بیجنگ :چین کے صدر شی جن پھنگ نے فریڈرک مرز کو وفاقی جمہوریہ جرمنی کے چانسلر کے طور پر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ چین اور جرمنی ہمہ جہت اسٹریٹجک شراکت دار ہیں۔ دنیا کی دوسری اور تیسری سب سے بڑی معیشتوں اور عالمی اثر و رسوخ رکھنے والے بڑے ممالک کی حیثیت سے چین اور جرمنی کو تبادلوں اور باہمی سیکھنے کو گہرا کرتے ہوئے اتحاد و تعاون کو مضبوط بنانا چاہئے، اور مشترکہ طور پر ایک مساوی اور منظم کثیر قطبی دنیا اور جامع اقتصادی عالمگیریت کو فروغ دینا چاہئے۔

شی جن پھنگ نے کہا کہ وہ چین جرمنی تعلقات کی ترقی کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور چانسلر مرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں تاکہ چین جرمنی ہمہ جہت اسٹریٹجک شراکت داری کا ایک نیا باب تخلیق کیا جا سکے، چین اور یورپی یونین کے تعاون کو درست سمت میں آگے بڑھایا جا سکے اور مشترکہ طور پر عالمی امن، استحکام، ترقی اور خوشحالی کو فروغ دیا جا سکے۔ چین کے وزیر اعظم لی چھیانگ نے بھی اسی روز مرز کو جرمن چانسلر منتخب ہونے پر مبارکباد دی ۔اسی دن نومنتخب جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے جرمن بنڈس ٹاگ میں حلف اٹھایا۔ جرمن بنڈس ٹاگ میں ووٹنگ کے دوسرے دور میں ، مرز نے 325 ووٹ حاصل کیے ، جو مطلوبہ اکثریت سے 9 ووٹ زیادہ تھے ، اس طرح وہ سرکاری طور پر وفاقی جمہوریہ جرمنی کے 10 ویں چانسلر کے طور پر منتخب ہوئے۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

ایران سے تجارت اور چینی کا بحران

بلوچستان کے پہاڑوں پر اس دن سورج بڑی بے قراری سے نکلا ہوگا کیوں کہ اس نے جلد از جلد اسلام آباد کے اس منظرکو دیکھنا تھا۔ جب برادر اسلامی اور پڑوسی ملک ایران، جہاں سے کبھی تہذیب بھی آتی رہی، ثقافت بھی آ کر چھائی رہی، علما مشائخ، اولیائے کرام کے قافلے بھی آتے رہے اور لاہور کا تجارتی قافلہ کبھی اصفہان،کبھی شیراز میں فروکش ہوتا رہا۔ ملتان کی سوغاتیں اور دستکاریاں، زاہدان و سرد تہران میں ہاتھوں ہاتھ خریدے جاتے رہے۔

پشاورکے قصہ خوانی بازار میں ایران کے قصے مزے لے لے کر بیان کیے جاتے تھے۔ پریوں کی کہانیاں، طلسماتی کہانیاں اکثر بچوں کی نانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ایسے میں کوئی کہے کہ کسی ’’ نانی کا ٹیکہ‘‘ بھی ایران میں ہے تو کچھ غلط نہ تھا۔ دل سے دل جڑے ہوئے تھے اور تجارتی قافلے رواں دواں تھے۔

باہمی تجارت زوروں پر تھی، پنجاب سے اس کی خوشبو دوبالا ہو جاتی اور ایرانی آغا ( تاجر ) تمام لیکن نظر تو ایسی لگی، ایسی لگی کہ انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی یہ تجارت سکڑتی چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ تین ارب ڈالر تک کی سالانہ باہمی تجارت ہے جس میں ایران کا پلہ بھاری ہے کیوں کہ ایران سے تقریباً سوا ارب ڈالر کی درآمدات اور پاکستان سے برآمدات ایک ارب کے لگ بھگ یا اس سے کچھ زیادہ پاکستانی روپے کی شکل میں 2023-24 کے دوران ایران کے لیے پاکستانی برآمدات کی مالیت 2 کھرب 94 ارب 59 کروڑ روپے کی تھی۔

بہرحال باہمی تجارت 3 ارب ڈالر سے کم کی ہے۔ اب اسے کیسے 10 ارب ڈالر تک پہنچانا ہے، یہ اہم سوال ہے۔ تین ارب ڈالر سے تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جانا ممکن ہے۔

قیہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو باقاعدہ بنانے اور فروغ دینے کے لیے ایک بنیادی دستاویز ہے۔ اس کے تحت محصولات (ٹیرف) اور دیگر تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے اور نئی بارڈر مارکیٹ قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس سے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو کاروبار کے لیے مواقعے ملیں گے۔

ایک ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ادائیگیوں کو آسان اور محفوظ بنائے تاکہ بین الاقوامی پابندیوں کے باعث تجارت متاثر نہ ہو۔ زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی، اطلاعات و مواصلات ، ثقافت، سیاحت اور موسمیات جیسے شعبوں میں تعاون کے لیے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ ان معاہدوں کا اصل مقصد باہمی تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جائیں تو اس کے لیے اصل تعاون اور اصل کاروباری حجم میں اضافہ اور درحقیقت برآمدات برائے ایران میں اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومتی سیکریٹری سے نکل کر کاٹن انڈسٹری کے اونر، مل کے مالکان، برآمد کنندگان اور امپورٹرز کے ہاتھ میں آ جائے تو پھرکمال ہو جائے گا۔

