WE News:
2025-09-24@04:29:14 GMT

سائرن، خندق، جنگ اور بچے!

اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT

قارئین، جس موضوع پر ہم لکھ رہے تھے اسے موقوف کرتے ہوئے کچھ یادیں تازہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ملک عزیز پر چھائے جنگ کے سائے، غیر یقینی صورتحال اور سرحدوں پر کشیدگی نے یاسیت طاری کر دی ہے شاید۔

ہمارے بچپن کی یادوں میں بہت سی ایسی کہانیاں موجود ہیں جب ہم نے بہت کچھ دیکھا، برتا مگر ننھا سا ذہن سمجھ نہیں پایا کہ ہو کیا رہا ہے؟

1971 کے آخری مہینوں کی بات ہے جب ابا سرشام ہی ریڈیو کے سامنے بیٹھ کر بی بی سی سے خبریں سننے کا انتظار کرتے۔ امی ابا سے بار بار پوچھتیں کہ کیا واقعی جنگ چھڑنے والی ہے؟ ابا کے چہرے پر تذبذب کے آثار ہوتے، جیسے کچھ کہنا بھی چاہتے ہوں اور نہیں بھی۔

انہی دنوں گلی میں کھیلتے کھیلتے انکشاف ہوا کہ گلی کے آخر میں موجود میدان میں کھدائی ہورہی ہے۔ اینٹوں سے بنی پختہ طویل گلی کے آخر میں ایک قبرستان تھا اور قبرستان کے سامنے ایک میدان۔ مارے اشتیاق کے گلی کے دوسرے بچوں کے ساتھ بھاگتے بھاگتے ہم بھی پہنچے، کدالیں ہاتھ میں تھامے کچھ لوگ تیزی سے زمین کھود رہے تھے۔ ہم نے سوچا کہ شاید کوئی نیا گھر بنے گا یہاں پر لیکن گھر آکر ہم نے ابا کو کہتے سنا کہ گلی میں خندق کھد رہی ہے۔

’خندق؟ یہ کیا ہوتی ہے؟‘

ہم نے حیرت سے سوچا، پوچھتے پوچھتے رہ گئے کہ امی ابا کے چہروں پر تشویش کے آثار تھے۔

’کیسے جائیں گے خندق تک؟‘، امی نے ابا سے پوچھا۔

سائرن بجے گا اور اس وقت سب گھر چھوڑ کر خندق میں جائیں گے، ابا نے جواب دیا۔

’چھوٹے بچوں کے ساتھ بہت مشکل ہوگی‘، امی نے کہا۔

ابا چپ رہے۔

آنے والے دنوں میں بہت سی اور باتیں رونما ہوئیں جن میں ایک یہ تھی کہ ابا نے بہت سے کالے کاغذ لاکر دیے جو سب نے مل جل کر کھڑکیوں پر چسپاں کردیے۔

پھر سب کو ہدایات ملیں کہ جونہی سائرن کی آواز آئے، بتیاں بجھا دینی ہیں اور خندق کی طرف دوڑ کر جانا ہے۔

اور ہماری یادداشت میں وہ دن رات محفوظ ہیں جب سائرن کی آواز سنتے ہی ہم کسی نہ کسی کی انگلی پکڑے خندق کی طرف دوڑتے تھے۔ فضا میں سائرن کی آواز کے ساتھ فائٹر طیاروں کی آواز بھی شامل ہوتی۔ سائرن کی آواز سن کر اچھل کر بتیاں بجھانا سب بچوں نے سیکھ لیا تھا۔

خندق تک پہنچ کر پہلے بڑے اس میں کودتے پھر بچوں کو پکڑ کر اتارتے اور پھر سب ایک دوسرے کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتے۔ فضا میں اڑتے طیاروں کی آواز کبھی اتنی تیز ہوتی کہ لگتا میدان میں طیارہ اترنے کو ہے اور کبھی دور چلی جاتی۔

