نئی دہلی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ بھارت دنیا کو گمراہ کررہا ہے جب پاکستان کارروائی کرے گا تو سب دیکھیں گے۔
ٹی آر ٹی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت سے پاکستان پر آرٹلری، مارٹر دیگر بڑے ہتھیاروں سے گولہ باری جاری ہے، بدقسمتی سے بھارت جان بوجھ کر معصوم شہریوں کو نشانہ بنارہا ہے جوابی کارروائی میں پاکستان نے بھارت کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے دفاع میں چھوٹے ہتھیاروں سے بھارتی پوسٹوں کو نشانہ بنارہا ہے، پاکستان کی جانب سے ڈرون یا راکٹ حملہ نہیں کیا گیا۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ بھارت نے پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں ڈرونز، راکٹوں سے حملہ کیا، بھارت کا من گھڑت پروپیگنڈا بالکل بے بنیاد ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں۔
ا  نہوں نے کہا کہ 21ویں صدی کی جنگوں میں کسی ہدف کو نشانہ بنایا جائے تو واضح ثبوت ہوتے ہیں، بھارت دعویٰ کررہا ہے میزائلوں اور ڈرون سے حملہ کیا ہے تو ثبوت سامنے لائے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ بھارت پاک فضائیہ کے پائلٹ کو پکڑنے کا دعویٰ کررہا ہے تو اسے سامنے لائے، بھارتی میڈیا بغیر ثبوتوں کے مکمل طور پر جھوٹی کہانیاں بنا کر دنیا کو گمراہ کررہا ہے، ان کے پاس پہلگام حملے کے حوالے سے بھی پاکستان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔

Post Views: 6.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: نے کہا کہ کو نشانہ کہ بھارت کررہا ہے

پڑھیں:

غزہ پر قبضے کا اسرائیلی خواب

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرے گا اور اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کر کے اتھارٹی تھرڈ پارٹی کے حوالے کی جائے گی۔ اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں بھوک کی پالیسی سے بارہ ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکا حالیہ بیان کہ اسرائیل غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرے گا اور پھر اس پرکنٹرول کسی تیسرے فریق کے حوالے کیا جائے گا، محض ایک سیاسی اعلان نہیں بلکہ ایک ایسے گہرے منصوبے کی جھلک ہے جس کا مقصد نہ صرف فلسطینی سرزمین پر مستقل قبضہ کرنا ہے بلکہ فلسطینی عوام کو ان کی شناخت، خود مختاری اور آزادی سے مکمل طور پر محروم کر دینا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ پہلے ہی انسانی بحران کی بد ترین شکل اختیارکرچکا ہے۔

لاکھوں فلسطینی بے گھر، بھوکے، پیاسے اور بمباری کے خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں، بچے ماں باپ سے محروم ہو رہے ہیں، اور ایک پورا معاشرہ ملبے کے ڈھیر میں دفن ہو چکا ہے۔ایسے میں اسرائیل کی جانب سے ’’ غزہ پر مکمل قبضے‘‘ کا عندیہ دینا دراصل عالمی برادری کو کھلا چیلنج دینا ہے۔ نیتن یاہو کی اس سوچ کے پیچھے وہی پرانا استعماری ذہن کارفرما ہے جو طاقت کے زور پر قوموں کو دبانے کا عادی ہے۔

سوال یہ ہے کہ وہ ’’ تیسرا فریق‘‘ کون ہے جسے غزہ کا کنٹرول دیا جائے گا؟ کیا یہ امریکا ہوگا؟ یا کوئی علاقائی طاقت؟ یا کوئی بین الاقوامی تنظیم جسے محض دکھاوے کے لیے لایا جائے گا تاکہ اسرائیل کی غیر قانونی حکمرانی کو جواز فراہم کیا جا سکے؟ جو بھی فریق ہو، اصل بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر غزہ پرکسی بھی قسم کا کنٹرول ایک اور قبضہ ہو گا،ایک اور ناانصافی ہو گی، اور ایک نیا باب ظلم کا کھولا جائے گا۔

 یہاں پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ متنازعہ بات بھی یاد آتی ہے جس میں انھوں نے غزہ کو ایک ’’ تفریحی مقام‘‘ میں تبدیل کرنے کی بات کی تھی۔ اس بیان سے نہ صرف ان کی فلسطینیوں کے مصائب سے بے حسی ظاہر ہوئی، بلکہ یہ بھی عیاں ہوا کہ ان کی نظر میں غزہ ایک انسانی المیہ نہیں، بلکہ ایک معاشی منصوبہ ہے۔

