Daily Mumtaz:
2025-11-11@07:37:51 GMT

چین اور روس کا جامع اسٹریٹجک شراکت داری کا اعادہ

اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT

چین اور روس کا جامع اسٹریٹجک شراکت داری کا اعادہ

ماسکو : عوامی جمہوریہ چین اور روسی فیڈریشن نے نئے دور  میں  کوآرڈینیشن کی اپنی جامع اسٹریٹجک شراکت داری کا اعادہ کیا۔ دونوں فریق  اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون کی  تیاری اور ترقی کو   اقوام متحدہ کی  قیادت  میں  دنیا کی  کثیر القطبی  کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ جمعہ کے روز جاری کردہ  بیان میں  اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے دیگر بنیادی اصولوں پر مکمل عمل درآمد کا اعادہ  کیا گیا ہے ۔ تمام ممالک  کو بین الاقوامی قانون کی تشکیل، تشریح اور اطلاق میں مساوی بنیادوں پر حصہ لینے کا حق ہے اور نیک نیتی سے بین الاقوامی قانون کو نافذ کرنے کی ذمہ داری ہے.

عوامی جمہوریہ چین اور روسی فیڈریشن مشترکہ طور پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام ممالک کو اپنے قومی حالات اور اپنے عوام کی خواہشات کے مطابق آزادانہ طور پر اپنے ترقیاتی ماڈل اور سیاسی، معاشی، ثقافتی اور معاشرتی نظام کا انتخاب کرنے کا حق ہے. عوامی جمہوریہ چین اور روسی فیڈریشن دیگر  ممالک  کے داخلی اور خارجی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے  تنازعات کے پرامن  حل کے اصول کا اعادہ کیا ، اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ  ممالک  کو تنازعات کو حل کرنے کے لئے  باہمی طے شدہ   اقدامات اور  میکانزم کا استعمال کرنا چاہئے۔دونوں فریقوں کا ماننا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کا فریم ورک کنونشن  اور اس کا پیرس معاہدہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے ممالک کے مابین تعاون کی بنیاد ہے، اور تمام فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ  کنونشن میں طے شدہ مقاصد اور اصولوں، خاص طور پر  اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق مشترکہ  لیکن مختلف ذمہ داریوں پر سختی سے عمل کریں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ  چین اور روس عوامی رائے کو متاثر کرنے، غلط معلومات پھیلانے، دوسرے ممالک کے داخلی معاملات، معاشرتی نظام اور نظم و نسق میں مداخلت کرنے اور دوسرے ممالک کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے کے لئے انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی، خاص طور پر مصنوعی ذہانت کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں۔

Post Views: 2

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بین الاقوامی قانون کا اعادہ چین اور ہیں کہ

پڑھیں:

کیا اب بھی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟

آج دنیا میں ہر طرف ظلم و جبر انتہا پسندی اور ممالک کے درمیان تنازعات کا دور دورہ ہے، سکون اور اطمینان کیسا؟ یہ نعمتیں تو انسانوں سے کوسوں میل دور ہو گئی ہیں یا کہیں کھو گئی ہیں۔

انسان امن کی تلاش میں ہے مگر بعض طاقتیں امن کی ایسی دشمن بن گئی ہیں کہ وہ دنیا کو جہنم بنانے کی تگ و دو میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا کو جنگوں کی ہولناکیوں سے بچانے کے لیے ’’ اقوام متحدہ‘‘ کا ادارہ قائم کیا گیا تھا۔

اس سے قبل ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے ’’ لیگ آف نیشن‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا مگر یہ ادارہ اقوام عالم کے درمیان باہمی تنازعات کو حل کرنے میں قطعی ناکام رہا اور بدقسمتی سے اس کی موجودگی میں ہی دوسری جنگ عظیم کا سانحہ رونما ہوا جس میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ کئی ملک برباد ہوگئے اورکئی کا تو نام و نشان ہی مٹ گیا۔

یہ تباہی بربادی اتنی خوفناک اور وسیع تھی کہ دنیا ہل کر رہ گئی اور ہر ذی شعور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ دنیا کو تباہی و بربادی سے بہرصورت بچایا جائے۔ تمام ممالک کو اپنے اختلافات بھلا کر یکجا ہونا ہوگا اور مستقبل کو پرامن بنانے کے لیے ایک مضبوط اور پائیدار عالمی ادارہ قائم کرنا ہوگا جو انسانیت کو آیندہ جنگوں کی ہولناکیوں سے بچا سکے، ساتھ ہی دنیا میں پائیدار امن، ترقی اور خوشحالی کا ضامن بن سکے۔

