پاک بھارت کشیدگی: لاہور کی فضائی حدود ایک بار پھر بند
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
— فائل فوٹو
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے لاہور کی فضائی حدود کو مختلف روٹس کےلیے ایک بار پھر بند کردیا گیا ہے۔
پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی کے نئے نوٹم کے مطابق لاہور کی فضائی حدود کے روٹس آئندہ 24 گھنٹوں کےلیے بند کیے گئے ہیں۔
آپریشنل پابندیوں کے دوران ائیر اسپیس کو 48 گھنٹوں کے لیے معطل کیا گیا تھا۔
نوٹم میں کہا گیا کہ اسلام آباد آنے والی پروازوں کو ایئرٹریفک کنٹرول سے معاونت کے بعد آنے کی اجازت ہوگی۔
نوٹم میں مسافروں کو علاقائی صورتحال کے پیش نظر اپنی متعلقہ ایئرلائنز سے رابطے میں رہنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ رات آپریشنل پابندیوں کے دوران ایئر اسپیس کو 48 گھنٹوں کےلیے بند کیا گیا تھا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
قدرت انسانوں سے انتقام لے رہی ہے
موجودہ صدی میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ قدرت کس طرح انسانوں سے انتقام لے رہی ہے اور ایسا کیوں کر رہی ہے؟ اس کا جواب بھی ہمارے پاس موجود ہے۔
موجودہ دور میں جتنے بھی مذاہب اس زمین پر موجود ہیں سب کا ماننا ہے کہ مرنے کے بعد اُنہوں نے آسمان پر جانا ہے اور وہاں اُنہیں جنت میں بھیج دیا جائے گا، کیونکہ ہر مذہب نجات کی بات کرتا ہے اور وہ اپنے پیروکاروں کو نجات کا دعویدار قرار دیتا ہے۔ گو کہ وہ اُنہیں اپنے اعمال بہتر بنانے کی بات بھی کرتا ہے۔ ہر قسم کی برائیوں سے بھی باز رہنے کی بات کرتا ہے۔ دُنیا بھر کے انسانوں سے پیار بانٹنے اور معاف کرنے کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ اپنے پڑوسی کو برابر کے حقوق دینے کی بات بھی کرتا ہے۔ اس دنیا کوخوبصورت اور خوشحال بنانے کی بات بھی کرتا ہے۔ قدرت کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کی بات بھی کرتا ہے اور قدرت کو خوبصورت بنانے کی بات بھی کرتا ہے۔
لیکن دنیا بھر کے تمام مذاہب کے پیروکاروں نے شاید صرف ایک ہی بات سنی ہے کہ انہیں ان کا مذہب جنت کا ٹکٹ دے دے گا، اس لیے انہیں باقی چیزوں پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے اعمال کو بہتر بنائیں۔ انہیں کوئی ضرورت نہیں ہے اس دنیا کو جہاں وہ خود رہتے ہیں پرامن اور خوشحال بنائیں۔ انہیں کوئی ضرورت نہیں کہ قدرت کی خوبصورتی اور دلکشی کو برقرار رکھنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
یہی وجہ ہے کہ جب انسان نے خدا کی بنائی ہوئی قدرت اور فطرت کو اُس کی اصل شکل میں رہنے کے بجائے اُسے خراب کرنے کی کوشش کی تو پھر قدرت نے بھی انسانوں سے انتقام لینے کا تہیہ کرلیا۔ جس کا ثبوت ہمیں سونامی کی شکل میں، زلزلوں کی شکل میں، ہر سال طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی شکل میں، کبھی جنگلوں میں نہ بجھنے والی آگ کی صورت میں، کبھی موسموں کی شدت کی شکل میں ہمیں نظر آرہا ہے اور انسان ہر روز اس کا بھیانک تجربہ کررہا ہے لیکن اس کے باوجود انسان اپنی روش سے باز نہیں آرہا۔
جب سے دنیا وجود میں آئی ہے طاقتور انسانوں نے کمزور کو مغلوب بنانے کےلیے انسانیت کی حد درجہ تذلیل کی ہے اور ایسی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ دو عالمی جنگ میں کروڑوں لوگ بے دردی سے قتل کردیے گئے۔ قدرت کی حسین وادیوں، سمندروں، دریاؤں، ندی نالوں کو خون سے نہلا دیا گیا۔ منوں ٹنوں کے حساب سے گولہ بارود استعمال کیا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ محض کچھ دیر کےلیے یہ سلسلہ رکا تو سہی۔ کچھ اداروں کا وجود بھی عمل میں لایا گیا کہ انسانوں سے عالمی جنگوں جیسی غلطی تیسری بار نہ دہرائی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان اپنے آپ کو محفوظ بنانے کےلیے اور دوسروں سے طاقتور بننے کےلیے ڈھیروں ڈھیر اسلحہ بھی بناتا رہا۔ شاید اُس کا خیال تھا کہ وہ اس اسلحے کے ڈھیر میں خود کو چھپا کو محفوظ ہو جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ نہ صرف اسلحہ بنانے والا خود اور اُس کے ارد گرد کے پڑوسی بھی اُس سے غیر محفوظ ہوگئے۔
حیرت کی بات ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے مختلف اعلامیے پڑوسیوں سے اچھے سلوک کی بات کرتے ہیں اور مذہب بھی اپنے پیروکاروں کو یہی ترغیب دیتا ہے لیکن زمین پر بسنے والے انسانوں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، کیونکہ وہ طاقت کے نشے میں بدمست سب سے پہلے اپنے پڑوسی ملک کو ہڑپ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
آپ دنیا میں بیشتر جنگیں دیکھیں وہ آپ کو پڑوسی ملکوں کے درمیان ہی نظر آئیں گی، چاہے وہ اسرائیل فلسطین کی جنگ ہو، اسرائیل ایران کی جنگ ہو، پاکستان انڈیا کی جنگ ہو، آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ ہو، عراق اور ایران کی جنگ ہو، جرمنی پولینڈ کی جنگ ہو، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی جنگ ہو اور انڈیا اور چین کی جنگ ہو۔ یہ تمام جنگیں پڑوسی ملکوں کے درمیان ہی لڑی گئیں اور لڑی جارہی ہیں۔ ماضی میں جب کبھی کوئی بے گناہ قتل ہوتا تھا تو آسمان روتا تھا اور سرخ ہوجاتا تھا، جسے دیکھ کر ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ دنیا میں کوئی بے گناہ قتل ہوا ہے۔ لیکن شاید اب انسانوں کی سنگدلی دیکھتے ہوئے آسمان نے بھی رونا چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے اب اُس طرح کبھی آسمان سرخ ہوا ہی نہیں۔
حال ہی میں آنے والی خبر جسے پڑھ کر دل بہت دکھی ہوا کہ غذائی قلت کے باعث غزہ میں سیکڑوں انسان جن میں بزرگ، عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں وہ موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے ایک اور خبر نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا کہ انڈیا میں میانمار کے روہنگیائی قوم کے پناہ گزینوں کو سمندر غرق کردیا گیا۔ انسان اتنا بے رحم اور سفاک کیسے ہوسکتا ہے؟ انسانوں کے اس رویے کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ فرعون، نمرود ، ہلاکو خان، چنگیز خان ، ہٹلر، مسولینی کی روح موجود دور کے سفاک رہنماؤں کی صورت میں ابھی بھی موجود ہے۔
آپ ملاحظہ کیجیے کہ ان جنگوں سے انسان تو لقمہ اجل بنے ہی ہیں قدرت اور فطرت کو بھی خاصا نقصان پہنچا ہے۔ کھیت کھلیان، چراگاہیں، جنگل، سمندر، دریا، آب و ہوا، حتیٰ کہ پہاڑوں تک اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس لیے دنیا بھر میں ہونے والی تغیراتی تبدیلیاں، موسموں کی شدت اور بارشوں کے لامتناہی سلسلے نے انسانوں کےلیے زمین پر رہنا مشکل کردیا ہے۔ حال ہی میں امریکا کی ریاست ٹیکساس میں آنے والے سیلاب نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اگر امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے کے سسٹم کے باوجود وہاں انسان متاثر ہوسکتے ہیں تو ہمارے جیسے ملک میں جہاں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والے سسٹم کو چرا لیا جائے (کچھ ماہ قبل نالہ لئی راولپنڈی ممیں یہ واقع ہوا تھا) تو وہاں قدرت کیا غضب ڈھا سکتی ہے؟ اس کا جواب ہمیں مل چکا ہے اور شاید ابھی تک مل رہا ہے۔
