جرمنی میں انٹرنیٹ آڈیو، ویڈیو کالز موبائل نیٹ ورکس سے زیادہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 مئی 2025ء) یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے دارالحکومت ڈسلڈورف سے اتوار 11 مئی کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق جرمن صارفین کی طرف سے موبائل فون، جو کہ اب تقریباﹰ سارے ہی اسمارٹ فون ہوتے ہیں، کے استعمال کے انداز میں گزشتہ چند برسوں میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔
ترکی نے 'ڈسکارڈ' میسجنگ پلیٹ فارم کو بلاک کر دیا
جرمنی کی فیڈرل نیٹ ورک ایجنسی، جس کے صدر دفاتر بون میں ہیں اور جو ملکی انفراسٹرکچر کا نگران ادارہ ہے، کی طرف سے ڈسلڈورف میں بتایا گیا کہ ملکی صارفین کی طرف سے انٹرنیٹ کے ذریعے کی جانے والی آڈیو اور ویڈیو کالوں کا مجموعی دورانیہ اب روایتی فون کالوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
روایتی فون کالوں کی نسبت میسنجرز پر کالیں زیادہفیڈرل نیٹ ورک ایجنسی نے ملکی خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ سال 2024ء کے دوران جرمن صارفین نے موبائل نیٹ ورکس کے ذریعے مجموعی طور پر 145 بلین منٹ دورانیے کی کالیں کیں۔ اس سے تین سال قبل 2021ء میں ایسی فون کالوں کا مجموعی دورانیہ 163 بلین منٹ رہا تھا۔
ٹیلی گرام کے بانی ’روسی مارک زکربرگ‘ کون ہیں؟
دوسری طرف موبائل فونز سے انٹرنیٹ کے ذریعے جو آن لائن کالیں کی جاتی ہیں، ان کے لیے زیادہ تر میٹا کے مسینجر، واٹس ایپ اور سگنل جیسی ایپلیکیشنز استعمال ہوتی ہیں۔
گزشتہ برس جرمن صارفین نے ایسی میسنجر ایپس کے ذریعے جتنی بھی آن لائن آڈیو اور ویڈیو کالیں کیں، ان کا مجموعی دورانیہ 197 بلین منٹ بنتا تھا۔ 2022ء میں ایسی آن لائن کالوں کا کُل دورانیہ 121 بلین منٹ رہا تھا۔
ویڈیو کالیں آڈیو کالوں سے زیادہ مقبولجرمنی کی فیڈرل نیٹ ورک ایجنسی کے مطابق جرمن معاشرے میں ایک طرف اگر آن لائن فون کالیں روایتی فون کالز کو پیچھے چھوڑ چکی ہیں، تو دوسری یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ آن لائن کالوں میں ویڈیو کالز کو آڈیو کالز کی نسبت زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔
امریکہ میں میٹا پر عدم اعتماد سے متعلق تاریخی مقدمہ ہے کیا؟
آن لائن ویڈیو کالنگ کی اس مقبولیت کا ایک ثبوت یہ کہ 2022ء میں جرمنی میں 143 بلین منٹ تک ویڈیو کالیں کی گئی تھیں۔ مگر دو سال بعد 2024ء میں ایسی ویڈیو کالز کا سالانہ دورانیہ بہت زیادہ ہو کر 184 بلین منٹ ہو چکا تھا۔
جہاں تک ٹیلی فون کی فکسڈ لائنوں یا لینڈ لائنز کے ذریعے کال کرنے کے رجحان کا تعلق ہے، تو یہ بھی مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے۔
سن 2020ء میں جرمن صارفین نے کُل 104 بلین منٹ تک لینڈ لائن کالیں کی تھیں۔ یہ دورانیہ 2024ء میں تقریباﹰ نصف رہ گیا اور صرف 57 بلین منٹ رہا تھا۔ روزانہ آن لائن میسجنگ کس طرح کی اور کتنی؟فیڈرل نیٹ ورک ایجنسی نے رابطوں، پیغامات اور فون کالوں کے حوالے سے جرمن صارفین کے موجودہ رجحانات سے متعلق چند دیگر دلچسپ اعداد و شمار بھی جاری کیے ہیں۔
واٹس ایپ، ٹیلی گرام یا سگنل، کونسی ایپ زیادہ محفوظ؟