ہم تھے تو چھوٹے مگر تب بھی ہمارا ننھا سا ذہن حساب لگانے کی کوشش کرتا کہ کیوں بھئی کیوں؟ کس کی کس سے لڑائی؟ ہوائی جہاز بچوں کے گھروں پر بم گرانے کیوں آتے ہیں؟ دشمن کا کیا مطلب ہے؟ انڈیا اور ہم ایک دوسرے کے دشمن کیوں ہیں؟ کیا جیت کے لیے لوگوں کو مارنا ضروری ہوتا ہے؟ جواب کی تلاش میں ذہن بے چارہ ٹامک ٹوئیاں مارتا رہ جاتا۔

پھر ان دنوں ہی ایک اور بات ہوئی۔ ہمارا گھر سی ایم ایچ کے قریب ہی تھا۔ ایک دن ابا کو باتیں کرتے سنا توعلم ہوا کہ امی کے رشتے کے بھائی جو محاذ جنگ پر تھے، شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے ہیں۔

کس جگہ ہورہی ہے جنگ؟ ہم نے سوچا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ابا دفتر واپسی پر روزانہ اسپتال جاتے اور ماموں کو دیکھ کر گھر آتے جہاں امی بے چینی سے ان کی خیریت پوچھتیں۔ ابھی ان کی حالت خطرے سے باہر نہیں تھی سو ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ امی پریشان ہوکر تیزی سے تسبیح رولنے لگتیں۔

دن گزرتے گئے اور ایک روز امی کو اسپتال جانے کی اجازت مل گئی۔ امی کے ساتھ ہم نہ جاتے، یہ کیسے ممکن تھا۔ امی نے لاکھ کہا کہ بچوں کو اسپتال جانے کی اجازت نہیں مگر ہم کہاں ماننے والے تھے، شاید ہم خود کو بچہ ہی نہیں سمجھتے تھے۔

امی ماموں سے ملیں تو دونوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر ماموں تفصیل سنانے لگے ’بس آپا جی، لگتا تو نہیں تھا کہ بچوں گا، گولیوں کا پورا برسٹ پیٹ میں لگا، ساری آنتیں باہر نکل آئیں، پر میں نے ہمت نہیں ہاری، آنتیں واپس پیٹ میں ڈال کر اوپر کپڑا باندھ لیا، خون نکلتا رہا، بس پھر اتنا یاد ہے کہ کسی نے اٹھا کر ہیلی کاپٹر میں ڈالا تھا‘۔

پھر آنکھ ادھر ہی کھلی، لیکن آپا جی، سمجھ نہیں آئی کہ مجھے ڈھاکہ سے پنڈی لائے کیسے؟

’بھائی، ابھی زندگی تھی تمہاری، تم آپا ثریا کے اکلوتے بیٹے ہو، شکر ہے کہ تم بچ گئے‘، امی نے نم آنکھوں سے کہا۔

وہ دونوں گاؤں کی باتیں شروع کردیتے مگر ہماری سوئی آنتوں پر اٹکی رہ جاتی۔ ہائے کیسی لگتی ہوں گی پیٹ سے باہر نکلی ہوئی آنتیں؟ کیا ماموں کو درد نہیں ہوا ہوگا؟ اف کیسے واپس ڈالی ہوں گی؟ اور اگر نہ ڈالی جاتیں پیٹ میں واپس تو کیا وہ بچ پاتے؟

آنتوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تھے سوائے اس کے کہ پیٹ میں ہوتی ہیں اور ان میں کھانا ہضم ہوتا ہے۔

ماموں کئی مہینے اسپتال میں رہے۔ چلنے پھرنے کے قابل تو ہوگئے مگر مکمل صحت مند ہونے سے پہلے اسپتال سے چھٹی ملنا مشکل تھی۔ ہمارے دونوں بھائیوں کا اسکول سی ایم ایچ کے قریب ہی تھا اور وہ ان سب خفیہ راستوں کی خبر رکھتے تھے جن سے باہر نکلا جاسکتا تھا۔ اکثر شام میں وہ ماموں کو ان راستوں سے نکال کر گھر لاتے اور کچھ دیر بعد واپس چھوڑ آتے۔

