WE News:
2025-08-09@21:29:45 GMT

سائرن، خندق، جنگ اور بچے!

اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT

قارئین، جس موضوع پر ہم لکھ رہے تھے اسے موقوف کرتے ہوئے کچھ یادیں تازہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ملک عزیز پر چھائے جنگ کے سائے، غیر یقینی صورتحال اور سرحدوں پر کشیدگی نے یاسیت طاری کر دی ہے شاید۔

ہمارے بچپن کی یادوں میں بہت سی ایسی کہانیاں موجود ہیں جب ہم نے بہت کچھ دیکھا، برتا مگر ننھا سا ذہن سمجھ نہیں پایا کہ ہو کیا رہا ہے؟

1971 کے آخری مہینوں کی بات ہے جب ابا سرشام ہی ریڈیو کے سامنے بیٹھ کر بی بی سی سے خبریں سننے کا انتظار کرتے۔ امی ابا سے بار بار پوچھتیں کہ کیا واقعی جنگ چھڑنے والی ہے؟ ابا کے چہرے پر تذبذب کے آثار ہوتے، جیسے کچھ کہنا بھی چاہتے ہوں اور نہیں بھی۔

انہی دنوں گلی میں کھیلتے کھیلتے انکشاف ہوا کہ گلی کے آخر میں موجود میدان میں کھدائی ہورہی ہے۔ اینٹوں سے بنی پختہ طویل گلی کے آخر میں ایک قبرستان تھا اور قبرستان کے سامنے ایک میدان۔ مارے اشتیاق کے گلی کے دوسرے بچوں کے ساتھ بھاگتے بھاگتے ہم بھی پہنچے، کدالیں ہاتھ میں تھامے کچھ لوگ تیزی سے زمین کھود رہے تھے۔ ہم نے سوچا کہ شاید کوئی نیا گھر بنے گا یہاں پر لیکن گھر آکر ہم نے ابا کو کہتے سنا کہ گلی میں خندق کھد رہی ہے۔

’خندق؟ یہ کیا ہوتی ہے؟‘

ہم نے حیرت سے سوچا، پوچھتے پوچھتے رہ گئے کہ امی ابا کے چہروں پر تشویش کے آثار تھے۔

’کیسے جائیں گے خندق تک؟‘، امی نے ابا سے پوچھا۔

سائرن بجے گا اور اس وقت سب گھر چھوڑ کر خندق میں جائیں گے، ابا نے جواب دیا۔

’چھوٹے بچوں کے ساتھ بہت مشکل ہوگی‘، امی نے کہا۔

ابا چپ رہے۔

آنے والے دنوں میں بہت سی اور باتیں رونما ہوئیں جن میں ایک یہ تھی کہ ابا نے بہت سے کالے کاغذ لاکر دیے جو سب نے مل جل کر کھڑکیوں پر چسپاں کردیے۔

پھر سب کو ہدایات ملیں کہ جونہی سائرن کی آواز آئے، بتیاں بجھا دینی ہیں اور خندق کی طرف دوڑ کر جانا ہے۔

اور ہماری یادداشت میں وہ دن رات محفوظ ہیں جب سائرن کی آواز سنتے ہی ہم کسی نہ کسی کی انگلی پکڑے خندق کی طرف دوڑتے تھے۔ فضا میں سائرن کی آواز کے ساتھ فائٹر طیاروں کی آواز بھی شامل ہوتی۔ سائرن کی آواز سن کر اچھل کر بتیاں بجھانا سب بچوں نے سیکھ لیا تھا۔

خندق تک پہنچ کر پہلے بڑے اس میں کودتے پھر بچوں کو پکڑ کر اتارتے اور پھر سب ایک دوسرے کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتے۔ فضا میں اڑتے طیاروں کی آواز کبھی اتنی تیز ہوتی کہ لگتا میدان میں طیارہ اترنے کو ہے اور کبھی دور چلی جاتی۔

ہم تھے تو چھوٹے مگر تب بھی ہمارا ننھا سا ذہن حساب لگانے کی کوشش کرتا کہ کیوں بھئی کیوں؟ کس کی کس سے لڑائی؟ ہوائی جہاز بچوں کے گھروں پر بم گرانے کیوں آتے ہیں؟ دشمن کا کیا مطلب ہے؟ انڈیا اور ہم ایک دوسرے کے دشمن کیوں ہیں؟ کیا جیت کے لیے لوگوں کو مارنا ضروری ہوتا ہے؟ جواب کی تلاش میں ذہن بے چارہ ٹامک ٹوئیاں مارتا رہ جاتا۔

پھر ان دنوں ہی ایک اور بات ہوئی۔ ہمارا گھر سی ایم ایچ کے قریب ہی تھا۔ ایک دن ابا کو باتیں کرتے سنا توعلم ہوا کہ امی کے رشتے کے بھائی جو محاذ جنگ پر تھے، شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے ہیں۔

کس جگہ ہورہی ہے جنگ؟ ہم نے سوچا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ابا دفتر واپسی پر روزانہ اسپتال جاتے اور ماموں کو دیکھ کر گھر آتے جہاں امی بے چینی سے ان کی خیریت پوچھتیں۔ ابھی ان کی حالت خطرے سے باہر نہیں تھی سو ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ امی پریشان ہوکر تیزی سے تسبیح رولنے لگتیں۔

دن گزرتے گئے اور ایک روز امی کو اسپتال جانے کی اجازت مل گئی۔ امی کے ساتھ ہم نہ جاتے، یہ کیسے ممکن تھا۔ امی نے لاکھ کہا کہ بچوں کو اسپتال جانے کی اجازت نہیں مگر ہم کہاں ماننے والے تھے، شاید ہم خود کو بچہ ہی نہیں سمجھتے تھے۔

امی ماموں سے ملیں تو دونوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر ماموں تفصیل سنانے لگے ’بس آپا جی، لگتا تو نہیں تھا کہ بچوں گا، گولیوں کا پورا برسٹ پیٹ میں لگا، ساری آنتیں باہر نکل آئیں، پر میں نے ہمت نہیں ہاری، آنتیں واپس پیٹ میں ڈال کر اوپر کپڑا باندھ لیا، خون نکلتا رہا، بس پھر اتنا یاد ہے کہ کسی نے اٹھا کر ہیلی کاپٹر میں ڈالا تھا‘۔

پھر آنکھ ادھر ہی کھلی، لیکن آپا جی، سمجھ نہیں آئی کہ مجھے ڈھاکہ سے پنڈی لائے کیسے؟

’بھائی، ابھی زندگی تھی تمہاری، تم آپا ثریا کے اکلوتے بیٹے ہو، شکر ہے کہ تم بچ گئے‘، امی نے نم آنکھوں سے کہا۔

وہ دونوں گاؤں کی باتیں شروع کردیتے مگر ہماری سوئی آنتوں پر اٹکی رہ جاتی۔ ہائے کیسی لگتی ہوں گی پیٹ سے باہر نکلی ہوئی آنتیں؟ کیا ماموں کو درد نہیں ہوا ہوگا؟ اف کیسے واپس ڈالی ہوں گی؟ اور اگر نہ ڈالی جاتیں پیٹ میں واپس تو کیا وہ بچ پاتے؟

آنتوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تھے سوائے اس کے کہ پیٹ میں ہوتی ہیں اور ان میں کھانا ہضم ہوتا ہے۔

ماموں کئی مہینے اسپتال میں رہے۔ چلنے پھرنے کے قابل تو ہوگئے مگر مکمل صحت مند ہونے سے پہلے اسپتال سے چھٹی ملنا مشکل تھی۔ ہمارے دونوں بھائیوں کا اسکول سی ایم ایچ کے قریب ہی تھا اور وہ ان سب خفیہ راستوں کی خبر رکھتے تھے جن سے باہر نکلا جاسکتا تھا۔ اکثر شام میں وہ ماموں کو ان راستوں سے نکال کر گھر لاتے اور کچھ دیر بعد واپس چھوڑ آتے۔