اس ڈیٹا کے مطابق تقریباﹰ 83 ملین کی آبادی والے جرمنی میں روزانہ کی بنیاد پر عوامی رابطوں اور ابلاغ کا سب سے مستعمل طریقہ آن لائن میسجنگ ہے۔ اس کے لیے ٹیکسٹ، فوٹوز، وائس میسج، ویڈیوز، ایموجیز اور گِفس (GIFs) جیسے متنوع امکانات استعمال کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ برس جرمن صارفین نے ملکی نیٹ ورکس استعمال کرتے ہوئے مجموعی طور پر تقریباﹰ 902 بلین آن لائن پیغامات بھیجے، جو 2023ء کے مقابلے میں 11 بلین زیادہ تھے۔
ادارت: شکور رحیم
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جرمن صارفین صارفین نے بلین منٹ کے ذریعے کالیں کی سے زیادہ آن لائن
پڑھیں:
ایک خطرناک سازش کے تانے بانے
اسلام ٹائمز: زنگیزور روٹ کا مستقبل دو متضاد منظرناموں کے درمیان پھنس گیا ہے۔ اگر کامیاب ہو، تو 2027ء تک یہ راہداری سالانہ 20-50 بلین ڈالر کی تجارت کو منتقل کرسکتی ہے، 11 ملین ٹن سامان کی نقل و حمل کی صلاحیت کو فعال کرسکتی ہے اور ترکی کو خطے میں توانائی اور ٹرانزٹ کے ایک اہم مرکز میں تبدیل کرسکتی ہے۔ ایک ایسی کامیابی جو نہ صرف جنوبی قفقاز کی معیشت کو بدل دے گی بلکہ مہنگے راستوں پر یورپ کا انحصار بھی کم کر دے گی۔ لیکن ناکامی کے منظر نامے میں، مسلسل سیاسی تعطل اور خود مختار حساسیت امریکی ثالثی پر اعتماد کو ختم کرسکتی ہے اور یورپ کو طویل، پرخطر راستوں کا استعمال جاری رکھنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
آرمینیا اور آذربائیجان نے جمعے کو وائٹ ہاؤس میں ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کی ثالثی امریکہ نے کی۔ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ زنگیزور کوریڈور پر ایک دیرینہ تنازعہ کو حل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ تاہم، آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ خطے میں امریکی مداخلت کا ایک نیا اقدام ۔ یہ معاہدہ پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم اس معاہدے اور خطے میں اس کے جغرافیائی سیاسی اثرات پر ایک نظر ڈالیں گے۔
معاہدے کی تفصیلات
تینوں ممالک آرمینیا، آذربائیجان اور امریکہ کا مشترکہ بیان جسے فارن پالیسی نے بھی شائع کیا، اس میں درج ذیل نکات شامل ہیں: تینوں ممالک نے ایک ٹرانزٹ کوریڈور بنانے پر اتفاق کیا ہے، جو آذربائیجان کے اندرونی حصے کو نخچیوان خود مختار جمہوریہ سے جوڑے گا، جو آرمینیا کے سب سے جنوبی صوبے سینوئجو سے گزرتا ہے۔ اس ٹرانزٹ کوریڈور کو لیز پر دینے کا حق واشنگٹن کو ہوگا۔ راستے کا نام تبدیل کرکے ٹرمپ کوریڈور فار انٹرنیشنل پیس اینڈ پراسپریٹی، مختصراً TRIPP رکھ دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ آرمینیائی حکومت کے قانونی دائرہ اختیار میں لاگو کیا جائے گا۔ 43 کلومیٹر کے راستے کی زمین امریکی حکومت کو 99 سال کے لیے لیز پر دی جائے گی۔
امریکی حکومت تعمیرات اور انتظام کی نگرانی کے لیے اپنے زیر کنٹرول ٹرانزٹ روٹ کو ایک نجی امریکی کمپنی کو لیز پر دے گی۔ زنگیزور، جو اس وقت جنوبی آرمینیا کا حصہ ہے، پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ایک متنازع علاقہ رہا ہے۔ کمیونسٹ سوویت یونین کے تحت، یہ علاقہ، جو باکو کے نخچیوان خود مختار علاقے اور آذربائیجان کے درمیان واقع ہے، آرمینیائی سوویت سوشلسٹ جمہوریہ (SSR) کا حصہ بن گیا۔ آج آرمینیا اس علاقے کو اپنا صوبہ سیونک سمجھتا ہے۔ سوویت دور کے دوران، ماسکو نے نخچیوان کو ایک ایسے خطے میں مرکزی آذربائیجانی علاقے سے جوڑنے کے لیے دو ریلوے لائینیں تعمیر کیں، جسے باکو اب زنگیزور کوریڈور کہتے ہیں، جسے کبھی کبھی آذربائیجانی میڈیا اور تجزیہ کار نخچیوان کوریڈور کہتے ہیں۔ لیکن یہ ریل گاڑیاں 1992ء میں شروع ہونے والی پہلی کاراباخ جنگ کے دوران ناقابل استعمال ہوگئیں۔
