بھارت کا میزائلوں سے دو ائیر بیسز پر حملہ، ہمارے جواب کا انتظار کرو، جنرل احمد شریف
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
سٹی42: بھارت نے پاکستان پر فضا سے میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ پاکستان کے شہروں شورکوٹ ائیر بیس اور راولپنڈی کے نور خان ائیر بیس، کو نشانہ بنایا ہے۔
آج نصف شب گزرنے کے بعد کینہ پرور مودی پڑوسی کی مسلسل جارحانہ حرکتوں کے بعد سوشل میڈیا پر اطلاع آئی تھی انڈیا نے نور خان ائیر بیس، شور کوٹ ائیر بیس پر میزائلوں کے حملے کئے ہیں۔ اب پاکستان آرمی کے ترجمان نے ان حملوں کی تصدیق کی ہے ۔
مری میں ’’پاک فوج زندہ باد ‘‘ ریلی
جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بھارت ہمارے جواب کا انتظار کرے۔
آج صبح پونے دو بجے یہ بریکنگ نیوز آئی تھی کہ انڈیا کی فوج نے آدم پور سے اپنے ہی شہر امرتسر پر چھ بیلسٹک میزائل فائر کئے ہیں۔ ان مین سے ایک میزائل مس فائر ہو کر آدم پور مین ہی گر گیا اور پانچ میزائل امرت سر مین گرے جو مشرقی پنجاب میں واقع ہے اور جہاں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس گوردوارہ دربار صاحب واقع ہے۔
پاکستان آرمی کے ترجمان نے فوری طور پر ہنگامی میڈیا بریفنگ کی اور دنیا کو بتایا کہ امرتسر مین پانچ بیلسٹک میزائل اندیا نے اپنے ہی علاقہ سے خود گرائے ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اسلام آباد پہنچ گئے
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا یہ ایک خطرناک اور عقل سے ماورا حرکت ہے۔ پاکستان بھارت کی اقلیتوں سے ہمدردی رکھتا ہے۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
یومِ تکبیر سے فتح مبین تک
28 مئی 1998ء وہ تاریخی دن تھا جب چاغی کے سنگلاخ پہاڑوں نے پاکستان کی عظمت کی گواہی دی۔ یہ محض ایک سائنسی فتح نہیں تھی بلکہ ایک قوم کے عزم، اس کی غیرت اور اس کی خودمختاری کا آہنی اعلان تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ وہ ایک ناقابلِ تسخیر، ذمہ دار اور باوقار قوم ہے۔ یومِ تکبیر ایک دن نہیںبلکہ ایک جذبہ ہے، ایک ایسی داستان جو ہر پاکستانی کے دل میں فخر کی لہر جگاتی ہے۔ آج اگر ہم بھارت کے مقابلے میں سرخرو ہیں تو یہ اسی دن کی بدولت ہے، جب ہم نے اپنی سائنسی مہارت، سفارتی جرأت، اور قیادت کی دوراندیشی سے عالمی منظرنامے پر اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ دوسری طرف بھارت، جو اپنے جوہری پروگرام کی بدانتظامی، چوریوں، اور شرمناک ناکامیوں سے عالمی سطح پر رسوا ہو رہا ہے، اس کی ذلت ہمارے فخر کا آئینہ ہے۔
یہ دن ہمارے قومی ہیروز کی لازوال قربانیوں کی داستان ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، وہ عظیم سائنسدان جن کا نام پاکستان کی عزت کا استعارہ ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ دن رات ایک کر کے، عالمی پابندیوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے ناممکن کو ممکن بنایا۔ وہ ہمارے سچے محسن ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی اس قوم کے دفاع کے لیے وقف کر دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا وہ خواب کہ ’’ہم گھاس کھائیں گے، لیکن ایٹم بم بنائیں گے‘‘ آج بھی ہر پاکستانی کے خون میں جوش بھردیتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق ، مرد مجاہد جس نے عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس پروگرام کو منزل تک پہنچایا۔ بے نظیر بھٹو جس نے میزائل پروگرام کی مضبوط بنیاد رکھ کر ہمارے دفاع کو نئی بلندیوں تک پہنچایا اور پھر نواز شریف، تمام تر اختلافات کے باوجود اعتراف لازم ہے کہ نواز شریف نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکوں کا تاریخی فیصلہ کیا، وہ فیصلہ جو پاکستان کو عالمی نقشے پر ناقابلِ شکست طاقت بنا گیا۔ یہ ہمارے ہیروز ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیاں اس قوم کی عزت اور سربلندی کے لیے نچھاور کیں، ایک اور نام بھی ہےجس کا احسان یہ قوم کبھی نہیں چکا سکتی ، غلام اسحاق خان ، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا وہ امین جس نے سیکریٹری خزانہ سے لے کر صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ تک اس پروگرام کی مالی ضروریات کو ایسے پورا کیا کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوسکی اور ایک لمحے کو بھی ایٹمی منصوبوں کو مالی تنگدستی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، سینکڑوں داستانیں ہیں جو اس مرد قلندر کی عظمت کردار کی گواہی دیتی ہیں ، فرض شناس اتنا کہ جب سیاسی کشمکش کے نتیجہ میں اسے منصب سے الگ ہونا پڑا تو بزعم خود ایک ’’بڑے ‘‘ صحافی نے ایٹمی پروگرام کے حوالہ سے سوال کیا تو ،کہا ’’ہاں، کبھی ہم اس کے نگہبان تھے، اب کچھ اور لوگ اس کے امین ہیں۔‘‘
وقت کا گزرتا ہوا ہرلمحہ ثابت کررہا ہےکہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے جس نے اپنے جوہری پروگرام کو نہ صرف مضبوط بلکہ عالمی معیار کے مطابق محفوظ بنایا۔ ہمارے حفاظتی پروٹوکولز دنیا بھر میں تسلیم کیے جاتے ہیں اور ہماری قوم اپنی خودمختاری اور دفاع کے لیے ہرقربانی دینےکو تیار ہے،لیکن بھارت کا کیا حال ہے؟ وہ بھارت، جو اپنے جوہری پروگرام کی بدانتظامی، چوریوں اورشرمناک ناکامیوں سے عالمی برادری کی نظروں میں ذلیل ہو رہا ہے۔ بھارت میں یورینیم کی چوریوں نے جوہری تحفظ کے پروٹوکولز پر سنگین سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ بھارت میں جوہری مواد کی چوری، اسمگلنگ اور تابکار حادثات کا تسلسل عالمی برادری کو شدید تشویش میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس کی جوہری تنصیبات اور مواد کی تیاری سے متعلق حفاظتی اقدامات میں مسلسل کوتاہیاں سامنے آ رہی ہیں، جو نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
ساؤتھ ایشیا اسٹریٹجک اسٹیبیلٹی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق، 1994 سے 2021 تک بھارت میں جوہری مواد کی چوری کے 18 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں چوری ہونے والے مواد کی مقدار 200 کلوگرام سے متجاوز ہے۔ ان واقعات میں متعدد کیسز میں ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے یورینیم یا کیلیفورنیم جیسے خطرناک تابکار مادے برآمد ہوئے۔ نیوکلئیر تھریٹ انیشی ایٹو (NTI) کی 2024 کی رپورٹ بھی بھارت کے جوہری تحفظ کے نظام پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت کو 22 ممالک کی فہرست میں 20ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جبکہ ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کے عالمی انڈیکس میں بھارت 47 ممالک میں سے 40ویں نمبر پر ہے۔ NTI نے کئی بار بھارت میں ممکنہ جوہری حادثات سے قبل خبردار کیا لیکن بھارتی حکومت کی عدم توجہی نے ان خطرات کو حقیقت بنادیا۔
واقعات کی تفصیلات بھارت کی شرمناک بدانتظامی کو عیاں کرتی ہیں۔ نومبر 1994 میں دومقامات سے 2.5 کلوگرام یورینیم اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنائی گئی۔ 1998 میں 100 کلوگرام سے زائد یورینیم کی اسمگلنگ کی کوشش ریکارڈ پر ہے۔ اسی سال جولائی میں تامل ناڈو سے 8 کلوگرام، مئی 2000 میں ممبئی سے 8.3 کلوگرام، اور اگست 2001 میں مغربی بنگال سے 200 گرام نیم تیار شدہ یورینیم برآمد ہوا۔ حالیہ برسوں میں بھی صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ 2018 میں کولکتہ میں پانچ افراد کے قبضے سے 1 کلوگرام یورینیم برآمد ہوا۔ مئی 2021 میں مہاراشٹرا سے 7 کلوگرام یورینیم اور جون 2021 میں جھارکھنڈ سے 6.4 کلوگرام یورینیم قبضے میں لیا گیا۔ اسی سال کولکتہ ایئرپورٹ پر 250 گرام کیلیفورنیم برآمد کیا گیا، جو شدید تابکار اور انتہائی مہنگا مواد ہے۔ جولائی 2024 میں بھارت کے حساس ترین ادارے، بھابھا ایٹمی تحقیقاتی مرکز سے تابکار آلے کی چوری بھارتی جوہری تحفظ کے لیے کھلا طمانچہ تھی۔ اگست 2024 میں ایک اورتابکار مادہ، جو کیلیفورنیم سے مشابہت رکھتا تھا، قبضےمیں لیا گیا۔ ان تمام واقعات نے عالمی اداروں اور ماہرین کو مجبور کر دیا کہ وہ بھارت کی جوہری سلامتی پر نظر ثانی کریں۔
بھارتی پارلیمانی رپورٹس بھی اس غفلت کی تصدیق کرتی ہیں۔ 1995 سے 1998 کے درمیان 147 حفاظتی حادثات رپورٹ کیے گئے جو حکومتی اور انتظامی سطح پر بدترین لاپروائی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بھارت کی یہ کمزوریاں نہ صرف خود اس کے لیے خطرناک ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں جوہری تحفظ کے عالمی پروٹوکولز کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ تابکار مواد کی بار بار چوری اور اس کی اسمگلنگ کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت جوہری ہتھیار رکھنے کے باوجود بین الاقوامی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہا ہے۔ عالمی برادری کے لیے یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا بھارت جیسے ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کی ملکیت برقرار رکھنے دی جائے، جبکہ اس کے اندرونی حفاظتی نظام اتنے غیر محفوظ اور ناقابلِ اعتماد ثابت ہو چکے ہیں؟
یہ شرمناک سلسلہ بھارت کی بدانتظامی اور غیر ذمہ داری کا منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ پاکستان نے اپنے جوہری پروگرام کو ہمیشہ ذمہ داری اور عزت کے ساتھ سنبھالا۔ ہمارے حفاظتی نظام عالمی معیار پر پورا اترتے ہیں، اور ہماری قوم اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیےہرقربانی دینے کو تیار ہے۔ بھارت کی یہ ناکامی ہمارے فخر کو اور بلند کرتی ہے، ہم اپنے ماہرین اور نیشنل کمانڈ اتھارٹی کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جب بھارت دنیا بھر میں رسوا ہو رہا ہے تو وہی پاکستان کا نام ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست کے طور پر لیتی ہے ۔ یہ وہی فخر ہے ، یہی وہ اعتماد ہےجو پاکستانی نوجوان کو یہ بےفکری عطا کرتا ہے کہ وہ جنگ کے ایام میں بھی دشمن کا تمسخر اڑاتا ہےاور چیلنج کرتا ہے کہ’’ خبردار، ہماری سرحدوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو آنکھیں نوچ لیں گے ۔‘‘ اور اسی قوم کے شہبازوں نے دشمن کی آنکھیں نوچ کر دکھا دیں ، دنیا کو بتادیا کہ 28مئی ہمارے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان تھا تو 10مئی ہمارے نوجوانوں کی جدید حربی ٹیکنالوجی میں مہارتوں کا عملی اعلان ، یومِ تکبیر ایک دن نہیں ، استعارہ ہے ، ایک جذبہ، ترقی، خودمختاری، اور عزت کے سفر کا آغاز ۔ دشمن جان لیں کہ پاکستان وہ سرزمین ہے جو اپنی غیرت اور دفاع کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ 10 مئی کا دن اسی عزم کا اعلان تھا کہ ہماری سرحدیں ناقابلِ عبور ہیں۔ یہ سفر، جو 28 مئی 1998ء کو شروع ہوا، انشاء اللہ کبھی نہیں رکے گا۔ ہم اپنے ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ان کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ بھارت کی ذلت ہمارے فخر کی گواہی ہے، اور پاکستان ہمیشہ سربلند رہے گا۔انشاءاللہ