پاک بھارت کشیدگی، پی ٹی آئی کا قومی اتحاد کیلئے ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ WhatsAppFacebookTwitter 0 7 May, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے، ملک کے لیے پاکستان کی سیاسی قیادت اکھٹی ہے اور اب حکومت کو عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اس ایوان میں سیاست غائب ہے اور پاکستان غالب ہے، بھارت نے جارحیت کر کے ایک بہت بڑی غلطی کردی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاک فضائیہ کو مبارک باد دیتے ہیں کہ اس نے چند گھنٹوں میں بھرپور جواب دیا اور بھارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے دوہزار انیس میں کہا تھا کہ ہم سوچیں گے نہیں بلکہ جواب دیں گے اور عمل کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلگام واقعہ کی مذمت کی اور بھارت نے جعفر ایکسپریس حملے کی مذمت تک نہ کی ،سیاست میں تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمیں دیوار سے لگایا گیا مگر ہم اس ایوان میں موجود ہیں، اگر بھارتی قیادت ملک کے لئے اکٹھی ہوسکتی ہے تو پاکستانی سیاسی قیادت اکٹھے کیوں نہیں ہوسکتی۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہبازشریف نے اپوزیشن سے بات چیت کی جو پیشکش کی ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور مطالبہ ہے کہ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جبکہ بانی پی ٹی آئی سمیت تمام قیدیوں کو شفاف ٹرائل کا موقع دیا جائے۔
قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خطاب کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوموں کی تاریخ میں ایسا وقت آجاتا ہے کہ وہ فیصلہ کرتی ہیں انہیں کہاں کھڑا ہونا، کل کا حملہ کسی سیاسی جماعت پر نہیں ہمارے ملک پر حملہ تھا، تحریک انصاف آج بڑا دل کر کے یہاں آئی ہے، آج ہم کوئی سوال نہیں صرف پاکستان کی بات کریں گے۔انہوں نے کہا کہ بزدل بھارت ہر الزام پاکستان پر لگاتا ہے، دنیا کو بتانا پڑے گا کہ پاکستان جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے، ہماری افواج نے جو کارنامہ دکھایا ہے اس پر اسے شاباش دیتے ہیں۔
زرتاج گل نے کہا کہ اگر راہول گاندھی مودی کے پاس جاسکتا ہے تو شہباز شریف، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان بانی پی ٹی آئی عمران خان کے پاس جائیں، ہم نے اپنا دل بڑا کیا آپ بھی اپنا دل بڑا کریں، آل پارٹیز کانفرنس طلب کریں اور عمران خان کو بلائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی جارحیت پر ہمیں اپنے سفارتی فورم عالمی بینک کو بھی انگیج کرنا چاہیے، حکومت کو اقوام متحدہ سمیت عالمی عدالت انصاف بھی جانا چاہیے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمعصوم شہریوں کے ناحق خون کے آخری قطرے تک کا مکمل حساب لیا جائیگا، ڈی جی آئی ایس پی آر کا دوٹوک اعلان معصوم شہریوں کے ناحق خون کے آخری قطرے تک کا مکمل حساب لیا جائیگا، ڈی جی آئی ایس پی آر کا دوٹوک اعلان فرانس نے پاکستان کی جانب سے بھارتی رافیل کو مار گرانے کی تصدیق کردی بھارت کے ساتھ جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے،وزیراعظم کا قوم سے خطاب آئیسکو حکام نے راولپنڈی اور گردونواح میں بلیک آوٹ کے احکامات کی کی تردید کر دی آرمی چیف کی ایئر ہیڈ کوارٹر آمد، بھارتی طیارے گرانے پر فضائیہ کو خراج تحسین پیش کیا سیکریٹری تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت ندیم محبوب کو سیکرٹری قومی صحت کا اضافی چارج بھی تفویض TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی

پڑھیں:

عمران خان کی سیاسی تنہائی کی وجوہ؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وقت کی عجب چال ہے، جو کبھی خلقت کا محبوب ہوتا ہے، وہی ایک دن تنہائی کا مارا، تردیدوں کا نشانہ اور ماضی کی کتاب کا ایک صفحہ بن جاتا ہے۔ عمران خان، جس نے کرکٹ کی دنیا سے سیاست کے میدان تک کا سفر طوفانی انداز میں طے کیا، آج تنہائی کے ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں نہ پرانے ساتھی ساتھ ہیں، نہ اتحادی جماعتیں، نہ عوامی مقبولیت کا وہ شور جو کبھی سونامی کہلاتا تھا۔

