جماعت اسلامی کے صوبائی امیر کا کہنا تھا کہ ایک طرف وزیراعلیٰ سرپلس بجٹ اور وفاق کو قرضہ دینے کے دعوے کررہا ہے جبکہ عملاً صوبے کی جامعات بدترین مالی بحران سے دوچار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا وسطی عبدالواسع نے سرپلس بجٹ اور وفاق کو قرضہ دینے کا دعویٰ کرنے والی صوبائی حکومت کی توجہ پشاور کی عظیم مادر علمی یونیورسٹی آف پشاور میں مسلسل مالی بحران کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے پشاور یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہے جوکہ صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت اور ناقص حکمرانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا خود پشاور یونیورسٹی کے چانسلر ہیں، مگر اس اہم ادارے کے زوال اور اساتذہ و ملازمین کی معاشی بدحالی پر ان کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کٹوتی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بے اختیار کرنے کے بعد صوبائی حکومت پر لازم تھا کہ وہ اپنی جامعات کو سنبھالتی، لیکن افسوس کہ صوبائی حکومت نے نہ کوئی مالیاتی پیکیج دیا اور نہ کوئی اصلاحاتی پالیسی متعارف کرائی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صوبائی حکومت

پڑھیں:

پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی

آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز  کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔

اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔

مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔

رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صوبائی حکومت نے معطل ڈاکٹر کو دوبارہ سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کا ایم ایس تعینات کردیا
  • خیبر پختونخوا بار کونسل کا عدالتی بائیکاٹ کا اعلان
  • اقوام متحدہ مالی بحران کا شکار،مجموعی وسائل کم پڑ گئے
  • حکومت بلوچستان کے پاس گندم کا ذخیرہ ختم، بحران کا خدشہ
  • پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • پختونخوا میں ایک فرد سالانہ کتنے کلو آٹا کھاتا ہے؟ صوبائی وزیر کا حیران کن بیان
  • خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی بارخاتون ایس ایس پی کے عہدے پر تعینات
  • خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار خاتون ایس ایس پی کے عہدے پر تعینات
  • ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 300 یومیہ منصوبہ
  • مالی مشکلات سے تنگ ہیں؟ جانیے چیٹ جی پی ٹی کیسے آپ کی مدد کرسکتا ہے