غزہ کی ناکہ بندی اور اسرائیلی اہداف
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
غزہ پر ہونے والی امریکی و اسرائیلی جارحیت اب بیسویں ماہ میں داخل ہو چکی ہے، البتہ درمیان میں کچھ دن کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے لیکن وہ بے سود رہا ہے جس کو بہت جلد ہی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے سبوتاژ کیا اور پھر سے غزہ کے مظلوم عوام کی نسل کشی شروع کر دی گئی ہے۔
مختلف رپورٹس کے مطابق غزہ میں ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینی اس جارحیت میں شہید ہوچکے ہیں جب کہ دو لاکھ سے بھی زیادہ زخمی ہیں۔ پندرہ لاکھ تو ایسے ہیں جو بے گھر ہیں اور بے سر و سامانی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ رفح کراسنگ پر لگائے گئے عارضی خیموں کی رہائش بھی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جارحیت سے محفوظ نہیں ہے۔
غزہ کے علاوہ غاصب صیہونی حکومت مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے جیسے گھنائونے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ دوسری طرف فلسطینی مزاحمت کی تحریکیں ہیں جو مسلسل غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہیں۔
اس راستے میں مجاہدین کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ فلسطینی مجاہدین کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی شہریوں کی پائیدار استقامت اور صبر بھی بے مثال ہے کہ جس نے فلسطینی مزاحمت کو مزید تقویت فراہم کی ہے۔ اس عرصے میں پوری دنیا نے ایک بات تو سمجھ لی ہے کہ امریکا سمیت مغربی ممالک کی تمام تر طاقت اور ٹیکنالوجی کے باوجود سب کے سب مل کر غاصب اسرائیل کی فلسطینی عوام اور مزاحمت پر کامیابی کا اعلان نہیں کر سکے ہیں، آج بھی جنگ جاری ہے، معرکہ جاری ہے۔
غزہ میں مزاحمت اپنی جوابی کارروائیوں کو انجام دے رہی ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل انیس ماہ کے اس عرصے میں جہاں ساٹھ ہزار لوگوں کو قتل کرچکی وہاں اپنے قیدیوں کو حماس اور اسلامی مزاحمت کے ہاتھوں سے آزاد کروانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
قیدیوں کے اس معاملے پر غاصب صیہونی حکومت کے اندرونی خلفشار میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔امریکا اور اسرائیل نے فلسطینیوں کو شکست دینے اور غزہ پر اسرائیلی کنٹرول کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہزاروں بے گناہ انسانوں کا قتل کیا، نسل کشی کی ہے اور لاکھوں کو زخمی کیا ہے جب کہ غزہ میں کوئی بھی اسکول، مسجد، مدرسہ اور اسپتال سمیت ایسی عمارت ثابت نہیں رہی ہے کہ جس کو عمارت کا عنوان دیا جائے۔
غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد بھی امریکا اور اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کا ہتھیار استعمال کیا ہے۔ غزہ میں موجود لاکھوں نہتے شہریوں کے خلاف ناکہ بندی کو ہتھیار بنا کر استعمال کیا جا رہا ہے اور بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ آج اکیسویں صدی میں دنیا کی ماڈرن حکومت امریکا اور اسرائیل ہیں جو کھلے عام لاکھوں انسانوں کو بھوک کے ہتھیار سے قتل کرنے کے در پر ہیں۔
غزہ میں گزشتہ دو ماہ سے کوئی بھی امدادی سرگرمیاں ہونے نہیں دی جارہی ہیں جس کی وجہ سے خوراک اور ادویات کے ساتھ پانی کی شدید قلت ہے اور اس قلت کی وجہ سے معصوم بچے جان کی بازی ہار رہے ہیں اور پوری دنیا کی حکومتیں اس تماشہ پر خاموش ہیں۔
عالمی ادارے بھی بے حس ہو چکے ہیں۔ کئی ایک عالمی اداروں کو تو خود غاصب صیہونی فوج کے حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن پھر بھی نہ تو کئی عالمی ادارہ اور نہ کوئی حکومت غاصب صیہونی حکومت کے خلاف اٹھنے کو تیار ہے۔ سب ہی مذمت کے الفاظ سے کام چلا رہے ہیں لیکن غزہ کی ناکہ بندی کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ لوگ موت کی نیند سو رہے ہیں۔
حالیہ دنوں مطالعے سے گزرنے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چالیس دن میں غزہ میں ایک ہزار معصوم بچے قتل ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد بھوک اور پیاس کی شدت سے ماری گئی ہے۔ یہاں ایک المیہ اور بھی موجود ہے وہ یہ ہے کہ غزہ کی صورتحال تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی خطے کی عرب و غیر عرب ریاستیں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔
غزہ میں ہمارے بچے بھوک اور پیاس کی شدت سے مر رہے ہیں لیکن ترکی جیسے ممالک سے کھانے پینے کی اشیاء غاصب صیہونی فوج کی مددکے لیے مسلسل اور بلا تعطل سپلائی ہو رہی ہیں۔ ایسے ہی دیگر عرب ممالک سے بھی زمینی راستوں سے اسرائیل کی ضروریات کو پورا کیا جا رہا ہے کیونکہ سمندری راستوں پر یمن کے انصار اللہ اور مسلح افواج نے ناکہ بندی لگا رکھی ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ غزہ پر جارحیت اور ناکہ بندی کا خاتمہ کیا جائے بصورت دیگر سمندری ناکہ بندی جاری رہے گی اور کسی بھی امریکی و اسرائیلی جہاز کو گزرنے نہیں دیا جائے گا۔
