امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوئیٹزرلینڈ میں چینی حکام کے ساتھ تجارت اور ٹیرف کے معاملات پر ہونے والے مذاکرات کو خوش آئند قرار دے دیا۔

اپنے سماجی رابطے کے پیلٹ فارم ‘ٹروتھ’ پر پوسٹ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ دونوں کے درمیان مذاکرات ایک دوستانہ اور تعمیری ماحول میں ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ کا چینی مصنوعات پر ٹیرف 80 فیصد تک لانے کا عندیہ

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بہت سارے معاملات پر بحث ہوئی اور بہت ساری باتوں پر اتفاق ہوا۔

امریکی صدر نے کسی پیش رفت کی تفصیل دیے بغیر کہا کہ ہم دونوں ممالک کی بھلائی کے لیے چین کو امریکی تجارت کے لیے دستیاب کرنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے تجارتی جنگ کم کرنے میں دلچسپی کا اشارہ دینے کے لیے چینی اشیا پر محصولات میں کمی کی تجویز پیش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقتصادی جنگ میں امریکا اور چین آمنے سامنے، ٹرمپ نے بیجنگ کو دھمکی دے دی

بی بی سی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے سوئٹزرلینڈ میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی مذاکرات سے قبل جمعہ کو سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’چین پر 80 فیصد ٹیرف درست لگتا ہے‘۔

چین کی نائب وزیر خارجہ ہوا چن ینگ نے بھی ملاقاتوں سے قبل ایک پر اعتماد نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ چین کو امریکا کے ساتھ تجارتی معاملات کو سنبھالنے کی اپنی صلاحیت پر مکمل اعتماد ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا تجارت ٹیرف چین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا ٹیرف چین ڈونلڈ ٹرمپ نے کے لیے

پڑھیں:

پاک افغانستان مذاکرات کی ناکامی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

251109-03-2

 

پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی برقرار ہے۔ ناکام مذاکرت افغانستان پاکستان کسی کے لیے ٹھیک نہیں، اور پاکستان کے لیے تو بالکل ٹھیک نہیں، پڑوسی ملک افغانستان کے درمیان تازہ ترین کشیدگی، جس کے بعد دوحا اور استنبول میں مصالحانہ مذاکرات کی کوششیں ہوئیں، لیکن اعتماد کے بحر ان کی وجہ سے نتیجہ خیز نہیں ہوا، مذاکرات میں بظاہر مقصد ایک پائیدار جنگ بندی، نگرانی کے میکانزم اور سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے کے لیے واضح شرائط طے کرنا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اعتماد کی کمی، عسکری اور سیاسی موافقت کا فقدان، اور علاقائی طاقتوں کے مختلف مفادات نے گفتگو کو بارہا ناکام کیا یا کم از کم اس کی تاثیر کم کر دی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں نے دونوں اطراف میں انسانی جانوں کا شدید نقصان دکھایا ہے، فوجی اور شہری، دونوں ہلاک ہوئے ہیں اور یہ تصادم اس بات کا ثبوت ہیں کہ محض ڈپلومیسی کی بات چیت سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، جب تک اس کے پیچھے ایک قابل ِ عمل اور قابل ِ جانچ میکانزم قائم نہ ہو۔ دوحا میں پہلی ملاقات کے بعد ایک غیر مستحکم جنگ بندی پر اتفاق ہوا، جبکہ استنبول میں گفتگو کے اگلے مرحلے میں نگرانی کے طریقہ کار کے قیام پر عمومی اتفاق اور بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ سامنے آیا تھا؛ مگر متعدد رپورٹس اور تجزیہ کار کے مطابق یہ معاہدے عملی جامہ پہنانے میں بہت کم کامیاب رہے یا پھر معاملات جلد از جلد دوبارہ الجھ گئے۔

