Express News:
2025-08-06@10:15:55 GMT

حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلے

اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT

قراردار پاکستان کو منظور ہوئے تقریباً 85 برس بیت گئے، جس کی منظوری کے سات سال بعد 1947 میں پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔

پاکستان ایک ایسی اکائی ہے جس میں مختلف ثقافتوں اور زبانیں بولنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ مملکت خداداد جسے حاصل کرنے کےلیے لاتعداد قربانیاں دینی پڑیں، کیا ہم نے وہ مقاصد حاصل کرلیے؟

وطن عزیر کو حاصل کرنے کےلیے اُس وقت کے مسلمانوں کے پسِ منظر میں صدیوں کی محرومیاں تھیں، جس سے نجات کےلیے ایک طویل جدوجہد شروع کی گئی کہ برصغیر کے نچلے اور افلاس زدہ مسلمانوں کی زندگیوں میں بہتری لائی جاسکے۔ جبکہ آج حقیقت یہ ہے کہ بحثیت پوری قوم دیانت داری، انصاف اور ترقی کا فریضہ فراموش کرکے اپنی ذاتی اغراض کے اسیر ہوگئی ہے۔

پاکستان کی جدوجہد میں ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جو کہ قوم کو سماجی سطح پر منظم کرنے کے حامی رہے لیکن مسلمان آزادانہ سیاسی کردار ادا کریں اس اشرافیہ کو کبھی قابل قبول نہ تھا۔ یہ اشرافیہ انگریز کے منظور نظر، انگریز استعمار کے وفادار، جاگیردار اور سرمایہ دار لوگ تھے، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں پاکستان پر قابض ہیں۔

21 ویں صدی میں ایسے نظامِ حکومت کو بہتر سمجھا جاتا ہے جہاں عوام کا تعلق اپنے ریاستی اداروں سے تگڑا اور مضبوط ہو۔ حقیقتاً ریاست اور عوام کے باہمی تعلق کو ہم ان کے درمیان ایک عمرانی معاہدے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جہاں ریاست عوام کو ان کی بنیادی حقوق اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضمانت دیتی ہے تو دوسری جانب عوام بھی ریاستی امور اور قوانین کی مکمل پاسداری کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

یہ بڑی مشہور کہاوت ہے کہ ’’تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی‘‘ یا یوں کہیے کہ محبت یا لڑائی یکطرفہ نہیں ہوتی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان خلیج مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی کے بعد ایک ذمے دار ریاست کے طور پر حکومتیں عوام کے ساتھ باہمی تعلق کو مضبوط بنانے کےلیے ایسی قانون سازی کرتیں کہ جس میں کمزور طبقات کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہوتا، تاکہ عوام کی اکثریت ریاستی مفاد کے ساتھ کھڑی ہوتی۔

1973 کے دستور کا بغور جائزہ لیا جائے تو عوامی مسائل کے باب میں ہر پاکستانی کےلیے تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ، انصاف، آزادی اظہارِ رائے اور معلومات تک رسائی وغیرہ۔ سب اہم امور شامل ہیں۔ ریاست کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ کمزور طبقات کے مفاد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

آج وطنِ عزیز میں طاقتور اور کمزور طبقات میں بڑھتی ہوئی خلیج ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری حکومتوں سے مسلسل غلطیاں ہورہی ہیں۔ حکومتوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے آج وطنِ عزیز میں بے حس اور ظالمانہ نظام رائج ہوچکا ہے جس میں خلق خدا کی آسانیوں کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاتا۔

ہماری حکومتیں صرف ٹیکس مانگنا جانتی ہیں، بدلے میں کچھ دینے کو تیار نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری حکومتیں عوام کو وہ حقوق دیتیں جو کہ دنیا کے مہذب معاشروں میں ان کے عوام کو حاصل ہیں۔ حقوق دینا تو بہت دور کی بات، آج اپنے حق کےلیے آواز اٹھانا بھی جرم بن گیا ہے۔

کیا آج پاکستان میں کوئی عام شہری تصور کرسکتا ہے کہ پولیس طاقتور کے مقابلے میں اُسے تحفظ فراہم کرے گی؟ ایسے مناظر ہم میں سے بیشتر نے دیکھیں ہوں گے کہ جس میں شکایت کنندہ ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے جبکہ ملزمان کو کرسیاں اور چائے پیش کی جاتی ہے۔ آج عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر اُسے پولیس سے کام کروانا ہے تو یا تو اس کے پاس وافر پیسے ہوں یا پھر تگڑی سفارش!

78 برسوں سے پاکستان کا سارا بوجھ ایک عام آدمی ہی اٹھا رہا ہے اور ہماری حکومتوں کا مسلسل ایک ہی بیان ہے کہ پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور عوام کو مزید قربانیاں دینی پڑیں گی۔ عوام کے تن کے کپڑے بھی اُتر گئے لیکن پاکستان مشکلات سے نہیں نکلا بلکہ ہر نئی صبح نئی مشکلات کے ساتھ طلوع ہو رہی ہے۔

ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 44.

9 فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یعنی تقریباً 10 کروڑ پاکستانی غربت کا شکار ہیں۔

بجٹ 2025-26 میں پاکستان کی کل آمدنی میں سے 46.7 فیصد ہمیں صرف سود کی مد میں ادا کرنا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ ہماری حکومتوں نے 78 سال میں اتنی زیادہ محنت کی ہے کہ ہماری تقریباً آدھی آمدنی ہم قرض کی مد میں بیرونی دنیا کو دے دیتے ہیں۔ وطن عزیز کی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے 78 سال میں کوئی ایسا نظام بنایا ہی نہیں جو ہمیں حقیقی معنوں میں ترقی کی جانب گامزن کرسکے۔ عوام کو مسلسل دھوکے دیے جارہے ہیں اور ایسے بیانات داغے جاتے ہیں کہ پاکستان کو صرف کچھ سال میں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کردیا جائے گا لیکن یہ سب زبانی کلامی خرچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیا ہم نے ایسی اصلاحات کی ہیں جن کی بدولت ہم ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ہوسکیں؟ 

آپ اس ملک کے اداروں کی نااہلی کا اندازہ اس خبر سے کریں کہ جون کے آخری ہفتے میں ایک ہی خاندان کے سترہ افراد تفریح کی غرض سے سوات جاتے ہیں اور پانی کے ریلے میں کئی گھنٹے پھنسے رہتے ہیں اور مدد کےلیے اپنے لوگوں اور اداروں کو پکارتے ہیں مگر کوئی اُن کی مد د کو نہ آیا۔ وہ آخری لمحے تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اس امید میں رہے کہ شاید انھیں بچا لیا جائے، لیکن پوری ریاستی مشنری بالکل خاموش تھی۔

ایک اور واقعہ کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں چار جولائی کی صبح پیش آیا جس میں چھ منزلہ رہاشی عمارت زمیں بوس ہوگئی اور اس سانحے میں تقریباً ستائیس افراد اپنی جانوں سے گئے۔ این ای ڈی کے سابق وائس چانسلر اور تعمیر کے ماہر ڈاکٹر سروش لودھی نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ کراچی میں عمارتوں کی تعمیر کےلیے ضابطہ اخلاق تیار کیا گیا تھا جس کی مجاز اتھارٹی نے منظوری بھی دی تھی لیکن ایس بی سی اے والوں نے اس ضابطہ اخلاق کو اہمیت ہی نہیں دی۔

ہم 78 سال میں کوئی ایسا نظام سسٹم‘‘ تو نہ بنا سکے جو اداروں میں شفافیت لاتا اور ملک کو ترقی کی راہ پر لے جاتا۔ لیکن افسوس اب ایسا ’’سسٹم‘‘ ضرور موجود ہے کہ جس کی آشیرباد سے اداروں میں لوگ تعنیات کیے جاتے ہیں۔