ماموں صحت مند ہوکر گاؤں واپس چلے گئے اور فوج سے ریٹائر منٹ مل گئی۔ مگر وہ آج تک یہ کہانی سنانا نہیں بھولتے کہ آپا جی عظمت کے بچے کس قدر کاریگر تھے۔

50 برس گزرنے کے بعد آج فضا میں پھر سے فائٹر طیارے اور ڈرون موجود ہیں۔ فضا سنسنا رہی ہے اور سوال آج بھی بہت سے ہیں مگر جواب کوئی نہیں۔

ہم نہیں سمجھ پائے کہ دونوں ملکوں میں رہنے والے لوگ پیدائش کے وقت تو انسان ہی ہوتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ خون آشام کیوں بن جاتے ہیں؟

کیا کبھی کوئی بتائے گا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سائرن کی آواز پیٹ میں کے ساتھ

پڑھیں:

جرثوموں سے جینوم تک

یورپ کی تاریخ میں چھٹی صدی ایک ایسا باب ہے جس پر خون کے دھبے اور کرب کی گہری لکیریں کھنچی ہوئی ہیں۔ بازنطینی سلطنت کے تخت پر شہنشاہ جسٹینین اوّل بیٹھا تھا، جسے اپنے قوانین، عظیم تعمیراتی منصوبوں اور سیاسی بصیرت کے باعث ’’عظیم جسٹینیں‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن اسی کے دور میں ایک ایسا ناگہانی حملہ ہوا جس نے سلطنت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اور انسانیت کی اجتماعی یادداشت پر ایک ان مٹ داغ چھوڑ دیا۔ یہ حملہ کسی دشمن فوج کا نہیں بلکہ ایک چھوٹے سے جرثومے کا تھا، جس نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔ یہ وہی طاعون ہے جسے بعد میں ’’جسٹینینک پلیگ‘‘ کہا گیا۔

جدید سائنسی تحقیق نے گذشتہ برسوں میں انسانی ہڈیوں اور دانتوں سے ڈی این اے نکال کر یہ ثابت کیا کہ اس وقت کی وبا کا اصل سبب یَرسینیا پیسٹس نامی بیکٹیریا تھا۔ یہی وہ مائیکروب ہے جس نے بعد میں چودھویں صدی میں ’’سیاہ موت‘‘ کی شکل میں یورپ کی آدھی آبادی کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ چھٹی صدی کا طاعون بھی اسی کی ایک قریبی شکل تھا، جسے اب جراثیمیات اور جینومکس کی روشنی میں بہتر طور پر سمجھا جا رہا ہے۔

جب ہم پرانی انسانی ہڈیوں کے دانتوں سے ڈی این اے نکال کر خردبینی اور جینیاتی مطالعہ کرتے ہیں، تو یہ ہمیں محض بیکٹیریا کا پتا نہیں دیتے بلکہ پورے ایک عہد کی جھلک دکھاتے ہیں۔ اس طاعون کی ابتدا مصر سے بتائی جاتی ہے جہاں اناج کے جہاز بحیرۂ روم کے راستے قسطنطنیہ لائے جاتے تھے۔ انہی جہازوں میں موجود چوہے اور ان پر پلنے والے پسو اس مرض کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنے۔ یوں سلطنت کے قلب میں موت نے اپنا خیمہ گاڑ دیا۔ تاریخ داں پروکوپیئس لکھتا ہے کہ لاشیں اتنی زیادہ ہوگئیں کہ قبرستان ناکافی ہوگئے اور لاشوں کو سمندر میں پھینکنا پڑا۔ شہروں کی گلیاں سنسان ہو گئیں، کاروبار بند ہوگیا اور لوگوں کے دلوں میں یہ یقین بیٹھ گیا کہ یہ خدا کا قہر ہے۔