افغان فریق کے نقطہ ٔ نظر سے ان کے نمائندے اپنی تجاویز کو ’منطقی اور پاکستان کے لیے آسانی سے قابل ِ عمل‘ قرار دیتے ہیں؛ تاہم اسلام آباد کا مؤقف یہ ہے کہ پیش کردہ مطالبات ناقابل قبول اور جارحانہ ہیں، اس کشمکش کا مرکز عموماً وہ مطالبات ہیں جو پاکستان طرف سے ’سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے‘ کے شقوں کے گرد گھومتے ہیں۔ اسلام آباد نے اپنے شواہد کی بنیاد پر جو مطالبات ثالثوں کے سامنے رکھے، ان کا کہنا تھا کہ مقصد محض سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ ہے اور یہ مطالبات جائز اور منطقی ہیں۔ پاکستانی ترجمانوں نے واضح کیا کہ اگر ان مذاکرات میں عمل درآمد نہ ہوا تو اسلام آباد اپنے عوام اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ بات چیت کے عمل کی ناکامی کے معاشی، سفارتی اور انسانی قیمتیں بڑی ہوں گی۔ پالیسی سازوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان نے پچھلے چالیس سال میں افغانستان کے اندرونی بحرانوں میں براہِ راست اور بالواسطہ طور پر زندگیوں، معیشت اور سلامتی کے اعتبار سے جو قربانیاں دیں، وہ معمولی نہیں تھیں، پناہ گزینوں کی اکثریت کا بوجھ، سرحدی دہشت گردی کے خلاف طویل فوجی مہمات، اور علاقائی عدم استحکام کے اثرات نے پاکستان کی استعدادِ کار پر دباؤ ڈالا ہے۔ اس پس منظر کا تحفظ یہ بتاتا ہے کہ اسلام آباد کیوں سخت موقف اپناتا ہے اور کیوں اس کے مطالبات کو محض سفارتی الفاظ میں نمٹا کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ اگر ہم مذاکراتی ناکامی کی اندرونی وجوہات پر نظر ڈالیں تو چند ایسے بنیادی مسائل نظر آتے ہیں جنہیں نظرانداز کرنا سیاسی خود فریبی ہوگی۔ پہلا مسئلہ اعتماد کا فقدان ہے، دونوں اطراف میں سنجیدہ سطح کا اعتماد موجود نہیں جس کی بنا پر کوئی بھی فریق اپنے دفاعی یا سیکورٹی اقدامات میں نمایاں ڈھلاؤ دکھائے۔ دوسرا، عسکری اور سیاسی قیادت کے مابین ہم آہنگی کا فقدان ہے؛ پاکستان میں ملکی حکمت ِ عملی جب عسکری اور سفارتی سطح پر یکساں نہیں تو مذاکراتی ٹیم کے پاس عملی لچک کم رہ جاتی ہے۔ تیسرا، خطے میں بیرونی طاقتوں اور ثالثوں کے کردار اہم رہا جہاں ترکی اور قطر نے ثالثی کا کردار ادا کیا، اس عمل کو بظاہر سہارا تو ملا مگر یہ سہارا طویل المدتی ہم آہنگی میں تبدیل نہ ہو سکا۔ ثالثی اس وقت تک کامیاب رہتی ہے جب فریقین اپنے اندر بنیادی توازن اور سیاسی تیاری رکھتے ہوں، ورنہ ثالثی عارضی طور پر صورتِ حال کو ٹھنڈا کر دیتی ہے مگر بنیادی تضادات برقرار رہتے ہیں۔ پاکستان کے لیے مخدوش بات یہ ہے کہ اگر مذاکرات بارہا ناکام رہیں تو یہ سلسلہ خانہ جنگی یا بڑے پیمانے پر عسکری کارروائی کی طرف نہیں جانا چاہیے، اور نہ ہی عوامی سطح پر ایسی تجاویز قابل قبول ہوں جو نہ صرف خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلیں بلکہ خانگی وسائل اور معیشت پر ناقابل ِ تلافی اثرات ڈالیں۔ اس اعتبار سے ’تمام ضروری آپشنز‘ کے جملے، جو سرکاری سطح پر استعمال کیے جاتے ہیں، بعض اوقات داخلی مسائل اور بین الاقوامی تشویش کو جنم دیتے ہیں۔ مذاکرات کے ناکام ہونے کی صورت میں فوجی یا مخصوص کٹے ہوئے آپریشنز ممکن ہیں مگر ان کے نتیجے میں سیکورٹی کی وہ صورتِ حال جن کا تذکرہ کیا جاتا ہے، مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے خاص طور پر جب افغانستان میں مرکزی کنٹرول کمزور ہو اور علاقائی علٰیحدہ گروہ یا امن دشمن عناصر خود کو کسی فضا میں آزاد محسوس کریں۔