یوں 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آ گیا۔ اس کے قیام میں تمام ہی ممالک کی مرضی شامل تھی۔ اس ادارے سے یہ بھی امید وابستہ کی گئی تھی کہ آیندہ دنیا کے تمام ممالک ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور تنازعات کی صورت میں اقوام متحدہ کے آئین کے مطابق اپنے مسائل حل کریں گے۔

اس ادارے کے قیام میں غریب ممالک سے لے کر دنیا کے متمول ممالک بھی شریک تھے، طاقتور ممالک کو متفقہ طور پر یہ اختیار دیا گیا کہ ان کا ووٹ کسی بھی مسئلے کے حل کے سلسلے میں حتمی قرار دیا جائے گا۔ یہی ویٹو پاور ہے جو دنیا کے پانچ ممتاز ممالک کو تفویض کیا گیا تھا۔

ان ممالک میں امریکا، سوویت یونین، فرانس، برطانیہ اور چین کی جگہ تائیوان شامل تھا۔ اس وقت تک امریکا اور یورپی ممالک نے چین کو تسلیم نہیں کیا تھا مگر بعد میں چین کے اقوام متحدہ کا ممبر بننے کے بعد تائیوان کے بجائے چین کو ویٹو پاور سے نواز دیا گیا۔

افسوس کہ ویٹو پاورکا اکثر ممالک نے غلط استعمال کیا، امریکا نے سب سے زیادہ مرتبہ استعمال کیا مگر اکثر اس سے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ دنیا میں تنازعات پہلے بھی تھے مگر اب تنازعات کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے جس کی وجہ بدقسمتی سے اقوام متحدہ کے ویٹو پاور کے حامل مستقل ممبران ہیں۔

ان ممالک نے اپنے حلیف ممالک کے حق میں بے جا طورپر ویٹو پاور کا استعمال کیا جس کی وجہ سے دنیا میں مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور عالمی سطح پر بے چینی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

اس وقت دنیا کے کئی ممالک باہمی تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مفاد کے لیے اپنے حریف ملک سے چھیڑ چھاڑ سے بڑھ کر جنگ تک کرنے پر تل جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے مگر ویٹو پاورکے حامل ممالک ان مسائل میں خود کو ڈال کر انھیں ایسا الجھا دیتے ہیں کہ پھر یہ برسوں حل نہیں ہو پاتے جیسے مسئلہ کشمیر اور فلسطین ہیں۔ یہ مسائل پانچ دہائیوں سے اقوام متحدہ میں حل طلب ہیں مگر ان کے حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

اقوام متحدہ ان جیسے کئی مسائل میں لاچار اور مجبور دکھائی دیتی ہے۔ روانڈا اور بوسنیا میں ایک عرصے تک انسانوں کا قتل عام ہوتا رہا مگر اقوام متحدہ کا ادارہ مفلوج رہا اور پھر غزہ کے قتل عام کو روکنے میں بھی قطعی ناکام رہا ہے۔

دنیا میں حق خود اختیاری کے حصول کے لیے جو اقوام مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں، اقوام متحدہ ان کی کوئی مدد نہیں کر پا رہی ہے، شاید اس لیے کہ ان مسائل میں بعض بڑے ممالک دلچسپی نہیں لے رہے کیونکہ وہ حق خود اختیاری کے غاصب ممالک کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔

یہ صورت حال انتہائی پریشان کن ہے جس سے ممبر ممالک کے درمیان اقوام متحدہ کی قدر و قیمت باقی نہیں رہی ہے۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کردار ہی ختم ہو گیا ہے۔

اس کے مفلوج ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بڑے ممالک نے جو ویٹو پاور کے حامل ہیں خود اپنے اثر و نفوذ دے عالمی تنازعات کے حل کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ وہ دو ممالک کے درمیان تنازعے کے سلسلے میں اپنے فیورٹ یا پسندیدہ ملک کی پشت پناہی کرتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں جب کہ دوسرا فریق ملک جوکہ حق پر بھی ہوتا ہے، اسے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اور پھر کوئی اس کی نہیں سنتا۔