یہ کہانی فقط عمران خان کی نہیں، بلکہ ہر اْس انا پرست شخصیت کی ہے جو اختلافِ رائے کو غداری، مشورے کو سازش، اور تنقید کو دشمنی سمجھ بیٹھے۔ عمران خان کا سیاسی قافلہ جن مخلص و نظریاتی ساتھیوں کے ساتھ شروع ہوا، ان میں کئی ایسے نام تھے جو آج نہ صرف ان سے دور ہو چکے ہیں بلکہ ان کے نظریے سے بھی مایوس ہو کر مدمقابل کھڑے ہیں۔ اکبر ایس بابر، جنہوں نے پارٹی کے ابتدائی خاکے میں ہاتھ بٹایا، جب پارٹی فنڈنگ پر سوالات اٹھائے تو انہیں نکال دیا گیا۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے پی ٹی آئی کی اندرونی بدعنوانی پر انگلی اٹھائی، تو وہ بھی پارٹی بدر ہوئے۔ حامد خان ایڈووکیٹ، ایک آئینی ماہر اور بانی رکن نے غیر جمہوری طرزِ قیادت پر اختلاف کیا تو کنارے لگا دیے گئے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان، جنہوں نے عمران خان کی سیاست کو زمین پر اُتارا، وہی آج اپنی علٰیحدہ جماعتوں کے ذریعے میدان میں ہیں۔ یہ لوگ دشمن نہیں تھے، مگر وہ احترام، وہ رواداری، وہ ربط جو سیاسی تحریک کا حسن ہوتا ہے، وہ خان صاحب کے آمرانہ مزاج میں کہیں کھو گیا۔

عمران خان کا سیاسی سفر تنہا نہیں تھا۔ کئی جماعتیں، شخصیات اور گروہ اس کارواں میں شامل تھے۔ جماعت اسلامی نے نظریاتی ہم آہنگی کے تحت ساتھ دیا، مگر جلد ہی کپتان کے کارکنوں کے گالی گلوچ، اخلاق باختہ سوشل میڈیا کی غلیظ مہمات، اور خان صاحب کے دوغلے بیانیے سے تنگ آ کر خود کو دور کر لیا۔ شیخ رشید، جو عمران خان کے سب سے پرانے اتحادیوں میں سے تھے، آج خاموشی کے پردے میں جا چکے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین کی مسلم لیگ (ق) نے 2022 میں اس وقت مکمل علٰیحدگی اختیار کر لی جب عمران خان نے اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی۔ بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) اور ایم کیو ایم بھی وقتی مفادات کے تحت ساتھ آئیں، مگر مستقل رویے اور بدکلامی کی سیاست نے انہیں بھی الگ کر دیا۔ اب المیہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان کی ایک خاص پہچان بن گئی ہے، یعنی بدزبانی، بدکلامی، اور دوسروں کی کردار کشی۔ کاش کوئی ان کو سمجھا سکتا کہ یہ سیاست نہیں، افترا ہے۔ جب جماعت اسلامی جیسی نظریاتی تنظیم کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر غلیظ مہمات چلائی گئیں، تو بھلا وہ کس بنیاد پر ساتھ کھڑی رہتی؟ سیاست میں اختلافِ رائے فطری ہے، مگر عمران خان کی تحریک میں یہ گناہ کبیرہ بن گیا۔ جو اختلاف کرے وہ ’’لفافہ‘‘، ’’غدار‘‘، یا ’’اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ‘‘۔ ایسے ماحول میں نہ اتحاد پنپ سکتا ہے، نہ تحریک۔

کسی دانا کا قول ہے: ’’سمجھدار آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنے دوستوں میں اضافہ کرے، اور بیوقوف وہ جو دشمن بناتا جائے اور دوست کم کرتا جائے‘‘۔ ایک اور صاحبِ علم نے فرمایا: ’’دوست چاہے ہزار ہوں کم ہیں، دشمن ایک بھی ہو تو بہت ہے‘‘۔ اگر ہم اس کسوٹی پر عمران خان کی سیاست، ان کے رویے، اور ان کے کارکنان کے طرزِ گفتگو کو پرکھیں تو ایک افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ تحریک دوستوں کی افزائش سے زیادہ دشمنوں کے اضافے میں مصروف رہی۔ مشورے کو دشمنی سمجھا گیا، تنقید کرنے والوں کو رسوا کیا گیا، اور جنہوں نے خدمت کی، وہ کنارے لگا دیے گئے۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے گرد ایک ہجوم تو ہے، مگر قافلہ کمزور ہے، اور قافلہ سالار تنہا۔

