجل کو لبیک کہہ گئے
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کی انتہا: تشدد کے بعد کشمیری کی لاش دریائے جہلم سے برآمد
  • گوجرانوالہ: نوائے وقت کے نیوز ایجنٹ اقبال پرویز وفات پا گئے‘ ختم قل کل ہو گا
  • سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی