پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے، وہاں پہاڑوں کے رخ پر موجود کمرے آہستہ آہستہ خالی ہو رہے تھے۔ہوٹل کے ان پریمیئر کمروں کی بالکونی سے پہاڑوں کا خوبصورت نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ پہاڑ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو انڈیا کے زیر انتظام علاقے سے الگ کرتے ہیں۔ تاہم یہاں کی رونق اب سناٹوں میں بدل رہی ہے۔ہوٹل کے ایک سٹاف ممبر نے جمعرات کو مجھے مدہم آواز میں بتایا کہ ’ ہمارے پاس اب کوئی مہمان یا سیاح نہیں ہیں۔ جو لوگ یہاں موجود ہیں انھیں کہیں اور منتقل کر دیا جائے گا۔اور پھر اگلے چند گھنٹوں میں بی بی سی کی ٹیم کو بھی ہوٹل کی نچلی منزل پر منتقل کر دیا گیا۔آپ کبھی نہیں جان سکتے کہ آگے کیا ہوگا.

کوئی بھی آج رات لائن آف کنٹرول کے سامنے سونا نہیں چاہتا۔‘اور اس خوف کی وجہ بہت نمایاں ہے۔ گزشتہ رات پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کئی حصوں میں بلیک آؤٹ کا مسلسل دوسرا واقعہ تھا۔ہمارے ہوٹل کی کھڑکی سے ہی آسمان کو روشن کرتی ہوئی گولہ باری اور فائرنگ دیکھی جا سکتی تھی۔یہاں کے ایک ہوٹل کے کوریڈور میں کراچی سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان جوڑا فیصلہ کر رہا تھا کہ گھر جلدی لوٹنا ہے یا نہیں۔ خاتون کا کہنا تھا کہ 'ہم چھٹیاں منانے آئے تھے لیکن اب ہم گوگل پر میزائل رینج چیک کر رہے ہیں۔ایل او سی کے ساتھ بنے کئی سیکٹروں میں رات بھر گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا انتظامی مرکز مظفر آباد ان مقامات میں شامل ہے جسے انڈیا نے بدھ کی علی الصبح فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔گزشتہ رات شہر میں مکمل طور پر بلیک آؤٹ کر دیا گیا تھا۔ یہ ایک ایڈوائزری تھی لیکن زیادہ تر لوگوں نے بغیر کسی سوال کے اس پر عمل کرتے ہوئے گھروں، ہوٹلوں اور دکانوں کی لائٹس بند کر دیں۔وہ سڑکیں جہاں عام طور پر رات گئے دکانداروں کی آوازیں گونجتی تھیں وہاں خاموشی تھی۔انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پریس بریفنگ اور بیانات کے انداز نے پورے خطے میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور خاص طور پر یہاں سرحد کے قریب اس کو زیادہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: پاکستان کے زیر انتظام کشمیر

پڑھیں:

مریدکے سے مظفرآباد تک: انڈیا نے چھ مئی کی شب پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں 5 مقامات کو نشانہ

انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں ’آپریشن سندور‘ کے تحت متعدد مقامات پر ’دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر‘ حملے کیے ہیں اور یہ کارروائی پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے ذمہ داران کے خلاف تھی۔انڈین فوج کے حکام نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب ایک بج کر پانچ منٹ سے ڈیڑھ بجے تک جاری رہنے والی کارروائی میں پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں جن نو مقامات پر ’دہشتگردوں کے انفراسٹرکچر‘ کو نشانہ بنایا گیا ان میں سے پانچ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر جبکہ چار پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع ہیں۔ انڈیا کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں عام شہریوں یا فوجی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور ان میں عام شہریوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔انڈین دعووں کے برعکس پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ انڈیا نے چھ مقامات پر مختلف اسلحہ استعمال کرتے ہوئے مجموعی طور پر 24 حملے کیے ہیں۔بدھ کی صبح دیے گئے ایک بیان میں پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے صوبہ پنجاب میں احمدپور شرقیہ، مریدکے، سیالکوٹ اور شکرگڑھ جبکہ پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں کوٹلی اور مظفرآباد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ انڈین فضائی حدود سے ہونے والے اِن حملوں میں بچوں اور خواتین سمیت 26 عام شہری ہلاک اور 46 زخمی ہوئے ہیں جبکہ اسی دورانیے میں لائن آف کنٹرول پر انڈیا کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں بھی پانچ شہری ہلاک ہوئے ہیں، جن میں پانچ سال کا ایک بچہ بھی شامل ہے۔۔پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا کے میزائل حملوں کے بعد جوابی کارروائی میں پاکستان نے انڈین فضائیہ کے پانچ جنگی طیارے اور ڈرونز مار گرائے ہیں۔
آئیے جانتے ہیں کہ انڈیا نے جن شہروں اور قصبوں کو نشانہ بنایا، وہ کہاں واقع ہیں اور وہاں کتنا نقصان ہوا ہے۔
مریدکے
 مریدکے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں واقع شہر ہے جو لاہور سے تقریباً 40 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔خیال رہے کہ لاہور کے نواح میں واقع یہ قصبہ ماضی میں جماعت الدعوۃ کے مرکز ’دعوۃ و الارشاد‘ کی وجہ سے بھی خبروں میں رہا ہے۔انڈین حکام نے اس حملے کے بارے میں جو دعوے کیے ہیں ان کے مطابق مریدکے میں حملوں کا ہدف مرکزِ طیبہ تھا۔ انڈین حکام نے الزام لگایا کہ اس مقام پر نومبر 2008 کے ممبئی حملے میں ملوث عسکریت پسندوں نے تربیت حاصل کی تھی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا اجمل قصاب اور ڈیوڈ ہیڈلی کو بھی یہیں تربیت ملی تھی۔پریس کانفرنس کے دوران اس مقام پر مبینہ انڈین حملے کے مناظر بھی دکھائے گئے جن کے مطابق اس مقام پر چار میزائل داغے گئے۔ تاہم یہ حملہ کیسے کیا گیا، اس بارے میں معلومات نہیں دی گئیں۔ادھر پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مریدکے میں ہونے والے حملوں میں مسجد اُم القرا اور اس کے اردگرد واقع کوارٹر نشانہ بنے ہیں اور ان میں تین افراد ہلاک اور ایک زخمی ہوا ہے۔مرید کے میں جو عمارت نشانہ بنی ہے وہ مریدکے شہر سے تھوڑا سا دور جی ٹی روڈ سے ہٹ کر مگر آبادی کے اندر واقع پبلک ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن کمپلیکس ہے جو کہ ایک بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس پر چاروں طرف سے باڑ لگی ہوئی ہے۔انھوں نے بتایا کہ اس کمپلیکس کے اندر ایک ہسپتال اور ایک سکول ہے اور ان کے بالکل ساتھ واقع عمارت کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کے ساتھ ایک بڑی مسجد بھی تھی۔ حملے کے نتیجے میں مذکورہ عمارت تباہ ہو گئی ہے اور اس کا ملبہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ حملے سے مسجد کے بھی ایک حصے کو نقصان پہنچا ہے جبکہ کمپلیکس بھی کافی متاثر ہوا ہے۔نامہ نگار کے مطابق سکول اور ہسپتال کی عمارت کے ساتھ کچھ اور بھی عمارتیں بھی تھیں جو دیکھنے میں رہائشی کمپلیکس کا حصہ لگ رہی تھیں جبکہ ایک جانب کچھ کوارٹرز بھی ہیں جن میں مقامی رہائشیوں کے مطابق ملازمین رہتے تھے۔ ماضی میں یہ مقام جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیموں کی فلاحی سرگرمیوں کا مرکز تھا جس کے لیے ایجوکیشن کمپلیکس اور صحت کے مراکز بنائے گئے تھے تاہم تنظیم پر پابندی عائد ہونے کے بعد حکومتِ پاکستان نے اس کا انتظام سنبھال کر اسے عوام کے لیے سہولیات پہنچانے کے مراکز کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔
احمد پور شرقیہ (بہاولپور)
انڈیا نے بہاولپور کے علاقے میں مرکز سبحان اللہ کو ہدف بنانے کا دعویٰ کیا ہے جسے وہ کالعدم تنظیم جیش محمد کا ایسا مرکز قرار دیتا ہے جہاں شدت پسندوں کی بھرتی، عسکری اور نظریاتی تربیت کی جاتی تھی
انڈین دعووں کے برعکس پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق بہاولپور کے قریب احمد پور شرقیہ کے علاقے میں واقع مسجد سبحان کو نشانہ بنایا گیا جس پر چار حملے کیے گئے جن سے ’مسجد شہید ہوئی جبکہ اردگرد واقع آبادی کو بھی نقصان پہنچا۔‘احمد پور شرقیہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولپور میں واقع ایک تاریخی قصبہ ہے۔ خیال رہے بہاولپور میں کالعدم تنظیم جیشِ محمد کا مرکزی ہیڈکوارٹر بھی واقع ہے اور مدرستہ الصابر اور جامع مسجد سبحان اسی کا حصہ ہیں۔جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کی جانب سے انڈین کارروائی کے بعد جاری کیے گئے بیان میں اپنے خاندان کے دس افراد اور چار قریبی ساتھیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ پاکستانی فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ انڈین حملوں میں یہاں 13 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں تین برس کی دو بچیاں، سات خواتین اور چار مرد شامل ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حملوں میں 37 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، جن میں 9 خواتین اور 28 مرد ہیں۔مدرسہ ومسجد سبحان اللہ ملک کی مرکزی شاہراہ این فائیو پر موجود ہے۔ اسے بہاولپور بائی پاس کہتے ہیں اور یہ علاقہ احمد پور شرقیہ روڈ کہلاتا ہے۔ان کے مطابق یہ مسجد و مدرسہ مقامی آبادی سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کے عقب اور دائیں بائیں کھیت ہیں جبکہ سامنے مرکزی سڑک کے دوسری جانب چھوٹا سا جنگل ہے۔یہاں تعلیم دینے والے ایک استاد نے بتایا کہ مدرسے کا رقبہ 20 سے 25 ایکڑ ہے اور اس کے اندر معلمین کی رہائش گاہوں کے علاوہ ایک قبرستان بھی موجود ہے۔ان کے مطابق جس زمانے میں وہ اس مدرسہ میں درس و تدریس سے منسلک تھے، یہاں 800 کے قریب طلبا و طالبات پڑھتے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ حملے سے کچھ دن قبل مسجد و مدرسہ کو طلبا و اساتذہ سے خالی کروا لیا گیا تھا۔منگل کی شب جب پہلے دھماکے کی آواز سنی گئی تو ارد گرد سے مقامی لوگ جائے وقوعہ کی طرف گئے اور اس کے کچھ دیر بعد پھر دھماکہ ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی آبادی کا کے مطابق دھماکے کی شدت سے دوکلومیٹر فاصلے پر واقع مکانات کے شیشے ٹوٹ گئے ہیں۔
مظفرآباد
 
یہ شہر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا دارالحکومت ہے جہاں کئی اہم دفاتر اور سرکاری عمارتیں موجود ہیں۔پاکستانی فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ یہاں شوائی نالہ کے مقام پر ایک مسجد نشانہ بنی ہے جس کا نام مسجد بلال ہے تاہم انڈین فوج کی جانب سے اسے سیدنا بلال کیمپ کا نام دیا گیا ہے اور ساتھ ہی شوائی نالہ کیمپ نامی مقام کو بھی نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