قدیم دنیا میں طاعون کو ایک مذہبی یا ماورائی عذاب سمجھا جاتا تھا۔ بازنطینی مذہبی حلقے اسے انسانوں کے گناہوں کی سزا قرار دیتے تھے۔ چرچ میں دعاؤں، جلوسوں اور قربانیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن بیکٹیریا کو ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ انسانی خون میں اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے تھا۔ جدید تحقیق یہ بتاتی ہے کہ محض قسطنطنیہ میں ہی اس وبا کے دوران روزانہ دس ہزار کے قریب لوگ مرجاتے تھے۔ اندازہ ہے کہ اس کے نتیجے میں سلطنت کی ایک تہائی سے نصف آبادی لقمۂ اجل بنی۔

یہ صرف انسانی سانحہ نہیں تھا بلکہ سیاسی اور معاشی زلزلہ بھی تھا۔ سلطنتِ روم مشرقی سرحدوں پر فارسیوں کے ساتھ جنگوں میں مصروف تھی۔ لیکن فوج کی بڑی تعداد وبا سے مر گئی، ٹیکس وصولی کا نظام ٹوٹ گیا اور معیشت بکھر گئی۔ جسٹینین جس سلطنت کو دوبارہ متحد کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا، وہ خواب بھی طاعون کی مار سے بکھر گئے۔ بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ اگر یہ طاعون نہ آتا تو شاید بازنطینی سلطنت مغرب میں بھی اپنی کھوئی ہوئی زمینیں واپس لے کر ایک نئی رومن امپائر کھڑا کرلیتی۔

اب ذرا اس کا تقابل سیاہ موت سے کریں جو آٹھ سو برس بعد آئی۔ وہ بھی اسی بیکٹیریا کا تحفہ تھی اور یورپ میں ساٹھ ملین انسانوں کو نگل گئی۔ لیکن جسٹینینک طاعون کو اکثر لوگ بھول جاتے ہیں، حالاںکہ اس کی تباہ کاری کم نہ تھی۔ جدید سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ دونوں وبائیں ایک ہی جرثومے کی مختلف شکلیں تھیں، لیکن وقت اور حالات کے فرق نے ان کے اثرات کو مختلف کردیا۔

آج جب ہم کووِڈ–19 جیسی وباؤں کا سامنا کرتے ہیں، تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وبائیں محض طبی مسئلہ نہیں بلکہ تہذیبی اور معاشی بحران بھی ہوتی ہیں۔ اگرچہ آج کے انسان کے پاس ویکسین، اینٹی بایوٹکس اور جدید سائنس ہے، لیکن پھر بھی ایک وائرس نے پوری دنیا کو دو سال تک جامد کر کے رکھ دیا۔ ذرا سوچیے، اس وقت کے انسانوں کے پاس یہ سب سہولتیں کہاں تھیں؟ ان کے لیے بیماری ایک ماورائی خوف سے بڑھ کر کچھ نہ تھی۔

یہی وجہ ہے کہ جسٹینینک طاعون نہ صرف ایک وبا تھی بلکہ انسانی شعور کی آزمائش بھی تھی۔ اس نے یہ سکھایا کہ چھوٹے سے جرثومے کے آگے عظیم ترین سلطنتیں بھی بے بس ہیں۔ فلسفیانہ سطح پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ تاریخ کا دھارا بعض اوقات بیماریوں کے باعث پلٹ جاتا ہے۔ اگر یہ طاعون نہ آتا تو شاید اسلام کا عروج، یورپ کی نشاۃ ثانیہ، یا بعد کے سیاسی نقشے مختلف ہوتے، کیوںکہ سلطنتوں کے کم زور ہونے سے نئی طاقتوں کو ابھرنے کا موقع ملا۔

جراثیمیات کی حالیہ دریافتوں نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم محض اندازوں پر نہیں بلکہ شواہد کی بنیاد پر بات کریں۔ جب کسی قبر سے نکالے گئے دانت سے ڈی این اے کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ وہاں واقعی یَرسینیا پیسٹس موجود تھا تو یہ گویا وقت کی قید کو توڑ کر ہمیں اس دور میں لے جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہڈیاں بولتی نہیں، لیکن ان کے اندر محفوظ جینیاتی کوڈ ہمیں وہ کہانی سنا دیتا ہے جو کتابوں میں نہیں ملتی۔

