اسلام آباد:

دفاعی تجزیہ کار (ر) میجر جنرل طارق رشید خان نے کہا جنگ تو ختم بالکل آپ کہہ سکتے ہیں کہ نہیں ہوئی کیونکہ انڈیا نے جو کرنا تھا اور جیسے وہ کہہ رہا تھا کہ ہم پاکستان پر اور دہشت گردوں پر حملہ کریں گے وہ تو انھوں نے کر دیا، جو بھڑکیں ماری تھیں جو وہ کہتے رہے وہ نہیں کر سکے، ہم جو کہتے رہے وہ ہم نے کر دکھایا بلکہ اس سے زیادہ دکھا دیا.

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی پوزیشن یہ ہے کہ پولیٹیکلی، سائیکلوجیکلی اور موریلی اور مورال پوائنٹ آف ویو سے پوری قوم کا مورال ایک ہائپ پر چلا گیا ہے اور اسی طرح انڈیا کاآپ دیکھیں کاریسپونڈنگلی اتنا زیادہ لوئر ہوا ہے اور انڈیا آئی سولیٹ ہوا ہے اور وہ اب کہہ رہے ہیں کہ انڈیا کبھی بھی اتنا کمزور اور آئی سولیٹ دنیا کے سامنے نہیں تھا جتنا آج ہو گیا ہے تو مودی پر بڑا پریشر ہے. 

دفاعی تجزیہ کار (ر) بریگیڈیئر وقار حسن نے کہا کہ میرا اپنا ایک اوپینئن ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، اب یہ نہیں ہے کہ جنگ میں دھکیل رہا ہے یا جنگ شروع ہونے والی ہے، ہم حالت جنگ میں ہیں اس کی ہیت کیا ہو گی یہ آپ کو سمجھ آ جائے گی، دوسرا تھرڈ نیوکلیئر ایج میں ہم آ گئے ہیں، بڑی ریسرچ ہوئی اور اس میں ایڈ کیا گیا کہ اگر جوہری ہتھیار کسی پاگل شخص کے پاس آئے گا جیسے مودی ہے تو یہ انتہائی خطرناک ہو گا.

سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑکا کہنا ہے کہ پاکستان کے اندر کیمپس ہیں ہمارے جوپہاڑی سلسلے ہیں کے اندر بھی ہیں، اگر مجھے پتہ ہے تو ظاہر ہے کہ اسٹیٹ کو بھی پتہ ہے ایسا نہیں ہے کہ نہیں پتہ، بہت ساری ایسی جو آپریشنل ڈیٹیلز ہوتی ہیں جو چیلنجز ہوتی ہیں اس پر بعض اوقات پبلک ڈومین میں بہت ڈیٹیل گفتگو نہیں ہوتی ہے لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے کہ ساری اسٹیٹ آپریٹس کو ادراک ہے، اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ انڈین فنڈڈ ہیں، ہمارے پاس پوری انٹیلی جنس پکچر موجود ہے۔

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

مبینہ جعلی ڈگری کیس ،جسٹس طارق نے اسلام ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کر دیا

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 ستمبر ۔2025 )جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اسلام ہائیکورٹ کا مبینہ جعلی ڈگری کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے جج نے درخواست میں موقف اپنایا کہ بیٹھے ہوئے جج کو فرائض کی انجام دہی سے نہیں روکا جا سکتا، متنازع حکم نے درخواست گزار کے آرٹیکل 10-اے کے حقوق کی خلاف ورزی کی، عدلیہ کی آزادی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں.

(جاری ہے)

درخواست گزار کے مطابق متنازع حکم نے جج کی بے داغ شہرت کو متاثر کیا، عدالتی خدمات کے ضائع ہونے والے وقت کی تلافی ممکن نہیں، اگر حکم معطل نہ ہوا تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا جسٹس طارق جہانگیری نے استدعا کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے متنازع حکم نامہ کو معطل کیا جائے جسٹس طارق محمود جہانگیری کا سپریم کورٹ میں اپنا کیس خود لڑنے کا امکان ہے.

جسٹس طارق محمود جہانگیری کی اپیل کو ڈائری نمبر الاٹمنٹ کر دیا گیا، اپیل کو 23409 کا ڈائری نمبر الاٹ کیا گیا دریں اثناءسپریم کورٹ میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اقدامات چیلنج کرنے والے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ حصول انصاف سے متعلق سوال پر کمنٹ نہیں کروں گا، کیمرے کے سامنے ذاتی رائے نہیں ہوتی. سپریم کورٹ سے روانگی کے وقت صحافی نے سوال کیا کہ آپ کو امید ہے سپریم کورٹ سے کوئی سپورٹ ملے گی؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہمارا ہمیشہ عدل و انصاف کے ساتھ قانون پر یقین رہا ہے عدالت عالیہ کے جج سے سوال کیا گیا کہ بطور درخواست گزار کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ جسٹس محسن نے جواب دیا کہ بالکل ایسے جیسے عام پاکستانی محسوس کرتے ہیں.

