اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کے تمام اسپتالوں میں ہائی الرٹ
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان میمن نے کہا ہے کہ شہر کے 19 اسپتالوں میں 2 ہزار 389 اضافی بیڈز مختض کر دیے گئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان میمن نے بتایا ہے کہ اسپتالوں میں ادویات، خون اور آکسیجن سپلائی کےلیے بھی اقدامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شہریوں کےلیے 46 شیلٹر ہاؤسز بھی قائم کردیے گئے
عرفان میمن نے کہا کہ سول ڈیفینس کے 446 والنٹیرز بھی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے، جبکہ شہر بھر کی 48 بلند عمارات پر ایمرجنسی سائرن نصب کر دیے گئے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
کیا ممکن ہے کوئی افسر سندھ میں ترقی نہ لے سکے‘ اسلام آباد کر مل جائے: جسٹس محسن
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے آٹھ سینئر افسروں کو نظرانداز کر کے ایک افسر کی غیر معمولی ترقی اور لیبر افسر کے عہدے پر تعیناتی کے خلاف کیس میں چیف کمشنر اسلام آباد سے وضاحت طلب کر لی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ چیف کمشنر صاحب کو لگتا ہے چیئرمین سی ڈی اے کی کرسی زیادہ پسند ہے۔ چیف کمشنر ایک دن چیئرمین سی ڈی اے کی سیٹ چھوڑ کر اپنی کرسی پر بیٹھیں اور دیکھیں کہ ان کے نیچے کیا ہو رہا ہے، پوسٹیں خالی کیوں پڑی ہیں؟ اسلام آباد میں لیبر انسپکٹرز کی چار پوسٹیں تاحال خالی ہیں اور لوگ نوکریوں کو ترس رہے ہیں مگر تعیناتیاں نہیں کی جاتیں۔ انہوں نے ریمارکس دئیے کہ یہ معاملہ پٹواریوں کی طرح ہے جہاں تعیناتی کی بجائے منشی رکھ لیے جاتے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ افسر اتنا زبردست ہے کہ ہائی کورٹ کی رٹ خارج ہونے کے بعد آٹھ سینئرز کو سپر سیڈ کر کے اسے پروموٹ کیا گیا، کیڈر بدلا گیا اور پھر لیبر انسپکٹر تعینات کر دیا گیا۔ اگر یہ اتنا ہی قابل افسر تھا تو اسے سیدھا ڈپٹی کمشنر لگا دیتے۔ کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی افسر سندھ میں ترقی نہ لے سکے مگر اسلام آباد آ کر اسے پروموشن مل جائے کیونکہ یہاں گنجائش موجود ہے؟ بعض اوقات لا افسروں اور اسٹیٹ کونسل کے لیے بھی غلط کام کا دفاع مشکل ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں جسٹس محسن اختر کیانی نے کمپنی رجسٹرڈ کرنے سے متعلق ایس ای سی پی کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے التوا مانگنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ افسوس ہوتا ہے جب کوئی وکیل آ کر صرف تاریخ مانگ لیتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ نہ وکیل اور نہ ہی ججز کام کیوں نہیں کرنا چاہتے، مجھے تو اپنے آپ پر بھی شرم آتی ہے۔ دل کرتا ہے کورٹ کو ہی جرمانہ کر دوں۔ اس کیس میں اب تک بیس تاریخیں ہو چکی ہیں مگر پیش رفت نہیں ہو رہی۔