اس سب کے باوجود، انسانی تاریخ میں وبائیں صرف موت کی علامت نہیں بلکہ نئی زندگی کی بنیاد بھی رہی ہیں۔ سیاہ موت کے بعد یورپ میں مزدوروں کی قلت نے جاگیرداری نظام کو ہلا دیا، شہروں کی اہمیت بڑھی، اور بالآخر جدید معیشت کی طرف سفر شروع ہوا۔ اسی طرح جسٹینینک طاعون کے بعد بازنطینی سلطنت کی کم زوری نے نئے سیاسی و مذہبی دھاروں کو جنم دیا۔ یوں تاریخ کے یہ اندھیرے لمحے دراصل نئی صبحوں کی تیاری بھی ثابت ہوئے۔

آج کا انسان اگرچہ سائنس میں بہت آگے ہے لیکن پھر بھی کم زور ہے۔ کرونا نے ہمیں یاد دلایا کہ ایک نادیدہ جرثومہ عالمی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں جسٹینینک طاعون کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ انسانی غرور، عظیم عمارتیں اور طاقتور سلطنتیں سب عارضی ہیں۔ اصل طاقت فطرت کے اس نظام میں ہے جو بار بار ہمیں عاجزی سکھاتا ہے۔

اسی عاجزی میں شاید بقا کا راز ہے، کیوںکہ جب ہم اپنی کم زوری کو مان کر سائنس اور شعور کی روشنی میں آگے بڑھتے ہیں تو نئی راہیں کھلتی ہیں۔ اور اگر ہم اسے نظرانداز کریں تو تاریخ ایک بار پھر ہمیں اپنے سخت ترین امتحان میں ڈال دیتی ہے۔

اگرچہ انسانی تاریخ میں وبائیں ہمیشہ سے خوف اور تحفظ کے درمیان جھولتی رہی ہیں۔ کبھی طاعون، کبھی چیچک اور کبھی انفلوئنزا نے لاکھوں زندگیاں نگل لیں، مگر جدید سائنس نے ایک ہتھیار فراہم کیا جس نے بیماریوں کے خلاف انسان کو مضبوط کیا۔ یہ ہتھیار ہے ویکسین۔ جب دنیا پر کووِڈ 19 کی وبا ٹوٹ پڑی تو ابتدائی دنوں میں خوف کی لہر نے ہر دل کو گھیر لیا۔ لاکھوں اموات اور صحت کے بگڑتے ہوئے عالمی نظام کے بعد ایک ہی امید باقی تھی کہ کوئی مؤثر ویکسین دریافت ہو۔ خوش قسمتی سے سائنس دانوں نے محض ایک سال کے اندر وہ کر دکھایا جو پہلے دہائیوں میں ہوتا تھا۔ ویکسین کی تیاری ایک بڑی سائنسی کام یابی تھی، مگر ساتھ ہی دنیا بھر میں ایک سوال گونجنے لگا: کیا یہ ویکسین واقعی محفوظ ہے؟ اور کیا یہ بات درست ہے کہ ویکسین لگوانے والے افراد جلد مرجائیں گے؟

یہ سوال صرف عام لوگوں تک محدود نہیں رہا بلکہ سوشل میڈیا، یوٹیوب چینلز اور حتیٰ کہ بعض نام نہاد ماہرین نے بھی اس پر شکوک و شبہات پھیلائے۔ یہ تاثر دیا گیا کہ کووِڈ ویکسین انسانی جینز کو بدل دے گی، یا چند سال میں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دے گی، لیکن کیا حقیقت واقعی یہی ہے؟ اس سوال کا جواب صرف سائنسی اعدادوشمار اور معتبر اداروں کی تحقیق سے ہی دیا جا سکتا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق اب تک دنیا میں ویکسین کی اربوں خوراکیں دی جاچکی ہیں، اگر یہ دعویٰ درست ہوتا کہ ویکسین لگوانے والے جلد مرجاتے ہیں تو اربوں انسانوں میں غیرمعمولی اموات کے واقعات صاف دکھائی دیتے۔ حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ ویکسین کے بعد کئی ملکوں میں اموات کی شرح کم ہوئی اور اسپتالوں میں داخلے گھٹ گئے۔ برطانیہ کے سرکاری ادارے Office for National Statistics نے دو سال کے اعدادوشمار شائع کیے جن کے مطابق ویکسین لگوانے والے افراد میں کووِڈ سے مرنے کا امکان بہت کم رہا، جب کہ نان کووِڈ وجوہات سے اموات کی شرح بھی ویکسین لگوانے والوں میں زیادہ نہیں پائی گئی۔ بعض صورتوں میں یہ شرح کم نکلی، جسے ماہرین healthy vaccinee effect کہتے ہیں یعنی عام طور پر صحت مند لوگ زیادہ شرح سے ویکسین لگواتے ہیں، اس لیے ان کی بقا بھی زیادہ ہوتی ہے۔