انڈین فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ سیدنا بلال کیمپ مظفرآباد میں کالعدم تنظیم جیش محمد کا سٹیجنگ کیمپ ہے جہاں جنگل میں شدت پسندی کی تربیت دی جاتی ہے جبکہ لائن آف کنٹرول سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شوائی نالہ کیمپ مبینہ طور پر کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کا تربیتی مرکز تھا۔پریس کانفرنس میں دعوی کیا گیا کہ اکتوبر 2024 میں سونمرگ اور گلمرگ اور اپریل 2025 میں پہلگام میں ہونے والے حملے میں ملوث عسکریت پسندوں نے اسی مرکز سے تربیت لی تھی۔ شوائی نالہ مظفرآباد میں مرکزی سڑک پر واقع ہے جو اوپر پہاڑی تک جاتی ہے اور اس پہاڑی کے سب سے اوپر والے مقام کو شہید گلی کہا جاتا ہے۔پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مسجدِ بلال پر سات حملے کیے گئے جن میں تین اموات ہوئیں جبکہ ایک بچی اور ایک لڑکا زخمی ہیں۔ہ حکام نے علاقے کو ناکہ لگا کر بند کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس اور فوج کے اہلکار موجود ہیں اور کسی کو بھی مسجد کے نزدیک جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ حملے کے نتیجے میں مسجد کی چھت، کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ گئے ہیں جبکہ قریبی گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بیشتر لوگ وادی نیلم اور دیگر علاقوں سے آ کر رہ رہے تھے جن میں سے تقریباً 60 فیصد لوگ واپس جا چکے ہیں۔ ایک مقامی خاتون نے بتایا کہ ان کے بچوں کے سکول آج بند ہیں۔ خاتون نے بتایا کہ پوری رات پریشانی اور خوف کی کیفیت میں گزری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید نہیں تھی کہ ایسا کچھ ہوگا۔اس علاقے میں پہلے کبھی ایسا کچھ ہوا نہیں ہے، اس علاقے کو محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔ اور خاص طور پر مسجد کو جس میں کوئی مدرسہ بھی نہیں تھا نشانہ بنایا گیا ہے۔'
کوٹلی
کوٹلی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اسلام آباد سے تقریباً 120 کلومیٹر کے فاصلے پر لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے۔فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کوٹلی میں بھی ایک مسجد جس کا نام مسجدِ عباس ہے نشانہ بنی اور اس حملے میں ایک 16 سالہ لڑکی اور 18 سالہ نوجوان ہلاک جبکہ دو خواتین زخمی ہوئی ہیں۔انڈین حکام کے مطابق کوٹلی میں دو حملے کیے گئے جن میں عباس کیمپ اور گلپور کیمپ کو نشانہ بنایا گیا۔’عباس کیمپ‘ کے بارے میں انڈین فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ ایل او سی سے 13 کلومیٹر دور ہے جہاں مبینہ طور پر کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے فدائین کو تربیت دی جاتی تھی۔ پریس کانفرنس میں انڈین فوج نے دعوی کیا کہ اس مقام پر پندرہ افراد کو تربیت دینے کی صلاحیت موجود تھی۔گلپور کے مبینہ کیمپ کے بارے میں انڈین فوج نے دعویٰ کیا کہ ایل او سی سے 30 کلومیٹر دور یہ کیمپ کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کا مرکز تھا جہاں سے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں 20 اپریل 2023 کو پونچھ اور نو جون 2024 کو یاتریوں کی بس پر ہونے والے حملے میں ملوث شدت پسندوں نے تربیت حاصل کی تھی۔=انڈیا نے کوٹلی کے علاوہ بھمبر میں برنالہ کیمپ نامی عمارت کو بھی نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے تاہم پاکستانی حکام کی جانب سے دی گئی معلومات میں اس مقام کا ذکر نہیں ہے۔اس مقام کے بارے میں انڈین حکام کی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ مبینہ کیمپ ایل او سی سے نو کلومیٹر دور واقع ہے جہاں ہتھیاروں کی ہینڈلنگ، آئی ای ڈی یعنی دھماکہ خیز مواد اور جنگل میں سروائیول کی تربیت فراہم دی جاتی تھی۔
