چینی صدر شی جن پھنگ کی اپنی ماں سے محبت کی داستان
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
1969 میں 16 سال سے کم عمر کے شی جن پھنگ چین کے صوبہ شان شی کے لیانگ جیا حہ علاقے میں کام کرنے کے لئے گئے۔روانگی سے پہلے ان کی والدہ چھی شن نے اپنے ہاتھوں سے ان کے لئے ایک بیگ بنایا، جس پر کڑھائی سے تین سرخ الفاظ درج تھے۔یہ الفاط تھے ” ماں کا دل” جو ماں بیٹے کے درمیان گہری محبت کے عکاس تھے ۔رہنما بننے کے بعد شی جن پھنگ اور ان کی والدہ کی ملاقاتیں کم ہو گئیں۔ والدہ اکثر انہیں خطوط لکھتی تھیں اور کہتی تھیں “اپنا کام احسن طریقے سے کرنا ہی اپنے والدین کے لئے سب سے بڑی محبت ہے۔” اچھی خاندانی اقدار میں پروان چڑھتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی آف چائناکی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری شی جن پھنگ اس عزم کے ساتھ کہ “میں اپنی ذات کو فراموش کروں گا اورعوام کو مایوس نہیں کروں گا” 140 کروڑ سے زائد چینی عوام کی رہنمائی کررہے ہیں تاکہ قوم بہتر مستقبل کی جانب اپنا سفر جاری رکھے ۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شی جن پھنگ
پڑھیں:
انوکھا قصبہ، جہاں جانے والے ہر بزرگ کو ان کی جوان محبت مل جاتی ہے
بینکاک(نیوز ڈیسک)تھائی لینڈ کے ساحلی شہر ہوا ہِن میں کچھ مخصوص خواتین کی موجودگی اس علاقے کی شہرت کا باعث بن کی ہے۔ یہاں آنے والے اکثر سیاح محبت کی تلاش میں ہوتے ہیں، اور انہیں یہاں مطلوبہ محبت مل بھی جاتی ہے۔
یہاں دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی غیرملکی کمیونٹیوں میں سے ایک آباد ہے جن میں ایک ہزار سے زائد برطانوی شہری بھی شامل ہیں۔ ان میں اکثریت عمر رسیدہ اور تنہا مردوں کی ہے جو ایک نئی محبت اور خوشگوار ریٹائرمنٹ کے خواب لے کر یہاں آتے ہیں، اور اکثر ایسی لڑکیوں کے ساتھ رہتے ہیں جن کی عمر ان کی پوتیوں جتنی ہے۔
مقامی اخبار ”ہوا ہن ٹوڈے“ کے حالیہ سروے کے مطابق یہاں کے 81 فیصد غیرملکی مرد ہیں، جن میں سے نصف کی عمریں 66 سے 75 کے درمیان ہیں۔ 96.5 فیصد افراد نے بتایا کہ یہاں کی زندگی نے ان کی توقعات کو پورا کیا یا ان سے بڑھ کر ثابت ہوئی۔
مگر حالیہ برسوں میں کچھ واقعات نے اس خوبصورت شہر کی تصویر کو دھندلا کر دیا ہے۔ برطانوی سابق فوجی افسر گریم ڈیوڈسن کی گرفتاری نے سب کو چونکا دیا۔ وہ اپنی آسٹریلوی بیوی کی ہلاکت کے بعد یہاں منتقل ہوئے تھے اور اب ان پر قتل کا الزام ہے۔
ڈیوڈسن جیسے کئی غیرملکی مرد یہاں اپنا ماضی پیچھے چھوڑ کر آتے ہیں۔ کچھ کے لیے یہ نیا آغاز ہوتا ہے، تو کچھ کے لیے ماضی سے فرار۔ 65 سالہ مارک جو اپنی 30 سالہ شادی کے خاتمے کے بعد یہاں آئے، کہتے ہیں کہ ’انگلینڈ میں اب میں محفوظ محسوس نہیں کرتا اور وہاں کی خواتین میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ یہاں تو لڑکیاں خود مردوں سے بات چیت کرتی ہیں۔‘
ایسے ”ریٹائرمنٹ ویزے“ جو 50 سال سے زائد عمر کے غیرملکیوں کو دیے جاتے ہیں اس نئی زندگی کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ صرف ایک مخصوص رقم یا پینشن ہونا کافی ہے۔
مارک اس وقت ایک 38 سالہ تھائی خاتون کے ساتھ رشتہ رکھے ہوئے ہیں مگر وہ جانتے ہیں کہ وہ عورت ایک جرمن مرد کے ساتھ بھی تعلق میں ہے جو اسے مالی مدد فراہم کرتا ہے۔ مارک جیسے کئی مرد اپنی جائیداد محفوظ رکھنے کے لیے شادی سے گریز کرتے ہیں یا معاہدے کرواتے ہیں تاکہ زمین ان کے قبضے میں رہے۔
ہوا ہِن کی جائیداد بھی ان بزرگوں کے لیے پرکشش ہے جہاں ایک عالیشان ولا 60 ملین تھائی بھات (تقریباً 1.36 ملین پاؤنڈ) یعنی 512 ملین پاکستانی روپے میں دستیاب ہوتا ہے۔ مگر یہاں بھی بعض خواتین شوہروں سے زمین کا قبضہ لینے کے بعد غائب ہو جاتی ہیں جس کے لیے اب نئے قانونی معاہدے بنائے جا رہے ہیں۔
رات کے وقت جب ”واکنگ اسٹریٹ بار“ جیسے مقامات پر جایا جائے تو نوجوان تھائی خواتین کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں جو ان غیرملکی مردوں کو محبت اور راحت فراہم کرتی ہیں۔ ان خواتین کی کمائی زیادہ تر مشروبات پر کمیشن سے ہوتی ہے اور بہت سی لڑکیاں دیہی علاقوں سے یہاں بہتر زندگی کی تلاش میں آتی ہیں۔
یہ قصبہ شاید دنیا کا واحد ایسا مقام ہو جہاں بڑھاپے میں بھی نئی محبت، نئی زندگی اور نیا جوش ملتا ہے لیکن اس کے پیچھے کئی پیچیدہ سچائیاں، نازک تعلقات اور کبھی کبھی خطرناک ماضی بھی چھپا ہوتا ہے۔
مزیدپڑھیں:پی ٹی آئی ضلع پشاور کی تمام تنظیمیں تحلیل، پارٹی کی تنظیم نو کا فیصلہ