امریکا میں CDC اور اس کے تحت Vaccine Safety Datalink جیسے بڑے سیفٹی پروگرامز نے لاکھوں مریضوں کے اعدادوشمار پر مسلسل نگرانی کی۔ وہاں بھی یہی ثابت ہوا کہ ویکسین کے بعد all-cause mortality یعنی مجموعی اموات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ البتہ چند نایاب اثرات کی نشان دہی ضرور کی گئی جن میں خاص طور پر مایوکارڈائٹس (دل کی جھلی کی سوزش) اور بلڈ کلاٹ کے چند کیسز شامل ہیں، مگر ان کی شرح اتنی کم تھی کہ لاکھوں افراد میں بہ مشکل چند افراد متاثر ہوئے۔

اسرائیل میں Clalit Health Services نے 17 لاکھ افراد پر ایک وسیع مطالعہ کیا جس کے نتائجNew England Journal of Medicine میں شائع ہوئے۔ اس تحقیق نے واضح کیا کہ اگرچہ ویکسین کے بعد نوجوان مردوں میں مایوکارڈائٹس کے کیسز کچھ زیادہ دیکھے گئے، لیکن یہ زیادہ تر ہلکے تھے اور علاج کے بعد مریض صحت یاب ہوگئے۔ دوسری طرف خود کووِڈ انفیکشن سے مایوکارڈائٹس اور دیگر پیچیدگیوں کا خطرہ کہیں زیادہ تھا۔ گویا ویکسین کا خطرہ انفیکشن کے خطرے کے مقابلے میں نہایت کم تھا۔

اسی طرح ناروے، ڈنمارک، سویڈن اور فن لینڈ میں 2 کروڑ 30 لاکھ افراد پر مبنی تحقیق نے بھی یہی نتیجہ دیا۔ JAMA Cardiology میں شائع ہونے والی اس رپورٹ نے بتایا کہ نوجوان مردوں میں mRNA ویکسین کے بعد فی 100,000 افراد میں 4 سے 7 کیسز مایوکارڈائٹس کے سامنے آئے۔ یہ تناسب سائنسی زبان میں ’’انتہائی کم‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان میں زیادہ تر مریض مکمل صحت یاب ہوگئے۔

برطانوی طبی جریدے BMJ نے بھی ڈنمارک کے اعداد و شمار پر مبنی تحقیق شائع کی جس میں یہی بات سامنے آئی کہ ویکسین کے بعد مایوکارڈائٹس کا امکان کچھ بڑھتا ہے مگر مجموعی طور پر یہ شرح انتہائی محدود ہے۔ درحقیقت کووِڈ انفیکشن کے بعد دل کے مسائل کا خطرہ کئی گنا زیادہ تھا۔ اسی طرح NEJM میں انگلینڈ کے ڈیٹا پر شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ویکسین لگوانے والوں میں کووِڈ سے اموات کا خطرہ 90 فی صد تک کم ہوا، جب کہ بوسٹر ڈوز کے بعد یہ تحفظ اور بھی بڑھ گیا۔

ان تمام رپورٹس کو دیکھتے ہوئے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ویکسین نے انسانی جانیں بچائیں اور جلد موت کا باعث نہیں بنی۔ اگر یہ ویکسین نقصان دہ ہوتیں تو دنیا بھر کے سیفٹی سسٹمز فوراً الرٹ جاری کرتے اور ان کا استعمال روک دیا جاتا، جیسا کہ ماضی میں کئی ادویات اور ویکسینز کے ساتھ ہو چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ویکسینز کے فوائد نے نقصانات کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔

یہاں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ افواہیں کیوں پھیلتی ہیں؟ وبا کے ابتدائی دنوں میں خوف اور غیریقینی ماحول نے لوگوں کو ہر بات پر شک کرنے پر مجبور کیا۔ سوشل میڈیا نے ان افواہوں کو تیزی سے پھیلایا۔ بعض حلقوں نے اس سے مالی فائدہ اٹھایا، بعض نے اپنی سیاسی یا نظریاتی مہم چلائی، مگر سائنس حقائق پر کھڑی ہے، اور حقائق یہی بتاتے ہیں کہ ویکسین کے بعد اربوں لوگ آج بھی عام زندگی گزار رہے ہیں۔

ہاں، اس میں شک نہیں کہ ویکسین کے نایاب مضر اثرات ہیں، جیسے ہر دوا اور ہر علاج کے ہوتے ہیں، مگر طبی دنیا ہمیشہ ’’خطرے اور فائدے‘‘ کا موازنہ کرتی ہے۔ جب لاکھوں زندگیاں بچانے کا فائدہ چند نایاب کیسز کے خطرے سے کہیں زیادہ ہو تو فی صلہ بالکل واضح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت، CDC، EMA، اور دیگر اداروں نے بارہا کہا کہ ویکسین کے فوائد نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔

اب ذرا اس معاملے کا ایک اور پہلو دیکھتے ہیںExcess Mortality یعنی اضافی اموات۔ بعض لوگوں نے کہا کہ 2021 اور 2022 میں کئی ممالک میں اضافی اموات ہوئیں، اس کا سبب ویکسین ہیں۔ لیکن تحقیقی رپورٹس نے بتایا کہ یہ اضافی اموات وبا کی لہروں، اسپتالوں کے دباؤ، غیرکووِڈ امراض کے علاج میں تاخیر اور دیگر سماجی و طبی مسائل کے باعث تھیں۔ اس کا ویکسین سے کوئی براہِ راست تعلق ثابت نہیں ہوا۔

مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ کووِڈ ویکسینز پر اٹھنے والے اعتراضات اور ’’جلد موت‘‘ کے دعوے سائنسی بنیادوں سے محروم ہیں۔ اربوں افراد میں ان کے استعمال کے بعد اگر واقعی یہ بات درست ہوتی تو اس کے اثرات دنیا کو چھپائے نہیں چھپ سکتے تھے۔ ویکسین نے لاکھوں افراد کی زندگیاں بچائیں اور صحت کے نظام کو سہارا دیا۔ اس کے باوجود ہمیں چاہیے کہ ہم ان نایاب مضر اثرات کی سائنسی نگرانی جاری رکھیں تاکہ مستقبل میں مزید بہتر اور محفوظ ویکسینز تیار ہو سکیں۔

آخر میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ صحت اور بیماری کے فیصلے افواہوں اور سازشی نظریات پر نہیں بلکہ تحقیق اور سائنس پر ہونے چاہییں۔ کووِڈ ویکسین نے ثابت کیا ہے کہ سائنس انسانیت کی خدمت میں کتنی اہم ہے۔ یہ کہنا کہ ویکسین لگوانے والے جلد مرجائیں گے، محض ایک خوف ناک افواہ ہے جسے وقت اور تحقیق دونوں نے رد کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنہوں نے ویکسین لگوائی، ان کے زندہ رہنے اور صحت مند رہنے کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مقدّر کا سکندر
  • نئے محکمے کی ضرورت
  • مریم نواز بہت بدل گئی ہیں
  • مایوسیوں کے بادل چھٹ رہے ہیں
  • جیولرز کے گرد ایف بی آر نےشکنجہ کس لیا
  • چوکیدار  
  • پیاسی بچی
  • کوچۂ سخن
  • بُک شیلف
  • جرثوموں سے جینوم تک