پھر اس جماعت کے تضادات اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں شمار کرنا مشکل ہے۔ ادھر ملکی سیاست میں عمران خان ایک ایک کر کے اپنے اتحادیوں کو کھو بیٹھے، اور ان کی یہ تنہائی صرف اقتدار کی تبدیلی یا کسی سازش کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ ان کی اپنی طرزِ سیاست، کارکنان کی بدتہذیبی، اور پارٹی کے اندرونی کلچر کا شاخسانہ ہے۔ سوشل میڈیا پر جو گالیوں اور طعنوں کا بازار پی ٹی آئی کے حامیوں نے گرم رکھا ہے، اس نے ان کے لیے ہمدردی کا ہر دروازہ بند کر دیا۔ دوسری طرف، وہی عمران خان جو برسوں تک امریکا کو ’’رجیم چینج‘‘ کا ماسٹر مائنڈ، سازشی قوت اور (بجا طور پر) پاکستان کے دشمن کے طور پر پیش کرتا رہا، آج اسی امریکا کے سامنے اپنی رہائی کی بھیک مانگ رہا ہے اور اْس غاصب ملک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کام کے لیے وہاں امریکا میں باقاعدہ لابنگ کی جا رہی ہے، چندے جمع کر کے بے شمار ڈالرز ٹرمپ کی ٹیم کو خوش کرنے کے لیے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ’’کیا ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کا پرکشش نعرہ لگانے والا آج غزہ میں ساٹھ ہزار سے زائد شہادتوں، ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کے زخمی ہونے اور ایران پر اسرائیلی حملے کو جو امریکی پشت پناہی سے ہوئے — ان سب کے باوجود نہ امریکا کی مذمت کرتا ہے، نہ اسرائیل کے خلاف کوئی دوٹوک موقف اپناتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ان کی بہنوں سے سوال ہوا تو وہ کہہ چکیں کہ ’’عمران حالات سے بخوبی آگاہ ہے‘‘ لیکن پھر بھی ان کی زبان سے نہ مظلوموں کے لیے دعا نکلی، نہ ظالموں کے خلاف جملہ۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی تنہائی کے اسباب کیا ہیں؟

1۔ انا پرستی: ہر معاملے میں ’’میری بات ہی حرفِ آخر ہے‘‘ کا رویہ۔ 2۔ عدم برداشت: اختلافِ رائے پر شدید ردِعمل، چاہے وہ کارکن ہو یا ساتھی رہنما۔ 3۔ اداروں سے ٹکراؤ: فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن، حتیٰ کہ عالمی طاقتوں سے بھی محاذ آرائی۔ 4۔ بند دروازے کی سیاست: مشاورت کے دروازے بند، چاپلوسوں کا راج۔ 5۔ دوغلی خارجہ پالیسی: اندرونی طور پر امریکا کو للکارنا، بیرونی طور پر اسے منانے کی کوشش۔

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں مظالم، مسلم امہ کے اتحاد کی ضرورت ہے، اسحاق ڈار
  • سندھ طاس معاہدہ غیر سیاسی، یکطرفہ کارروائی کی گنجائش نہیں، پاکستان کی امیت شاہ کے بیان پر تنقید
  • پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کریں گے: بھارتی وزیر داخلہ
  • عمران خان کی سیاسی تنہائی کی وجوہ؟
  • عمران خان معافی مانگ لیں تب بھی اقتدار نہیں ملے گا ، خواجہ آصف
  • عمران خان اگر معافی مانگ لیں تب بھی اب انہیں کبھی اقتدار نہیں ملے گا ، خواجہ آصف
  • بانی کی رہائی کے لیے کسی ملک سے رجوع نہیں کریں گے، چیئرمین پی ٹی آئی
  • بانی کی رہائی کیلئے کسی ملک سے رجوع نہیں کریں گے، چیئرمین پی ٹی آئی
  • پارٹی کسی بھی بیرونی ملک سے عمران خان کی رہائی کیلئے درخواست نہیں کرے گی، بیرسٹرگوہر
  • بانی پی ٹی آئی عمران خان اگر معافی مانگ لیں تب بھی اب انہیں کبھی اقتدار نہیں ملے گا ، خواجہ آصف