انور عباس : لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کی خلاف ورزی سے متعلق بھارتی سیکریٹری خارجہ کے بیان پر پاکستان نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پاک-بھارت جنگ بندی معاہدے پر ایمانداری سے عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کچھ علاقوں میں بھارتی جانب سے ہونے والی خلاف ورزیوں کے باوجود ذمہ داری اور تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے ہماری افواج صورتحال کو انتہائی بردباری کے ساتھ سنبھال رہی ہیں۔

پاکستان کا پرچم اللہ تعالی نے سر بلند رکھا اور فتح سے نوازا؛ خواجہ عمران نذیر

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد میں پیدا ہونے والے کسی بھی مسئلے کو باہمی رابطے اور مناسب سطح پر بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے تاکہ سرحدی امن کو یقینی بنایا جا سکے۔

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں لائن آف کنٹرول پر تناؤ کی صورتحال کے بعد بھارتی سیکریٹری خارجہ نے پاکستان پر الزامات عائد کیے تھے جن پر پاکستان نے فوری طور پر ردعمل دیتے ہوئے اپنے مؤقف کو واضح کیا ہے۔

  پی ٹی آئی کے چئیرمین کا آپریشن  بُنیانّ مرصوص پر بیان

.

ذریعہ: City 42

پڑھیں:

افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے: دفتر خارجہ

پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔ترجمان دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور برادر ممالک ترکیہ اور قطر کی میزبانی میں 7 نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا، پاکستان، دہشت گردی کے بنیادی مسئلے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں کو سراہتا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران، جب سے طالبان حکومت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، پاکستان نے ان سالوں میں بے پناہ جانی نقصان اٹھانے کے باوجود حد درجہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا۔ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان کو توقع تھی کہ وقت کے ساتھ طالبان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گرد حملوں پر قابو پائے گی اور ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور دیگر عناصر کے خلاف عملی اقدامات کرے گی۔پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تجارتی، انسانی ہمدردی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں تعاون کی راہیں کھولنے کی کوشش کی، مگر اس کے جواب میں افغان حکومت کی جانب سے صرف وعدے اور غیر سنجیدہ بیانات ملے۔افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا طالبان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، لیکن اس حوالے سے وہ عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات سے گریزاں ہیں اور غیر متعلقہ موضوعات اٹھا کر اصل مسئلہ دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ اکتوبر 2025 میں پاکستان کا ردعمل اس عزم اور ارادے کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار پاکستان اور اس کے عوام کے کھلے دشمن ہیں اور جو کوئی بھی ان کی پناہ، مدد یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان کا خیرخواہ نہیں۔پاکستان امن اور سفارت کاری کا حامی ہے اور طاقت کا استعمال ہمیشہ آخری آپشن سمجھتا ہے، ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ تجاویز پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے امن مذاکرات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔دوحہ میں پہلے دور کے دوران فریقین کے درمیان بعض اصولی نکات پر اتفاق ہوا اور عارضی فائر بندی پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئی، استنبول میں دوسرے دور میں ان نکات پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات ہونا تھی، لیکن طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ‘تیسرے دور میں بھی پاکستان نے مثبت اور تعمیری رویہ اپنایا اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے مؤثر نگرانی کے نظام پر زور دیا، لیکن افغان وفد نے غیر متعلقہ الزامات اور دعووں کے ذریعے بات چیت کو بے نتیجہ بنایا۔انہوں نے ک مذاکرات کے دوران یہ بات واضح رہی کہ طالبان حکومت صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی ہے، جبکہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار کے خلاف کوئی ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔طالبان حکومت دہشت گردوں کو مہاجرین کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ یہ انسانی مسئلہ نہیں بلکہ دہشت گردی کی حمایت کا معاملہ ہے۔پاکستان کسی بھی پاکستانی شہری کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ انہیں طورخم یا چمن بارڈر پر باقاعدہ طریقے سے حوالہ کیا جائے، نہ کہ اسلحہ و ساز و سامان کے ساتھ غیر قانونی طور پر بھیجا جائے۔ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان کسی دہشت گرد گروہ سے بات چیت نہیں کرے گا، خواہ وہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند ہو یا بی ایل اے / فتنۃ الاحرار، طالبان حکومت کے اندر ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو پاکستان سے تصادم نہیں چاہتے، مگر بیرونی مالی معاونت یافتہ ایک لابی تعلقات خراب کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔بیان کے مطابق پاکستان کے عوام اور افواج دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں.پاکستان کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان پاکستانی عوام نے اٹھایا ہے، پاکستان اپنے اندرونی مسائل سے آگاہ اور ان کے حل کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے بارہا طالبان حکومت سے کہا ہے کہ پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت ترک کرے، اگست 2021 کے بعد سے افغانستان سے دہشت گردی میں واضح اضافہ ہوا ہے جسے طالبان حکومت نہ جھٹلا سکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داری سے بری ہو سکتی ہے۔ طالبان حکومت کی جانب سے پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوششیں بھی قابلِ مذمت ہیں. حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پشتون عوام ریاست اور معاشرے کا متحرک حصہ ہیں، جو سیاست، بیوروکریسی اور قومی اداروں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔پاکستان باہمی اختلافات کے حل کے لیے مذاکرات کا حامی ہے. تاہم دہشت گردی کا مسئلہ اولین ترجیح کے طور پر حل ہونا چاہیے.پاکستان کی مسلح افواج اور عوام مل کر اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان جنگ بندی کے لیے ترکیہ اور ایران سرگرم، کیا اس بار کوششیں کامیاب ہوسکیں گی؟
  • استنبول مذاکرات، پاکستان کا موقف تعصب سے بالاتر اور حقائق پر مبنی تھا، ذرائع
  • افغان حکومت نے دہشتگرد عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کی، دفتر خارجہ
  • افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے: دفتر خارجہ
  • استنبول مذاکرات پر غیرجانبدار ممالک نے پاکستان کے موقف کی تائید کی، سفارتی ذرائع
  • دہشت گردوں کو پناہ دینے والا پاکستان کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا؛ دفتر خارجہ 
  • پاکستان کی پیشکش کا افغانستان نے عملی جواب نہیں دیا، دفتر خارجہ
  • پاکستانی پیشکش کا افغانستان نے عملی جواب نہیں دیا، ترجمان خارجہ
  • طالبان کے اقتدار میں آنے سے پاکستان پر دہشت گردانہ حملے بڑھے،دفتر خارجہ
  • افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے، دفتر خارجہ