ان تاجروں کو کارخانہ داروں کو گھریلو انڈسٹری کے مالکان کو ایران بھیجا جائے، اب یہاں پر حکومتی شراکت کام کرے، سفارت خانے کا عملہ ان لوگوں کو اچھی طرح بریفنگ دے۔ بڑے بڑے ایرانی درآمد کنندگان کی فہرست تھما دے اور سب سے آخر میں بازار کا راستہ بتا دے۔ آپ یقین کریں شام تک ان لوگوں کے ہاتھوں میں کروڑوں ڈالرز کے آرڈرز ہوں گے۔صبح ایک پراٹھا اور ایک کپ چائے اور جب چائے میں چینی نہ ہو تو یہی ناشتہ احتجاج بن جاتا ہے۔

گاؤں کے ایک مٹی کے گھر سے لے کر شہر کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں آج کل ایک ہی سوال سنائی دے رہا ہے کہ چینی گئی کہاں؟ گاؤں کا بوڑھا کسان جانتا ہے کہ وہ 70 کی دہائی میں راشن کارڈ سے اپنے حصے کی چینی دو روپے ساٹھ پیسے فی سیر خرید کر لاتے تھے اور ہر ایک کے کپ میں چینی ڈلتی تھی۔ حکومت نے پہلے اندازہ لگایا چینی بہت ہے اور سستے داموں بیرون ملک فروخت کردی۔

 نئی صدی کے آغاز سے پہلے ہی چینی 18 روپے فی کلو تھی اور کافی عرصے یہی قیمت رہی۔ 2009 میں معاملہ بگڑا اور بالآخر 90 روپے فی کلو تک بھی جا پہنچی۔ پھر قیمت میں کمی ہوئی، غالباً 2018 کے آغاز تک چینی فی کلو 52 روپے تھی، اس سال چینی 140 روپے پھر 160 روپے فی کلو ہوگئی اور چینی امپورٹ ہوگئی، لیکن اب چینی کی قیمت یا پچھلی قیمت پر دستیابی ناممکن ہے۔ کیوں کہ حکومت کبھی سستی چینی یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے فراہم کرتی تھی۔ کیا کسان نے چینی مہنگی کر دی کہ اپنا گنا دگنا قیمت پر فروخت کیا؟ ایسا بالکل نہیں، کیونکہ اس نے حکومتی نرخ پر فروخت کیے لیکن پیسے ابھی تک پورے نہیں ملے۔

عالمی منڈی میں چینی کی قیمت بڑھ گئی پاکستان میں روپے کی قدر کچھ کم ہو گئی۔ اب درآمدی چینی پہلے سے مہنگی ہی ملے گی۔ مہنگی ہو یا سستی لیکن یہ سوال ہر ایک پوچھتا ہے۔ اس سوال کا جواب پوچھنے کے لیے حکام بھی بے چین ہیں کہ آخر چینی گئی کہاں؟چینی کا بحران کبھی دو سال بعد آ جاتا ہے اور کبھی اس سے زیادہ یا کم عرصے میں۔ ہر آنے والی حکومت کو اس بحران سے گزرنا پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیشہ چینی کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اس مسئلے کا مستقل حل قانون سازی کے ذریعے نکل سکتا ہے۔

شاید کسی حکومت کے بس میں نہیں لہٰذا عوام چینی کے متبادل گڑ، شکر وغیرہ کا بھی استعمال کرنے پر غور کریں۔ کیوں کہ چینی کے بحران سے غریب عوام نے اپنے طور پر ہی نکلنا ہے کیوں کہ چینی کی قیمت میں کب کمی آئے گی، حکومت کوشش کر رہی ہے لیکن فی الحال شافی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک میں چینی کی بلاتعطل فراہمی نہ ہونے کی وجہ سامنے آ گئی
  • ایران سے تجارت اور چینی کا بحران
  • اسرائیلی فٹبالر کی مبینہ نفرت انگیز پوسٹس پر احتجاج، جرمن کلب نے معاہدہ ختم کردیا
  • جرمن قونصل خانے نے کراچی سے ویزا سروس دوبارہ شروع کردی
  • عوام کے ووٹ سے منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوگی، محمود خان اچکزئی
  • شہباز شریف کی لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد سعید کو چیئرمین واپڈا تعیناتی پر مبارکباد
  • چینی کی قیمتیں کم نہ ہوسکیں، پشاور میں 50 کلو چینی کی قیمت 8900 روپے میں فروخت ہونے لگی
  • وزیراعظم سے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ محمد سعید کی ملاقات ، چیئرمین واپڈا تعیناتی پر مبارکباد
  • وزیراعلیٰ سندھ کی لیاری کراچی کی فٹبال ٹیم کو ناروے کپ جیتنے پر مبارکباد
  • چینی کی قیمتیں کم نہ ہوسکیں،  پشاور میں  50 کلو چینی کی قیمت 8900 روپے میں فروخت ہونے لگی