اس صورتِ حال میں پاکستان کو دو متوازی حکمت ِ عملیاں اپنانی ہوں گی: ایک تو مختصر المدت، عملی اور تکنیکی نوعیت کی، جس میں سرحدی نگرانی کے بہتر طریق کار، مشترکہ کارروائی کے اہداف، اور ثالثی کے ذریعے قابل ِ عمل میکانزم کو نافذ کرنا شامل ہو؛ دوسری، طویل المدت پالیسی جس میں خطے کی مستقل استحکام کے لیے سیاسی شمولیت، اقتصادی روابط کی تعمیر، اور افغانستان کے اندر موثر ریاستی کنٹرول کو فروغ دینے کی کوششیں شامل ہوں۔ درحقیقت، صرف عسکری یا سفارتی کوششیں اکیلے مسئلے کو حل نہیں کریں گی، ایک جامع نقطہ ٔ نظر درکار ہے جس میں معاشی امداد، انفرا اسٹرکچر کا اشتراک، اور باہمی اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات شامل ہوں۔ ایک دانش مندانہ راستہ یہ ہو گا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کو ’دشمن‘ سمجھنے کے بجائے باہمی مفادات کی روشنی میں تعلق بنائیں جہاں انسانی فلاح، اقتصادی استحکام اور بین الاقوامی تعلقات کو مقدم رکھا جائے۔ افغان قیادت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں اس کے خود کے مستقبل کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ خطے کی سلامتی دونوں فریقین کے مشترکہ مفاد میں ہے؛ اس لیے ناکام مذاکرات کسی کو بھی فائدہ نہیں دیں گے، نہ پاکستان کو، نہ افغانستان کو، اور نہ ہی خطے کے دوسرے ملکوں کو۔ اس کا کوئی فائدہ ہوگا۔ ضرورت دونوں کے لیے اس وقت یہ ہے کہ مذاکراتی ناکامی پر غم و غصہ دکھانے کے بجائے، ایک منظم، شواہد پر مبنی، اور شفاف حکمت ِ عملی مرتب کی جائے جس میں ثالثی کو ایک معاون کردار دیا جائے مگر آخری فیصلے دونوں ملک اپنے قومی مفادات اور بین الاقوامی ذمے داریوں کے پیش ِ نظر کریں۔ اگرچہ تعلقات کی بحالی پیچیدہ اور دیر طلب ہو سکتی ہے، مگر یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ جبر یا عسکری تسلط کی حکمت ِ عملیاں طویل المدت استحکام فراہم نہیں کرتیں، استحکام تبھی ممکن ہے جب دونوں اطراف اپنی پالیسیوں میں عملی لچک اور سیاسی عزم دکھائیں۔

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • ڈونلڈ ٹرمپ کو بیس بال میچ میں شائقین کی جانب سے شدید مخالفت اور نعرے بازی کا سامنا
  • جو بائیڈن بدترین صدر، کرپٹ انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئے: ٹرمپ
  • ٹیرف سے کھربوں کی کمائی، ٹرمپ کا امریکیوں میں فی کس 2 ہزار تقسیم کرنے کا اعلان
  • ٹیرف سے اضافی آمدن‘ امریکیوں کو فی کس 2 ہزار ڈالر دینے کا اعلان
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے ہر شہری کو 2ہزارڈالر دینے کا اعلان کردیا
  • جنوبی افریقا میں جی 20اجلاس منعقد ہونا افسوسناک ہے‘ٹرمپ
  • پاک افغانستان مذاکرات کی ناکامی
  • جنوبی افریقہ میں جی 20 اجلاس میں کوئی امریکی عہدیدار شریک نہیں ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی ایٹمی دھمکیوں اور بڑھکوں پر چین کا سخت ردِعمل
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق اسپیکر نینسی پلوسی کو “شیطان عورت” کا لقب دے دیا