اس صورتحال میں خطے میں موجود عرب حکومتوں نے اسرائیل کی ضروریات کو متبادل زمینی راستوں سے فراہم کرنا شروع کردیا ہے، بہرحال یہ ایک شرمناک صورتحال ہے۔غزہ کی ناکہ بندی میں غاصب اسرائیل کے اہداف واضح ہیں وہ حماس اور جہاد اسلامی جیسی مزاحمتی تنظیموں کو غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں اور غزہ کے عوام کے دل میں فلسطینی مزاحمت کے خلاف نفرت کا بیج بونا چاہتے ہیں۔
ماضی میں ایسی مثالیں الجزائر میں دیکھنے کو ملی تھیں جب فرانس کی فوج شکست سے دوچار تھی تو ایسے ہی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ بہرحال امریکا اور اسرائیل غزہ کو تباہ و برباد کرنے اور نسل کشی کے بعد اب ناکہ بندی کے حربے میں بھی بری طرح ناکامی کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ غزہ کے عوام کی پائیدار استقامت کے سامنے سب دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔
غزہ والوں نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کے ساتھ ہیں چاہے کتنی ہی قربانیاں دینا پڑیں دیں گے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے، لٰہذا امریکا اور اسرائیل غزہ کی ناکہ بندی کے بعد بھی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں اور یہ فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمت کی کامیابیوں میں سے بڑی کامیابی شمار کی جا رہی ہے۔ یہ طوفان اقصیٰ ہے جو سات اکتوبر سے تاحال جاری ہے اور نہ جانے یہ طوفان کب تک جاری رہے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غاصب صیہونی حکومت اسرائیل امریکا اور اسرائیل غزہ کی ناکہ بندی فلسطینی مزاحمت استعمال کیا اسرائیل کی ہیں اور رہے ہیں کے ساتھ ہے اور رہی ہے کہ غزہ غزہ کے کیا جا رہا ہے
پڑھیں:
جیل یا قبرستان؟، ایک خوفناک اسرائیلی جیل کی نئی تفصیلات
ایک صہیونی ذخیرہ فوجی نے، جو کچھ عرصہ صحرائے نقب میں واقع اسرائیلی حراستی مرکز سدی تیمان میں تعینات رہا، فلسطینی قیدیوں پر ہونے والے مظالم کے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ایک صہیونی ذخیرہ فوجی نے، جو کچھ عرصہ صحرائے نقب میں واقع اسرائیلی حراستی مرکز سدی تیمان میں تعینات رہا، فلسطینی قیدیوں پر ہونے والے مظالم کے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ فارس نیوز کے مطابق، اس فوجی نے اسرائیلی اخبار ہاآرتص کو بتایا کہ سدی تیمان، جو شہر بئرالسبع کے جنوب میں 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، درحقیقت ایک سادیسٹک اذیت گاہ ہے۔ اس نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر کہا کہ کئی فلسطینی زندہ اس کیمپ میں لائے گئے، لیکن وہ باہر لاشوں کے تھیلوں میں گئے۔ اس نے مزید کہا کہ اب اس جیل میں قیدیوں کی موت تعجب کی بات نہیں، بلکہ جو زندہ بچ جاتے ہیں وہ حیرت کی بات ہے۔
اس اسرائیلی فوجی کا کہنا تھا کہ اس کیمپ میں تشدد اور قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں منظم انداز میں اور اعلیٰ اسرائیلی حکام کی اطلاع کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ اس نے کہا کہ میں نے خود دیکھا کہ زخمی جنگی قیدیوں کو ہفتوں اس کیمپ میں بھوکا اور بغیر کسی علاج کے رکھا جاتا تھا۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی قیدیوں کو غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا ہے اور کیمپ کے کمانڈر کے بقول، سدی تیمان کو خود اسرائیلی فوجی قبرستان کہتے ہیں۔ اخبار ہاآرتص نے مزید لکھا کہ کیمپ کے محافظ قیدیوں کو بیت الخلا جانے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ اس نے واضح کیا کہ اس جیل میں قید کئی افراد عام شہری تھے جن کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔
آزاد ہونے والے فلسطینی قیدیوں، اسرائیلی ڈاکٹروں اور میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، سدی تیمان جیل میں قیدیوں کو بدترین تشدد، بھوک، علاج کی محرومی اور موت کا سامنا ہے۔ ان مظالم کے نتیجے میں کم از کم 36 فلسطینی اس حراستی مرکز میں شہید ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود، صہیونی سپریم کورٹ نے ستمبر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس جیل کو بند کرنے کی درخواست مسترد کر دی اور دعویٰ کیا کہ حکومت قانون کی پاسداری کرے گی۔ گزشتہ سال اگست میں اسرائیلی چینل 12 نے اس جیل کی ایک خفیہ ویڈیو نشر کی تھی جس میں فلسطینی قیدیوں پر جنسی زیادتی کے مناظر دکھائے گئے تھے، جس پر پوری دنیا میں شدید ردعمل سامنے آیا۔
کچھ وقت بعد جب اسرائیلی فوجی تفتیش کار سدی تیمان جیل میں داخل ہونے لگے، تو زفی سوکوت (صہیونی مذہبی پارٹی) اور نیسیم فاتوری (لیکود پارٹی) جیسے شدت پسندوں کی قیادت میں درجنوں صہیونی وہاں جمع ہو گئے اور تفتیش کاروں سے جھڑپ کی۔ تاہم تفتیش کار آخرکار جیل میں داخل ہو گئے اور وہاں ہونے والے ہولناک مظالم کی کچھ تفصیلات آشکار ہوئیں، لیکن اس تحقیقات کی مکمل رپورٹ آج تک منظرعام پر نہیں لائی گئی۔