ایسی سوچ محض سیاسی لاعلمی نہیں بلکہ ظالمانہ استحصالی ذہنیت کی عکاسی ہے، اگر اسرائیل کے زیرِ اثر غزہ کو کسی ایسے ’’ ترقیاتی منصوبے‘‘ میں بدلا گیا جس کا فائدہ صرف قبضہ گیر طاقتوں کو پہنچے، تو یہ ایک نئی طرزکی نوآبادیات ہو گی جس کا مقصد زمین ہتھیانا اور لوگوں کو بے دخل کرنا ہوگا۔ یہ کوئی راز نہیں کہ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مدت میں عالمی سطح پر جو معاشی پالیسیاں اختیارکیں، ان کا واحد مقصد امریکا کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے ۔

چین، بھارت، ترکی اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں پر بے جا ٹیرف لگا کر وہ دنیا کو معاشی غلامی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ عالمی تجارتی نظام میں ان کی یکطرفہ پالیسیاں بے یقینی، عدم اعتماد اور معاشی عدم توازن کا سبب بن رہی ہے۔ ان پالیسیوں کے منفی اثرات دنیا کے کئی ممالک کی معیشتوں پر نمایاں ہیں۔ ایسے میں اگر ٹرمپ یا ان کی طرز کی قیادت کو غزہ جیسے حساس خطے میں کوئی کردار ملتا ہے، تو یہ امن کی نہیں، بلکہ ایک اور بحران کی بنیاد ہو گی۔

غزہ کی موجودہ صورتحال کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں ہر قسم کا انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے، پینے کا صاف پانی ناپید ہے، اسپتال تباہ ہو چکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں ان میں ادویات نہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے، ریڈ کراس اور بین الاقوامی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری انسانی امداد نہ پہنچی تو لاکھوں جانیں خطرے میں ہیں، لیکن بدقسمتی سے اسرائیل کی بمباری جاری ہے، اور عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

امریکا، جو اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، اس کے سامنے انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادیں سب بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں۔ فلسطینی عوام کا مسئلہ صرف زمین یا اقتدار کا نہیں، بلکہ ان کا مقدمہ انسانیت، آزادی اور بقاء کا ہے۔ ان پر جو ظلم ہو رہا ہے، وہ صرف ایک علاقے تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا کی خاموشی اس جرم میں شریک بن چکی ہے۔ جب پوری دنیا مظلوم کی حمایت سے گریزکرے، ظالم کو اسلحہ دے، اور صرف مذمت پر اکتفا کرے، تو ظلم کو طاقت ملتی ہے اور امن مزید دور ہو جاتا ہے۔

اسرائیل کی پالیسی واضح ہے، طاقت کے بل پر قبضہ اور فلسطینیوں کو مسلسل دیوار سے لگانا۔ اس کے پیچھے نہ صرف عسکری قوت ہے بلکہ معاشی، سفارتی اور میڈیا کا ایک منظم نیٹ ورک بھی ہے۔ مغربی میڈیا عام طور پر اسرائیلی بیانیے کو زیادہ جگہ دیتا ہے، جب کہ فلسطینیوں کی آواز یا تو دبا دی جاتی ہے یا مشکوک بنا کر پیش کی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں حقائق عوام تک پہنچنے سے رہ جاتے ہیں، اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا جاتا ہے۔

اسرائیل اور امریکا کی یہ مشترکہ حکمت عملی اگر اسی طرح چلتی رہی تو مشرق وسطیٰ ایک ایسے دائمی تنازعے کی لپیٹ میں آ جائے گا جس کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ پہلے ہی یمن، شام، لبنان اور عراق جیسے ممالک بدامنی کا شکار ہیں، اگر غزہ میں ظلم کا یہ سلسلہ نہ رکا تو یہ آگ پورے خطے کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔بین الاقوامی اداروں کی بے بسی اور مسلم دنیا کی خاموشی بھی اس المیے کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے۔

او آئی سی جیسا ادارہ محض اجلاسوں اور بیانات کی حد تک محدود ہو چکا ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران معاشی مفادات یا سفارتی تعلقات کے تحت اس قدر محتاط ہو چکے ہیں کہ فلسطینیوں کے لیے دو ٹوک موقف اختیارکرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ آخر کب تک دنیا فلسطین پر ہونے والے مظالم کو نظرانداز کرتی رہے گی؟ کب تک عالمی برادری صرف تماشائی بنی رہے گی؟

جو ممالک خود کو جمہوریت، انسانی حقوق اور انصاف کے علمبردار کہتے ہیں، ان کے لیے غزہ ایک کڑا امتحان ہے۔ اگر وہ واقعی اپنے دعوؤں میں سچے ہیں تو انھیں فلسطینیوں کے حق میں واضح، عملی اور جرات مندانہ موقف اختیار کرنا ہو گا۔ محض امداد یا مذمتی بیانات سے نہ مظلوم کو ریلیف ملتا ہے اور نہ ہی ظالم کے ہاتھ رکتے ہیں۔یہ مسئلہ محض جغرافیہ یا اقتدار کا نہیں بلکہ انسانی وقار، حقِ زندگی اور انصاف کے بین الاقوامی اصولوں کا امتحان ہے۔