اس وقت عالمی تنازعات کے حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی جگہ امریکا کے صدر ٹرمپ نے لے لی ہے، وہ تنازعات حل کرانے کے علاوہ ملکوں پر پابندیاں بھی لگا رہے ہیں اور کوئی ان سے باز پرس بھی نہیں کر سکتا، اس لیے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے صدر ہیں۔

انھوں نے کئی ممالک کے باہمی تنازعات کو حل کرا بھی دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگ تھی تو بہت مختصر مگر وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک بھی جا سکتی تھی۔ صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اسے انھوں نے رکوا دیا، صرف دونوں ممالک کو تجارت کی آفر دے کر۔ انھوں نے اس کامیابی پر نوبل انعام دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔

مگر چونکہ اسے دیے جانے کا طریقہ کار مختلف ہے، اس لیے اس سال کا نوبل انعام انھیں نہیں مل سکا۔ ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان بھی جنگ رکوا دی ہے اور صلح کرا دی ہے۔ اب اگر ممبر ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرانے کا یہی شخصی طریقہ قائم رہا تو اقوام متحدہ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ لیگ آف نیشن بھی دنیا کی بڑی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے ہی ناکام ہوگئی تھی اور اسی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کا سانحہ پیش آیا تھا۔ بدقسمتی سے اس وقت اقوام متحدہ کے کاموں میں بڑی طاقتیں کھل کر مداخلت کر رہی ہیں اور اسے ایک ناکام اور لاچار ادارہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں تو پھر دنیا کا خدا ہی حافظ۔ 

اقوام متحدہ کی عدم فعالیت کی وجہ سے ہی کئی طاقتور ممالک کمزور ممالک پر حملہ آور ہو رہے ہیں کیونکہ اب انھیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس صورت حال کا بھارت اور اسرائیل سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

بھارت کا کوئی بھی پڑوسی اس کے توسیع پسندانہ رجحان سے محفوظ نہیں ہے۔ نیپال، بھوٹان، مالدیپ اور بنگلہ دیش تمام ہی اس سے خوفزدہ ہیں، ادھر وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ایک طرف دہشت گردی کا سہارا لے رہا ہے۔

دوسری طرف خود بھی بلاجواز حملے کرتا رہتا ہے حال ہی میں وہ پلوامہ کے بہانے پاکستان پر پوری قوت سے حملہ کر چکا ہے مگر خوش قسمتی سے اس میں اسے تاریخی شکست اور حزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اب وہ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کر رہا ہے۔

دراصل مودی پاکستان پر ان حملوں کے ذریعے سیاسی فائدے حاصل کرتا ہے وہ اپنے ہاں ہونے والے ریاستی اور وفاقی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹتا رہتا ہے مگر اس دفعہ وہ اپنے آپریشن سندور میں ناکام ہونے کے بعد اب مشکل ہی سے بہار میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر پائے گا۔
 

متعلقہ مضامین

  • پولیس پر حملے یا مزاحمت کی صورت میں سخت سزاؤں کا اعلان
  • لاپتہ افراد کی بازیابی کیس میں حکومت و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نوٹس جاری
  • تاریخ میں پہلی بار انسانی دماغ کے خلیوں کا جامع نقشہ تیار، کونسی بیماریوں پر قابو پایا جاسکے گا؟
  • کراچی:آسٹریلیا کی نیو ساؤتھ ویلز قانون ساز اسمبلی کی رکن جولیا فن بین الاقوامی ہاکی کھلاڑی عبداللہ بابر کو موربینک ہاکی گراؤنڈ سڈنی آسٹریلیا میں پاکستان اسپورٹس کلب آسٹریلیا ہاکی ٹیم کے کپتان کو ہاکی میں تعریفی سرٹیفکیٹ دے رہی ہیں
  • مزاحمت کو غیر مسلح کرنیکا ہر منصوبہ ناکام رہے گا، الجہاد الاسلامی فی فلسطین
  • پارلیمنٹ کی قانون و انصاف کمیٹی کا مشترکہ اجلاس،خیبرپختونخوا کا نام تبدیل کرنے سمیت مزید3ترامیم پیش
  • آزادی اظہار و پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے، وزیراعلیٰ سہیل آفریدی
  • کیا اب بھی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟
  • 27ویں آئینی ترمیم: مشترکہ کمیٹی میں بل پر آج ووٹنگ نہ کرنے کا فیصلہ
  • امن مسلط کرنے کا منصوبہ