صحافی نے سوال کیا کہ اس عمل سے عام شہری کو ایسا نہیں لگے گا کہ ججز بھی اس طرح انصاف کے لیے جا رہے ہیں؟جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس پر میں کوئی کمنٹ نہیں کروں گا، جس پر صحافی نے کہا کہ جج صاحب ذٓاتی رائے ہی دے دیں جسٹس محسن نے کہا کہ کیمرے کے سامنے ذاتی رائے نہیں ہوتی. ایک سوال کے جواب میں جسٹس محسن نے واضح کیا کہ کیسز کی سماعت مکمل کر کے پھر یہاں آئے ہیں کسی وکلا تنظیم کے ہیڈ ہونے سے متعلق سوال پر جسٹس محسن نے کہا کہ پھر میں وکالت کر رہا ہوتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اب وکالت کا معیار کیسا ہے صحافی نے سوال کیا کہ چیف جسٹس ڈوگر کے بنائے گئے بینچز کے ججز کے ساتھ آپ بیٹھ رہے ہیں یا نہیں؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے جواب دیا کہ نہیں وہ ہمارے ساتھ نہیں بیٹھ رہے ہیں.

یادرہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے مختلف اقدامات اور اختیارات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انفرادی طور پر اپیلیں دائر کی ہیں معززججوں کی جانب سے دائر آئینی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جج کو کام سے روکنے کی درخواست ہائیکورٹ میں قابل سماعت نہیں، کسی جج کو صرف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ہی کام سے روکا جا سکتا ہے.

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پانچوں ججز نے یہ آئینی درخواست آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کی ہے، موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 202 کے تحت بنے رولز کے مطابق ہی چیف جسٹس بینچ تشکیل دے سکتے ہیں، جبکہ ماسٹر آف روسٹر کا نظریہ سپریم کورٹ پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی ہے. درخواست میں کہا گیا ہے کہ انتظامی کمیٹیوں کے 3 فروری اور 15 جولائی کے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیے جائیں، ان کمیٹیوں کے اقدامات بھی کالعدم قرار دئیے جائیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے حالیہ رولز غیر قانونی قرار دیےءجائیں درخواست میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ ہائیکورٹ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپنے آپ کو رِٹ جاری نہیں کر سکتی .

پانچ ججوں نے اپنے خلاف فیصلے کے خلاف انفرادی طور پر اپیلیں بھی سپریم کورٹ میں دائر کیں، جسٹس طارق محمود جہانگیری سائلین کے گیٹ سے کارڈ لے کر سپریم کورٹ پہنچے، ان کے ساتھ جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت، جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس محسن اختر کیانی بھی عدالت عظمی میں موجود رہے، ججز نے اپیلیں دائر کرنے کے لئے بائیو میٹرک بھی کرایا اس موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ رولز کے مطابق ایک ہی درخواست میں تمام ججز فریق نہیں بن سکتے، اسی لیے الگ الگ اپیلیں دائر کی گئی ہیں، پانچوں ججز اپیلیں دائر کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے روانہ ہوگئے. 

متعلقہ مضامین

  • قائم مقام چیئرمین سینیٹ سیدال خان کی میجر انور کے لواحقین سے تعزیت
  • بھارتی کھلاڑیوں نے ہاتھ نہ ملا کر چھوٹا پن دکھایا ہے؛ عطاء اللّٰہ تارڑ
  • تفتیش اور پراسیکویشن کا نظام کمزور ہے، خامیوں کی وجہ سے ملزمان کو سزا نہیں ہوتی، حسان صابر ایڈووکیٹ
  • ’عمان کا بھارت کیخلاف شاندار کھیل‘، پاکستان کیا سیکھ سکتا ہے؟
  • جاگیردارنہ نظام کو ایم کیو ایم ہضم نہیں ہوتی، خالد مقبول صدیقی
  • انڈیا سے میچ، پاکستانی کرکٹ ٹیم نے شیڈول پریس کانفرنس منسوخ کر دی
  • مبینہ جعلی ڈگری کیس ،جسٹس طارق نے اسلام ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کر دیا
  • کیمرے کے سامنے ذاتی رائے نہیں ہوتی، حصول انصاف سے متعلق سوال پر جسٹس محسن کا جواب
  • بروقت انتظامات نہ ہوتے تو سیلاب سے بڑی تباہی ہوتی، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز
  • جہاد کا اعلان صرف ریاست کا اختیار ہے، کسی گروہ یا فرد کو اجازت نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر