قارئین، جس موضوع پر ہم لکھ رہے تھے اسے موقوف کرتے ہوئے کچھ یادیں تازہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ملک عزیز پر چھائے جنگ کے سائے، غیر یقینی صورتحال اور سرحدوں پر کشیدگی نے یاسیت طاری کر دی ہے شاید۔
ہمارے بچپن کی یادوں میں بہت سی ایسی کہانیاں موجود ہیں جب ہم نے بہت کچھ دیکھا، برتا مگر ننھا سا ذہن سمجھ نہیں پایا کہ ہو کیا رہا ہے؟
1971 کے آخری مہینوں کی بات ہے جب ابا سرشام ہی ریڈیو کے سامنے بیٹھ کر بی بی سی سے خبریں سننے کا انتظار کرتے۔ امی ابا سے بار بار پوچھتیں کہ کیا واقعی جنگ چھڑنے والی ہے؟ ابا کے چہرے پر تذبذب کے آثار ہوتے، جیسے کچھ کہنا بھی چاہتے ہوں اور نہیں بھی۔
انہی دنوں گلی میں کھیلتے کھیلتے انکشاف ہوا کہ گلی کے آخر میں موجود میدان میں کھدائی ہورہی ہے۔ اینٹوں سے بنی پختہ طویل گلی کے آخر میں ایک قبرستان تھا اور قبرستان کے سامنے ایک میدان۔ مارے اشتیاق کے گلی کے دوسرے بچوں کے ساتھ بھاگتے بھاگتے ہم بھی پہنچے، کدالیں ہاتھ میں تھامے کچھ لوگ تیزی سے زمین کھود رہے تھے۔ ہم نے سوچا کہ شاید کوئی نیا گھر بنے گا یہاں پر لیکن گھر آکر ہم نے ابا کو کہتے سنا کہ گلی میں خندق کھد رہی ہے۔
’خندق؟ یہ کیا ہوتی ہے؟‘
ہم نے حیرت سے سوچا، پوچھتے پوچھتے رہ گئے کہ امی ابا کے چہروں پر تشویش کے آثار تھے۔
’کیسے جائیں گے خندق تک؟‘، امی نے ابا سے پوچھا۔
سائرن بجے گا اور اس وقت سب گھر چھوڑ کر خندق میں جائیں گے، ابا نے جواب دیا۔
’چھوٹے بچوں کے ساتھ بہت مشکل ہوگی‘، امی نے کہا۔
ابا چپ رہے۔
آنے والے دنوں میں بہت سی اور باتیں رونما ہوئیں جن میں ایک یہ تھی کہ ابا نے بہت سے کالے کاغذ لاکر دیے جو سب نے مل جل کر کھڑکیوں پر چسپاں کردیے۔
پھر سب کو ہدایات ملیں کہ جونہی سائرن کی آواز آئے، بتیاں بجھا دینی ہیں اور خندق کی طرف دوڑ کر جانا ہے۔
اور ہماری یادداشت میں وہ دن رات محفوظ ہیں جب سائرن کی آواز سنتے ہی ہم کسی نہ کسی کی انگلی پکڑے خندق کی طرف دوڑتے تھے۔ فضا میں سائرن کی آواز کے ساتھ فائٹر طیاروں کی آواز بھی شامل ہوتی۔ سائرن کی آواز سن کر اچھل کر بتیاں بجھانا سب بچوں نے سیکھ لیا تھا۔
خندق تک پہنچ کر پہلے بڑے اس میں کودتے پھر بچوں کو پکڑ کر اتارتے اور پھر سب ایک دوسرے کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتے۔ فضا میں اڑتے طیاروں کی آواز کبھی اتنی تیز ہوتی کہ لگتا میدان میں طیارہ اترنے کو ہے اور کبھی دور چلی جاتی۔
ہم تھے تو چھوٹے مگر تب بھی ہمارا ننھا سا ذہن حساب لگانے کی کوشش کرتا کہ کیوں بھئی کیوں؟ کس کی کس سے لڑائی؟ ہوائی جہاز بچوں کے گھروں پر بم گرانے کیوں آتے ہیں؟ دشمن کا کیا مطلب ہے؟ انڈیا اور ہم ایک دوسرے کے دشمن کیوں ہیں؟ کیا جیت کے لیے لوگوں کو مارنا ضروری ہوتا ہے؟ جواب کی تلاش میں ذہن بے چارہ ٹامک ٹوئیاں مارتا رہ جاتا۔
پھر ان دنوں ہی ایک اور بات ہوئی۔ ہمارا گھر سی ایم ایچ کے قریب ہی تھا۔ ایک دن ابا کو باتیں کرتے سنا توعلم ہوا کہ امی کے رشتے کے بھائی جو محاذ جنگ پر تھے، شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے ہیں۔
کس جگہ ہورہی ہے جنگ؟ ہم نے سوچا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
ابا دفتر واپسی پر روزانہ اسپتال جاتے اور ماموں کو دیکھ کر گھر آتے جہاں امی بے چینی سے ان کی خیریت پوچھتیں۔ ابھی ان کی حالت خطرے سے باہر نہیں تھی سو ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ امی پریشان ہوکر تیزی سے تسبیح رولنے لگتیں۔
دن گزرتے گئے اور ایک روز امی کو اسپتال جانے کی اجازت مل گئی۔ امی کے ساتھ ہم نہ جاتے، یہ کیسے ممکن تھا۔ امی نے لاکھ کہا کہ بچوں کو اسپتال جانے کی اجازت نہیں مگر ہم کہاں ماننے والے تھے، شاید ہم خود کو بچہ ہی نہیں سمجھتے تھے۔
امی ماموں سے ملیں تو دونوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر ماموں تفصیل سنانے لگے ’بس آپا جی، لگتا تو نہیں تھا کہ بچوں گا، گولیوں کا پورا برسٹ پیٹ میں لگا، ساری آنتیں باہر نکل آئیں، پر میں نے ہمت نہیں ہاری، آنتیں واپس پیٹ میں ڈال کر اوپر کپڑا باندھ لیا، خون نکلتا رہا، بس پھر اتنا یاد ہے کہ کسی نے اٹھا کر ہیلی کاپٹر میں ڈالا تھا‘۔
پھر آنکھ ادھر ہی کھلی، لیکن آپا جی، سمجھ نہیں آئی کہ مجھے ڈھاکہ سے پنڈی لائے کیسے؟
’بھائی، ابھی زندگی تھی تمہاری، تم آپا ثریا کے اکلوتے بیٹے ہو، شکر ہے کہ تم بچ گئے‘، امی نے نم آنکھوں سے کہا۔
وہ دونوں گاؤں کی باتیں شروع کردیتے مگر ہماری سوئی آنتوں پر اٹکی رہ جاتی۔ ہائے کیسی لگتی ہوں گی پیٹ سے باہر نکلی ہوئی آنتیں؟ کیا ماموں کو درد نہیں ہوا ہوگا؟ اف کیسے واپس ڈالی ہوں گی؟ اور اگر نہ ڈالی جاتیں پیٹ میں واپس تو کیا وہ بچ پاتے؟
آنتوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تھے سوائے اس کے کہ پیٹ میں ہوتی ہیں اور ان میں کھانا ہضم ہوتا ہے۔
ماموں کئی مہینے اسپتال میں رہے۔ چلنے پھرنے کے قابل تو ہوگئے مگر مکمل صحت مند ہونے سے پہلے اسپتال سے چھٹی ملنا مشکل تھی۔ ہمارے دونوں بھائیوں کا اسکول سی ایم ایچ کے قریب ہی تھا اور وہ ان سب خفیہ راستوں کی خبر رکھتے تھے جن سے باہر نکلا جاسکتا تھا۔ اکثر شام میں وہ ماموں کو ان راستوں سے نکال کر گھر لاتے اور کچھ دیر بعد واپس چھوڑ آتے۔
ماموں صحت مند ہوکر گاؤں واپس چلے گئے اور فوج سے ریٹائر منٹ مل گئی۔ مگر وہ آج تک یہ کہانی سنانا نہیں بھولتے کہ آپا جی عظمت کے بچے کس قدر کاریگر تھے۔
50 برس گزرنے کے بعد آج فضا میں پھر سے فائٹر طیارے اور ڈرون موجود ہیں۔ فضا سنسنا رہی ہے اور سوال آج بھی بہت سے ہیں مگر جواب کوئی نہیں۔
ہم نہیں سمجھ پائے کہ دونوں ملکوں میں رہنے والے لوگ پیدائش کے وقت تو انسان ہی ہوتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ خون آشام کیوں بن جاتے ہیں؟
کیا کبھی کوئی بتائے گا؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سائرن کی آواز پیٹ میں کے ساتھ
پڑھیں:
جب بھی شیر آتا ہے سب کچھ کھا جاتا ہے
سید یوسف رضا گیلانی سرائیکی وسیب کے نفیس طبع سنجیدہ مزاج سیاستدان اور پڑھے لکھے ،ادیب اور ادب شناس انسان ہیں انہوں نے پروقار سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور عزیمت کے رستے کے مسافر رہے ہیں ،انہیں بات کرنے کا ڈھنگ آتا ہے، معاملات سنوارنے میں مہارت رکھتے ہیں جب سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ہمسفر بنے ہیں اشفاق احمد مرحوم کے فلسفہ محبت کے قائل ہیں اسی لئے انہیں پی پی پی کا نا ٹھیک بھی ٹھیک لگتا ہے ۔
صلح جو آدمی ہونے کے باوجود اپنی پارٹی کے موقف کی حمایت سے پیچھے ہٹنے والے ہرگز نہیں ، بھلے وزیراعظم ہائوس کی بجائے جیل کی کال کوٹھڑی میں کیوں نہ رہنا پڑے۔مسلم لیگ ن کے اتحادی ہونے کے ناطے اس کی کلی حمایت سے سینٹ کے چیئرمین بنے مگر ایک جملہ ببانگ دہل کہہ کر اپنی ہی پارٹی اور اس کے چیئرمین کے موقف پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ ’’شیر جب بھی آتا ہے سب کچھ کھاجاتا ہے‘‘۔
اب اگر غالب جیسے ارفع شاعر کی طرف سے مومن کے ایک شعر(تم مرے پاس ہوتے ہو،جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا) کے بدلے اپنی ساری شاعری اسے ودیعت کرنے کی پیشکش کی طرح کوئی اعلیٰ ظرف و کشادہ دل سینئر سیاستدان یہ پکار اٹھے کہ’’میں اپنی ساری سیاست کاری سید گیلانی کے ایک ہی جملے پر وارنے کو تیار ہوں ‘‘ تو پھر بھی اس فقرے کی معنویت کی خلعت نہیں پہنا سکے گا ۔یہ مسلم لیگ ن کی بے رحم سیاست کی تاریخ کے بھدے شکم کو کند خنجر کی انی سے چاک کرکے رکھ دینے کے مترادف ہے ۔
1986 ء سے اس دور بے اماں کی پوری داستان اس ایک جملے میں بیان کردی گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پی پی پی نے بھی اپنے اقتدار کے سب زمانوں میں آمریت کے لگائے زخموں کی قیمت عام آدمی سے وصول کی،مگر اس نے حساب چکانے میں وہ ات نہیں اٹھائی جو آج کل پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مچائی جارہی ہے ۔ پنجاب کی رانی ایک ہی راگ الاپ رہی ہے کہ انہوں نے مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کردیا ہے ،آٹا سستا،چینی اور چاول سستے اور ارزاں مگر کسان کی بجلی مہنگی، کھاد مہنگی اور نہری پانی تک گراں ،کیا ڈالا ہے اس دہقان کے کشکول میں یہ کہ وہ اپنی فصل سڑک کنارے رکھ کر سستے داموں بیچے گا! اس کا نام ہے کسان کی خوشحالی؟