فلسطینی بچوں کی معصومیت، فلسطینی ماؤں کے آنسو، اور فلسطینی نوجوانوں کی قربانیاں یہ گواہی دیتی ہیں کہ وہ صرف اپنے ملک کی آزادی کے لیے نہیں لڑ رہے، بلکہ انسان ہونے کے حق کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ ان کی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اگر عزت و وقار سے جینا چاہے تو ظلم و جبر کے آگے سر نہیں جھکاتا۔فلسطینیوں کے لیے یہ محض زمین کا سوال نہیں۔ وہ زمین جس پر ان کے آباؤ اجداد نے صدیوں تک زندگی گزاری، عبادت کی، محنت کی، اور نسلیں پروان چڑھائیں، وہ زمین ان کی تاریخ اور ثقافت کا حصہ ہے۔

لیکن آج انھیں اس زمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کی بستیاں مسمار کی جا رہی ہیں، عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور اُن کی تاریخ کو مٹانے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یہ سب کچھ کسی اور قوم کے ساتھ ہو رہا ہوتا، تو دنیا کی طاقتور اقوام چیخ اٹھتیں، مگر فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر بیشتر عالمی طاقتیں یا تو خاموش ہیں یا خاموش رہنے پر مجبور کی جا چکی ہیں۔انسانی حقوق کے علمبردار ادارے، عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کی قراردادیں سب بے اثر دکھائی دیتی ہیں۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔

یہ نہ کسی قوم کی اجارہ داری ہے اور نہ کسی طاقتور ملک کی عنایت۔ فلسطینی قوم نے اپنی آزادی کے لیے جو قربانیاں دی ہیں، وہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھی جائیں گی۔ انھوں نے گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر، ٹینکوں کے سامنے پتھر لے کر کھڑے ہو کر، اور بچوں کی لاشوں کو دفنا کر بھی ہار نہیں مانی۔ ان کے دل میں آج بھی آزادی کی تڑپ زندہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ شاید وہ خود آزاد نہ ہوں، لیکن ان کی آیندہ نسلیں ایک دن ضرور آزاد فضا میں سانس لیں گی۔ یہی امید انھیں زندہ رکھتی ہے، یہی ایمان انھیں ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے کی ہمت دیتا ہے۔

دنیا ابھی مکمل طور پر بے ضمیر نہیں ہوئی۔ آج بھی لاکھوں لوگ، خصوصاً نوجوان نسل، سوشل میڈیا کے ذریعے فلسطین کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ وہ تصاویر، وڈیوز اور بیانات جو کبھی دنیا سے چھپائے جاتے تھے، آج سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے، لیکن اسے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

صرف جذباتی نعروں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں فلسطینی عوام کی حقیقی مدد کرنی ہوگی، چاہے وہ مالی ہو، تعلیمی ہو، یا سفارتی۔وقت آ گیا ہے کہ دنیا دوغلی پالیسیوں سے باز آ کر کھل کر ظالم اور مظلوم کے بیچ فرق واضح کرے۔ فلسطینیوں کی زمین، ان کی شناخت اور ان کا وجود کوئی تجارتی منصوبہ یا سفارتی سودے بازی کا حصہ نہیں۔ یہ ایک قوم کا بنیادی حق ہے جسے کوئی طاقت چھیننے کی کوشش کرے گی تو وہ خود تاریخ کے کٹہرے میں کھڑی ہو گی۔

متعلقہ مضامین

  • اقوال زریں!
  • یہ دہشت گردی نہیں ہے
  • غزہ پر قبضے کا اسرائیلی خواب
  • پولیس اہلکار نے میرے گریبان میری عزت پر ہاتھ ڈالا
  • روس کیساتھ جنگ میں پاکستانی جنگجوئوں کی مدد کا الزام، پاکستان کا معاملہ یوکرین کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ
  • پاکستان نے یوکرینی صدر کے بیان کو مسترد کردیا
  • کندیاں: سی ٹی ڈی اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ، 2 ملک دشمن ہلاک، 6 فرار
  • فساد گروپ نے 14 اگست کو احتجاج کی کال دیکر پھر ملک دشمنی کا ثبوت دیا: عظمیٰ بخاری
  • فیلڈ مارشل کے صدر بننے کی خبر جھوٹ، حملے پر جوابی کارروائی بھارت کے اندر گہرائی سے شروع ہو گی: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • مستونگ دہشتگرد حملہ: میجر اور 2 اہلکار شہید، جوابی کارروائی میں 4 دہشتگرد ہلاک