ماموں صحت مند ہوکر گاؤں واپس چلے گئے اور فوج سے ریٹائر منٹ مل گئی۔ مگر وہ آج تک یہ کہانی سنانا نہیں بھولتے کہ آپا جی عظمت کے بچے کس قدر کاریگر تھے۔

50 برس گزرنے کے بعد آج فضا میں پھر سے فائٹر طیارے اور ڈرون موجود ہیں۔ فضا سنسنا رہی ہے اور سوال آج بھی بہت سے ہیں مگر جواب کوئی نہیں۔

ہم نہیں سمجھ پائے کہ دونوں ملکوں میں رہنے والے لوگ پیدائش کے وقت تو انسان ہی ہوتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ خون آشام کیوں بن جاتے ہیں؟

کیا کبھی کوئی بتائے گا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سائرن کی آواز پیٹ میں کے ساتھ

پڑھیں:

چور... معیشت کے خاموش محسن؟

جب ہم معیشت کے بارے میں سوچتے ہیں تو دماغ فوراً بینکس، صنعتوں، برآمدات، زراعت اور ٹیکنالوجی کی طرف چلا جاتا ہے۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بغیر کسی بجٹ اور تنخواہ کے پوری معیشت کے کئی شعبوں کو متحرک رکھتا ہے۔ اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ’چور‘ ہیں۔

بظاہر یہ قانون کی نظر میں مجرم ہوتے ہیں، لیکن اگر معیشت کا چشمہ لگا کر دیکھا جائے تو یہ مجرم کم اور ’خاموش محسن‘ زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔

ایک لمحے کےلیے ذرا سوچیے کہ اگر دنیا میں چوری نہ ہوتی تو کیا تالے، تجوریاں، الماریاں، ڈیجیٹل لاکس اور سیفٹی باکسز بنانے والی انڈسٹری وجود رکھتی؟ شاید نہیں۔

یہ پوری کی پوری صنعت دراصل اسی خوف کی پیداوار ہے کہ کہیں کوئی چیز چوری نہ ہوجائے۔ یہی خوف دروازوں پر مضبوط تالے لگواتا تو کھڑکیوں پرآہنی جال چڑھواتا ہےاور اسی خوف کے تحت تجوریوں میں مال و متاع محفوظ کیا جاتا ہے۔ چھوٹے کاریگروں سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیز تک، سب چوروں کی بدولت کماتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو روزگار مہیا کرتے ہیں۔

پھر سیکیورٹی کا شعبہ دیکھ لیجیے۔ ہر گلی محلے میں سیکیورٹی گارڈ کھڑا نظر آتا ہے۔ ہر اسکول، دفتر اور پلازے میں کیمرے نصب ہیں۔ میٹل ڈیٹیکٹر، بایومیٹرک سسٹمز، اور الارم لگانے والی کمپنیز دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں اور ان سب کی بنیاد بھی وہی ہے، ’چور کا خوف!‘۔

اگر چوری کا تصور نہ ہو تو یہ ساری ٹیکنالوجی صرف فلموں میں استعمال ہوتی نظر آئے، یا کسی میوزیم میں پڑی ہو۔

چوروں کا سب سے بڑا ’احسان‘ شاید روزگار کے میدان میں ہے۔ پولیس، وکلا، ججز، عدالتوں کا عملہ، جیل کے ملازمین، تفتیشی ادارے، انٹیلیجنس ایجنسیز ، یہ سب عموماً چوروں کے دم پر کام کرتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں ایف آئی آرز درج ہوتی ہیں، ان کی تفتیش کی جاتی ہے، گواہوں کے بیانات اور ثبوت اکٹھے کیے جاتے ہیں، عدالتیں کیسز سنتی ہیں، فیصلے ہوتے ہیں اوراپیلیں دائر کی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ عموماً ایک واقعے کے بعد شروع ہوتا ہے، اور وہ ہے، چوری!

جب کوئی چور کسی کا موبائل، لیپ ٹاپ، پرس یا گاڑی چرا لیتا ہے تو متاثرہ فرد مجبوری میں نئی چیز خریدتا ہے، یوں مارکیٹ میں نئی خریداری ہوتی ہے۔ دکاندار خوش، کمپنی خوش اورحکومت بھی خوش، کیونکہ اسے سیلز اور انکم ٹیکس دونوں کی مد میں وصولیاں ہو جاتی ہیں اور موبائل ٹریکرز، انشورنس کمپنیز، ریپلیسمنٹ سروسز، سب ایکٹیو ہوجاتی ہیں۔ گویا ایک چوری کئی کاروباروں کو زندہ کر دیتی ہے۔

اور بات صرف یہاں نہیں رُکتی بلکہ اگر چور پکڑا جائے تو جیل جاتا ہے اور جیل کے اندر بھی ایک مکمل نظام چلتا ہے۔ جیلر، وارڈن، کُک، طبی عملہ، اصلاحی پروگرامز چلانے والے، کھانے کی سپلائی اور یونیفارمز وغیرہ، سب کی نوکری چور سے جڑی ہے۔ اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ جیلیں بھی بجٹ کھاتی ہیں اور وہ بجٹ چلتا ہے معیشت سے، یعنی چور صرف جیل سے باہر ہی نہیں بلکہ جیل کےاندر بھی معیشت چلاتے ہیں۔

کچھ چور تو اپنی ’قابلیت‘ کے باعث سیاست میں آ جاتے ہیں اوروہاں آکر وہ چھوٹی موٹی چوریاں چھوڑ کر بڑے پیمانے پر مالیاتی اعدادو شمار سے کھیلتے ہیں۔ منصوبوں کے فنڈز، ٹینڈر، کِکس بیکس اور کمیشن، یہ سب ان کے دائرہ اختیار میں آجاتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چور قانونی کَور کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ اکثر تو خود ہی قانون ساز بن جاتےہیں۔ ان کی چوریاں ملک کے بجٹ کو زیادہ متاثر کرتی ہیں لیکن ان ہی کے فیصلوں سے معیشت کی سمت طے ہوتی ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ تحریر چوری کو جائز قرار دینے کی کوشش نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ چوری ہر دَور، مذہب اور معاشرے میں ایک بڑا جُرم رہی ہے اور اس سے فرد، معاشرہ اور اخلاقی اقدار متاثر ہوتی ہیں لیکن عمومی سچ یہی ہے کہ اگر چور نہ ہوں تو معیشت میں ایک عجیب سا خلا پیدا ہوجائے، کئی صنعتیں بند ہو جائیں، ہزاروں لوگ بے روزگار ہوجائیں اور پولیس اسٹیشنز پر شاید ہُو کا عالم ہو۔ یہ بلاگ صرف ایک طنزیہ تحریر نہیں بلکہ ہم اس میں سچائی کا عکس بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جرم اور معیشت کا تعلق بعض اوقات اتنا گہرا ہوجاتا ہے کہ دونوں کو الگ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

چور اگرچہ قانون کی نظر میں مجرم ہوتا ہے لیکن معیشت کی نظر میں اکثر ایک غیر اعلانیہ اسٹیک ہولڈر بھی ثابت ہوتا ہے۔

تو اگلی بار جب آپ اپنا دروازہ بند کرتے وقت تالا لگائیں یا کیمرے کی ریکارڈنگ چیک کریں تو ایک لمحے کو رکیے گا اور سوچئے گا کہ کہیں نہ کہیں ایک چور نہ چاہتے ہوئے بھی معیشت کا پہیہ گھما رہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • دھرتی جنگ نہیں امن چاہتی ہے
  • قصائی خانے اور افسر خانے
  • ایک انوکھی کہانی
  • آزادی عنوان ہے
  • پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات
  • علیمہ خان کا شیر افضل مروت پر کڑا وار
  • یہ دہشت گردی نہیں ہے
  • چور... معیشت کے خاموش محسن؟
  • شاہ رخ خان کے ایوارڈ پر جاری تنازع، کس بات پر شور مچ رہا ہے؟
  • پاکستان کا عالمی قد کاٹھ