بجٹ کے اعداد و شمار پر غور کریں تو ہمیں باآسانی سمجھ آجائے گا کہ ہماری اشرافیہ کی ترجیحات کیا ہیں۔ جہاں تعلیم کےلیے صرف 39 ارب اور صحت کےلیے صرف 14.3 ارب روپے رکھے گئے ہوں وہاں ہمیں اشرافیہ کی سوچ کا اندازہ کرلینا چاہیے۔

آج کی اشرافیہ عوام کی محدود کمائی سے ٹیکس لے کر عیاشیاں کر رہی ہے اور عام شہری طبقہ بجلی اور گیس کے بلوں سے تنگ ہوکر خودکشیاں کر رہا ہے۔ آج غریب و امیر کا پاکستان الگ الگ ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اسی طرح ملک چلتا رہے گا یا اسے سدھارنے کےلیے کوئی عملی جدوجہد کی جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہ ہماری اور عوام یہ ہے کہ کےلیے ا کرنے کے عوام کے عوام کو کے ساتھ سال میں

پڑھیں:

پولیس شہدا کا لہو ہماری ریاست کی بنیاد ہے،کبھی فراموش نہیں کرینگے: مریم نواز

 وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ پولیس شہدا کا لہو ہماری ریاست کی بنیادہے، ہم اسے کبھی فراموش نہیں کریں گے۔یوم شہدا پولیس پر اپنے پیغام میں وزیراعلی مریم نواز کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس کے ان جانبازوں کو سلام جنہوں نے اپنا خون دے کر وطن کو امن کا گہوارہ بنایا، کسی ماں نے بیٹا، کسی بیوی نے سہاگ اور کسی بچے نے باپ کھو دیا تاکہ ہم سب محفوظ رہیں، پنجاب کے ہر گلی کوچے کا امن کسی شہید کی آخری سانس کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ سلام ہے ان مائوں کو جنہوں نے بیٹے شہید کرا دیئے اور ان بیٹوں کو جنہوں نے سر جھکانے سے انکار کیا، پولیس شہدا کا خون ہماری ریاست کی سب سے مضبوط اینٹ ہے۔ا نہوںنے کہاکہ ریاست کی اصل طاقت وہ سپاہی ہیں جنہوں نے گولی کے سامنے سینہ کیا اور پیچھے قدم نہ ہٹایا، شہدا کا مشن جاری رہے گا، ان کے خواب ہم پورے کریں گے، پنجاب حکومت پولیس شہدا کے ورثا کے ساتھ صرف الفاظ نہیں عملی اقدامات، فلاحی پیکیجز اور ہر ممکن تعاون کے ساتھ کھڑی ہے۔مریم نواز شریف نے کہا کہ پولیس شہدا کا لہو ہماری ریاست کی بنیاد ہے ہم اسے کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • لیجنڈز لیگ: پاکستان چیمپئنز کے مالک نے پی سی بی کی پابندی کو رد کردیا
  • مسلح افواج پاکستان ہماری محافظ ہیں ، وزیراعظم آزاد کشمیر 
  • روسی صدرپیوٹن کا بڑا قدم، روس نے خطرناک ہتھیاروں پر پابندی ختم کر دی
  • مودی حکومت کا 5 اگست کا اقدام تاریخ کا سیاہ باب ہے، شرجیل انعام میمن
  • شہروں میں بڑھتے ہوئے رہائشی مسائل اور غیر محفوظ تعمیرات
  • پولیس شہدا کا لہو ہماری ریاست کی بنیاد ہے،کبھی فراموش نہیں کرینگے: مریم نواز
  • پیپلز پارٹی عوام کے درمیان بیٹھ کر مثالی خدمت کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مرتضیٰ وہاب
  • بھارت بھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم پر حکومت کی خاموشی ناقابل قبول ہے، الکا لامبا
  • شوگر مافیا کا تعلق حکمران طبقے سے ہے، اسی لئے کوئی روکنے والا نہیں،بیرسٹر سیف