سیالکوٹ
سیالکوٹ دریائے چناب کے کنارے واقع صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے۔ یہاں سے انڈیا کے زیرِ انتظام جموں کا علاقہ صرف 48 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال کی سمت واقع ہے۔ورکنگ باؤنڈری ضلع سیالکوٹ کو انڈیا کے زیرِ انتظام علاقے سے الگ کرتی ہے۔فوج کے ترجمان کے مطابق سیالکوٹ کے شمال میں ورکنگ باؤنڈری گاؤں کوٹلی لوہاراں پر دو گولے داغے گئے جن میں سے ایک پھٹ نہیں سکا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔پاکستانی حکام کے دعووں کے برعکس انڈیا کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ میں دو کیمپوں سرجال اور میمونہ جویا نشانہ بنائے گئے۔انڈین فوج کے مطابق سرجل کیمپ سرحد سے صرف چھ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ مارچ 2025 میں انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر پولیس کے چار جوانوں کو ہلاک کرنے والے شدت پسندوں کو اسی جگہ پر تربیت دی جاتی تھی۔میمونہ جویا کیمپ کے بارے میں انڈین پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ کیمپ عالمی سرحد سے بارہ کلومیٹر دور تھا۔ انڈین فوج کا الزام ہے کہ یہ مبینہ طور پر حزب المجاہدین نامی عسکریت پسند تنظیم کا بہت بڑا کیمپ تھا جہاں سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کٹھوا کے علاقے میں کارروائیاں کی جاتی تھیں۔ یہ دعوی بھی کیا گیا کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر ہونے والا حملے کی منصوبہ بندی اور نگرانی اسی کیمپ سے کی گئی تھی۔

شکرگڑھ
شکرگڑھ پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل ہے۔ اس قصبے کے مشرق میں انڈیا کا ضلع گورداسپور جبکہ شمال میں جموں کا علاقہ ہے یعنی اس کی سرحد پاکستان اور انڈیا کی بین الاقوامی سرحد اور ورکنگ باؤنڈری دونوں سے ملتی ہے۔فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شکرگڑھ پر بھی دو گولے داغے گئے جن سے ایک ڈسپنسری کو معمولی نقصان پہنچا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بری خبر ، سینکڑوں ملازمین کو فارغ کر دیا گیا
  • بھارت کا پاکستان کیخلاف اسرائیلی ساختہ ڈرون کا استعمال لیکن یہ کیا صلاحیت رکھتا ہے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
  • انڈین حملے میں مظفر آباد کی مسجد بلال تباہ: امید نہیں تھی کہ یہاں حملہ ہو گا
  • مریدکے سے مظفرآباد تک: انڈیا نے چھ مئی کی شب پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں 5 مقامات کو نشانہ
  • انٹرنیشنل اور قومی میڈیا کو آج مظفر آباد، کوٹلی، مریدکے، احمد پور شرقیہ میں دورہ کروایا جائے گا
  • مرید کے، بہاولپور، مظفر آباد، احمد پور، کوٹلی، بزدل بھارت کے معصوم شہریوں پر میزائل حملے، پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی، 2 رافیل سمیت 3 طیارے گرا دیئے
  • مظفر آباد کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ
  • بھارتی رافیل کی رینج 150 جبکہ پاکستانی جے10 سی کی 200 کلومیٹر ہے، ایئر کموڈور ریٹائرڈ خالد چشتی
  • بھارت نے کوٹلی، بہاولپور، مریدکے، باغ اور مظفر آباد پر میزائل داغ دیئے