ہمارے ملک میں بارشوں نے رواں برس قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ ڈھائی سو کے قریب انسان تاحال لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ان بے سرو سامان خاندانوں کو آسرا فراہم کرسکے۔ انفرااسٹرکچر بری طرح تباہ ہوچکا ہے۔ عوام خوفزدہ ہیں اور بارش کو رحمت کے بجائے زحمت قرار دے رہے ہیں۔
گزشتہ کچھ برسوں سے دنیا بھر کی حکومتیں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والی تباہی کے پیش نظر اپنے ملکوں میں اس حوالے سے کام کر رہی ہیں، جس میں سب سے اہم جنگلات کا اُگانا ہے، کیونکہ سیلابوں کو روکنے کےلیے جنگلات بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے کچھ منصوبہ بندی تو کی گئی ہے لیکن جس تیزی کے ساتھ پوش سوسائٹیوں کے نام پر جنگلات اور دیہی سرسبز زمینوں کو سوسائٹیوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اُس کے نتیجے میں ملک بھر کے شہر موسمیاتی تغیراتی تبدیلوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔
سادہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ملک بھر میں ایمرجنسی کی صورت میں بھی نو دولتیے سیر و سیاحت کے شغل میں مصروف ہوکر اُن علاقوں کا رخ کر رہے ہیں جنہیں حکومت نے ڈینجر زون قرار دے رکھا ہے۔ اب جو لوگ وہاں مقیم ہیں اور شاید اُن کےلیے ممکن نہیں کہ وہ وہاں سے انخلا کرسکیں لیکن میدانی علاقوں کے لوگ جانے کیوں ایڈونچر کے چکر میں اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں۔
اس ضمن میں حکومت سے گزارش ہے کہ اُن علاقوں میں جانے والے لوگوں پر سختی کی جائے اور مستقبل میں مون سون میں پہلے ہی سے پابندی عائد کر دی جائے کہ اُن علاقوں میں جانے سے گریز کیا جائے۔ اس کے علاوہ جو وہاں مقامی لوگ ہیں اور اُن کے انخلا ممکن نہیں تو اُن کو ہر ممکن سہولت دی جائے کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔
ملک میں شجر کاری کےلیے کسی ایک محکمے کو ہی ذمے داری نہ دی جائے بلکہ شہروں، دیہاتوں، قصبوں میں ہر شخص پر لازم کیا جائے کہ وہ نہ صرف درخت لگائے بلکہ اُس کے پروان چڑھانے تک اُس کا ذمے دار ہو۔ ایسا سختی سے نہیں ہوگا بلکہ ہر شخص کو اپنا فرض سمجھنا ہوگا کہ وہ انسانیت کو بچانے کےلیے اپنا کردار ادا کرے۔ اس سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ ہم نے کون سا اُس درخت کی چھاؤں میں بیٹھنا ہے بلکہ یہ خیال کرنا چاہیے کہ جن درختوں کی چھاؤں سے ہم لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ بھی ہمارے جیسے کسی انسان نے لگائے تھے۔ ندی، نالوں، دریاؤں اور سمندروں کو صاف رکھنے کےلیے ہمیں سنجید ہ پالیسی بنانی ہوگی۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دنیا اس حوالے سے کیا اقدامات کر رہی ہے اور کس طرح قدرت اور فطرت کو اپنی اصل شکل میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔
دنیا بھر کے انسانوں کو جنگی جنون کے بجائے انسانیت کو بچانے کےلیے تگ و دو کرنی چاہیے کیونکہ خیال کیا جائے کہ ہمارے پڑوسی کے گھر کو آگ لگی ہوئی ہے تو کہیں وہ آگ ہمارے گھر تک نہ پہنچ جائے۔ اسلحہ بنانے اور بیچنے والوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ انہیں جنت کا ٹکٹ حاصل کرنے کےلیے اپنے جیسے انسانوں کو قتل کرکے جنت نہیں ملنی بلکہ انسانیت کو بچا کر ہی شاید وہ اس دنیا کو جنت بناسکیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قدرت، فطرت کے مظاہر سے لطف اندوز ہوں اور انہیں نقصان پہنچانے کے بجائے اس کو خوبصورت اور پرامن بنانے کےلیے ہر ممکن جدوجہد کریں تو شاید ہوسکتا ہے کہ قدرت کو بھی انسانوں پر رحم آجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