کسان رو رہا اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں ،یہ ملک اس لئے بنایا گیا تھا کہ زرداروں اور صنعت کاروں کی چراہ گاہ رہے ،اس میں اہل ہوس شاد آباد رہیں اور وہ جو رات دن اس کی مٹی کو اپنے لہو سے سینچ رہے ہیں وہ نالہ سرا رہیں ۔صحافت کے بے تاج بادشاہ شورش کاشمیری نے فرمایا تھا ’’ہمیں سورج کی نا قابل تسخیر کرنوں ،ہوائوں کی بے قید لہروں اور چاند کی خنک چاندنی سے بھی زیادہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ دنیا صرف امیروں کی جولاں گاہ نہیں اس میں غریبوں کا بھی حصہ ہے‘‘۔
ایک صدی ہونے کو ہے اور یہ ایک خواب ہے جس کی راہ کے کانٹے نان جویں کو ترسنے والے چن رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیںریزہ ریزہ ہے بدن ،انگلیاں زخمی زخمی ہم بکھرتے تو کوئی شخص تو چنتا ہوتامگر پون صدی بیت گئی ابھی تک ’’احتساب کا ہاتھ انصاف کے گریبان تک نہیں پہنچا‘‘ شکستہ حالوں کا پرسان حال کوئی نہیں ۔ہم بھی کیا مجبور محض قوم ہیں کہ’’عقلوں کے طاعون اور طبیعتوں کے کوڑھ کو سینے سے لگائے جی رہے ہیں‘‘ کوئی ایسا نہیں جو طبل جنگ پر کاری ضرب لگائے اور سوئے ہوئے جاگ جائیں جنہیں اپنے حقوق کی خبر نہیں بس فرائض کی چکی پیستے پیستے عمریں بیت رہی ہیں۔متاع ایسی کوئی نہیں جو چھین نہ لی گئی ہو اور سزا ایسی کوئی نہیں جو ان کے نصیب کا حصہ نہ بنی ہو ۔
خانوادہ گیلانی کے تاجور نے ’’چاہ یوسف‘‘ سے صدائے حق تو بلند کی ہے مگر لوہا ڈھالنے والوں کی سماعتوں تک یہ صدا کیسے پہنچ سکتی ہے کہ وہ تو آگ اگلتی بھٹیوں کے دہانے کھڑے شہر کے مزدوروں سے ان کے تن کی قیمت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ان میں سے شاید کوئی اس جملے کو تفن طبع کے لئے قا بل اعتنا سمجھ لے، مگر نہروں کا مسئلہ ہو یا سندھ کے دیگر مسائل، کیونکر درخور اعتنا گردانے جائیں گے کہ ن لیگ نے جتنے سیاسی اتحاد بنائے وہ سب کوئلوں کی دلالی کی مثل رہے ، انہیں کامیاب بنانے کا سہرا شریف خاندان نے کبھی اپنے سر نہیں باندھا دوسرے ہی اس سہرے کی لاج کے لئے قربانیاں دیتے رہے ہیں ،پھر ن لیگ اور پی پی پی کا اتحاد تو ویسے ہی غیر فطری اور غیر نظریاتی ہے ۔یہ مفادات کی کھلی سودے بازی ہے اور اس بازی میں پہلی بار پی پی پی شایدبازی لے جائے کہ یہ دونوں جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ کون کیسے جیتا ۔
بہرحال بات چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا کے بیان سے چلی تھی جنہیں خود یہ علم ہے کہ ان کے گھر کے سب افراد فارم 47کے مرہون منت ہیں جویہ بھی ہیں ،جو وہ بھی ہیں ۔