ایک مخصوص معنی میں، زنگیزور کوریڈور کا مقصد آذربائیجان کو بغیر کسی آرمینیائی چوکیوں کے اس کے نخچیوان انکلیو تک غیر محدود رسائی دینا ہے جبکہ یہ تہران-ایریوان سرحد کے قریب آرمینیائی علاقے سے گزرتا ہے۔ عام مفہوم میں یہ راہداری ایک جغرافیائی سیاسی منصوبہ ہے، جو یورپ کو وسطی ایشیا اور چین سے آذربائیجان-ترکیہ کے راستے سے ملاتا ہے۔ جنوبی آرمینیا میں 43 کلومیٹر کا زنگیزور راستہ پہلی نظر میں محض ایک جغرافیائی چوراہے کی طرح لگتا ہے، لیکن آج کی جغرافیائی سیاسی آب و ہوا میں، یہ عظیم طاقت کے مقابلے کے حساس ترین مقامات میں سے ایک بن گیا ہے۔ اس راستے کو ایک صدی کے لیے لیز پر دینے کا امریکی منصوبہ نہ صرف یوریشیائی تجارتی اور توانائی کے راستوں کو تبدیل کرسکتا ہے بلکہ جنوبی قفقاز اور یہاں تک کہ یورپی توانائی کی منڈی میں طاقت کے توازن کو بھی بدل سکتا ہے۔
زنگیزور روٹ کا مستقبل دو متضاد منظرناموں کے درمیان پھنس گیا ہے۔ اگر کامیاب ہو، تو 2027ء تک یہ راہداری سالانہ 20-50 بلین ڈالر کی تجارت کو منتقل کرسکتی ہے، 11 ملین ٹن سامان کی نقل و حمل کی صلاحیت کو فعال کرسکتی ہے اور ترکی کو خطے میں توانائی اور ٹرانزٹ کے ایک اہم مرکز میں تبدیل کرسکتی ہے۔ ایک ایسی کامیابی جو نہ صرف جنوبی قفقاز کی معیشت کو بدل دے گی بلکہ مہنگے راستوں پر یورپ کا انحصار بھی کم کر دے گی۔ لیکن ناکامی کے منظر نامے میں، مسلسل سیاسی تعطل اور خود مختار حساسیت امریکی ثالثی پر اعتماد کو ختم کرسکتی ہے اور یورپ کو طویل، پرخطر راستوں کا استعمال جاری رکھنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ اس کوریڈور جس کو اب ٹرمپ روٹ کا نام دیا جا رہا ہے، اقتصادی اور اسٹریٹجک حوالے سے بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ امریکہ کے اس میں داخل ہونے سے ایران اور روس کے چیلنجوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں اس کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔
???? اقتصادی ادارے فوربس نے لکھا ہے کہ زنگیزور کوریڈور 2027ء تک اپنے شراکت داروں کے لیے سالانہ $50-100 بلین تجارتی مالیت پیدا کرے گا۔
???? یہ راستہ باکو کی برآمدات میں 700 ملین ڈالر سے زیادہ کا اضافہ کرے گا اور یورپ کو باکو کی گیس کی برآمدات 12 سے 20 بلین کیوبک میٹر تک بڑھ جائے گی۔
????ایران کو اپنے ٹرانزٹ کردار اور اہم محصولات کا 20-30% کھونے کے خطرے کا سامنا ہے۔
????روس کو 10-20 بلین ڈالر کی آمدنی اور یورپی انرجی مارکیٹ پر اپنے 10-15% لیوریج سے بھی نقصان ہوسکتا ہے۔
???? نیو سلک روڈ میں چین کے 20-30 بلین ڈالر کے مفادات بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
????ترکیہ، ترک زبان بولنے والے ممالک تک براہ راست رسائی حاصل کرکے سالانہ 10-15 بلین ڈالر ٹرانزٹ ریونیو کما سکتا ہے۔
یورپ کے لیے، یہ راہداری 2030ء تک توانائی کے اخراجات میں 20-30 بلین ڈالر کی بچت کرسکتی ہے۔