اقراء یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے رہنما فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے کہا کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی نے ایک نئے مرحلے میں قدم رکھا ہے، جہاں مزاحمتی محاذ نے اسرائیلی افواج اور حکومت کو سخت دباؤ میں ڈال دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابومریم نے اقراء یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین کی موجودہ صورتحال، یمن کی تازہ ترین پیش رفت، اور مزاحمتی قوتوں کی جانب سے اسرائیل کو درپیش سنگین مشکلات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر صابر ابومریم نے کہا کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی نے ایک نئے مرحلے میں قدم رکھا ہے، جہاں مزاحمتی محاذ نے اسرائیلی افواج اور حکومت کو سخت دباؤ میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یمن کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں اٹھائے گئے اقدامات بھی خطے کی سیاست کو نئے رخ دے رہے ہیں۔

انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ عالمی سطح پر ہونے والے مظالم کے خلاف اپنی آگاہی بڑھائیں اور انسانیت و انصاف کے اصولوں پر مبنی موقف کو عام کریں۔ ڈاکٹر صابر ابو مریم نے فلسطینی عوام کی قربانیوں اور مزاحمتی تحریک کے حوصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ مظلوم اقوام کے لیے امید کی علامت ہے۔ اپنے خطاب کے بعد طلبہ نے سوالات بھی کئے، جن کا ڈاکٹر صابر ابومریم نے تفصیل سے جواب دیا۔ تقریب کا اختتام فلسطینی عوام کے حق میں دعا اور اظہارِ یکجہتی کے ساتھ ہوا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینی عوام ڈاکٹر صابر

پڑھیں:

موجودہ علاقائی اور عالمی مسائل کے بارے میں ایک اہم انٹرویو(2)

اسلام ٹائمز: رہبر معظم کے مشیر برائے بین الاقوامی امور نے تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج یمنیوں نے صیہونی حکومت اور امریکہ کو مایوس کر دیا ہے اور مستقبل میں شام کی مزاحمت بھی ابھرے گی اور اسرائیل کے منصوبوں کو پہلے سے زیادہ ناکام بنا دے گی۔ ولایتی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دشمن کے پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کے باوجود آج کی مزاحمت ماضی کی نسبت زیادہ مربوط اور طاقتور ہوگی اور خطے میں امریکی اور صیہونی منصوبوں کی روک تھام کرے گی۔ ڈاکٹر ولایتی کا کہنا تھا کہ ایران مزاحمت کا مرکز ہے اور مزاحمت کی حمایت واضح اور جرأت کے ساتھ کرتا ہے اور جلد ہی خطے کے تمام لوگ دیکھ لیں گے کہ علاقے کے عوام اور مزاحمت کے درمیان کتنا گہرا تعلق ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

انٹرویو کا دوسرا حصہ
حزب اللہ کا تخفیف اسلحہ ایک خواب ہے، جسکی تعبیر نہیں ملے گی
لبنان میں حالیہ پیش رفت کے بارے میں اس گفتگو کے ایک اور حصے میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے مشیر برائے بین الاقوامی امور نے لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے اس ملک کی حکومت کے ایک حصے کے سیاسی فیصلے پر(جو کہ امریکہ اور صیہونی حکومت کی رہنمائی میں انجام پا رہا ہے،) کہا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ لبنان میں بعض افراد نے اس طرح کی بحثیں کی ہیں، لیکن جس طرح کے لبنان مخالف منصوبے پہلے  کامیاب نہیں ہوئے تھے، اس بار بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچیں گے اور مزاحمتی قوتیں ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی۔ ولایتی نے تاکید کی ہے کہ ماضی میں جس وقت مزاحمت کے پاس وسائل اور طاقت کم تھی، وہ ان منصوبوں کو روک چکی ہے، اب تو اس کے پاس عوامی حمایت اور بہت زیادہ وسائل ہیں، ان شاء اللہ یہ بحثیں یقینی طور پر نتیجہ خیز نہیں ہوں گی۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ آج لبنان میں مزاحمت تمام لبنانیوں بشمول عیسائیوں، شیعوں، سنیوں وغیرہ کے درمیان مقبول ہے، کہا ہے کہ مزاحمت کا مطلب ہے لبنان کی عزت اور لبنان کی زندگی۔ لبنان کی سلامتی مزاحمت پر منحصر ہے۔ لبنانی عوام یہ نہیں بھولے کہ جب مزاحمت نہیں تھی، 1982ء کے آس پاس، اسرائیلیوں نے بیروت اور مضافات تک جنوب کی طرف پیش قدمی کی، لیکن آخرکار حزب اللہ کی مزاحمت کی وجہ سے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ ایران کے سابق وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ یہ سیاسی بحثیں ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ صیہونیوں نے امریکہ کی مدد سے شہید سید حسن نصراللہ جیسے عظیم لوگوں کو قتل کیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ حزب اللہ کمزور ہوگئی ہے، جبکہ حزب اللہ کا بہت طاقتور ادارہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔ حزب اللہ اب 1961ء اور 1962ء کے مقابلے میں بہت زیادہ مزاحمتی ہوچکی ہے۔ حزب اللہ اگر نہ ہوتی تو اسرائیلی لبنان پر وہی مصیبت لاتے جو فلسطین پر لائے ہیں۔ اس لیے حزب اللہ جس نے لبنان کی حفاظت کی ہے، خود کو ان امریکی منصوبوں سے بھی بچائے گی۔

ولایتی نے تاکید کی ہے کہ لبنانی عوام اور خطے کی اقوام کے لیے سوال یہ ہے کہ کیا لبنانی حکومت کو اپنے ملک اور عوام کی حفاظت کی کوئی فکر نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے منصوبے پیش کر رہی ہے۔؟ اگر حزب اللہ اپنے ہتھیار ڈال دے تو لبنانیوں کی جان، مال اور عزت کا دفاع کون کرے گا۔؟ کیا ماضی کے تجربات سے اس ملک کے سیاستدانوں نے سبق نہیں سیکھا۔ یہ بیان کرتے ہوئے کہ لبنان میں یہ عمل صرف امریکہ اور اسرائیل کی مرضی ہے، انہوں نے مزید کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمجھتے ہیں کہ وہ لبنان میں ایک اور جولانی کو اقتدار میں لاسکتے ہیں، لیکن یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا اور لبنان ہمیشہ کی طرح ثابت قدم رہے گا۔ بین الاقوامی امور میں رہبر معظم کے مشیر نے تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران یقینی طور پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے خلاف ہے، کیونکہ ایران نے ہمیشہ لبنانی قوم اور مزاحمت کی مدد کی ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔


ایران اور عراق حشد و شعبی کے تخفیف اسلحہ کے خلاف ہیں
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے مشیر ڈاکٹر ولایتی نے انٹرویو کے ایک اور حصے میں، عراق میں حشد الشعبی کے خلاف امریکہ  کی سازشوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ حشد الشعبی کسی ایک گروپ کی نمائندگی نہیں کرتی۔ ولایتی نے عراق کے سابق وزیراعظم جناب نوری المالکی کے ساتھ اپنی حالیہ ٹیلی فونک گفتگو کی طرف اشارہ کیا اور کہا، جناب نوری المالکی ایک بہادر شخص ہیں۔ انہوں نے اپنی حکومت کے دوران صدام کو سزائے موت سنائی اور MKO گروپ کو عراق سے نکال باہر کیا۔ ایک حالیہ ٹیلی فونک گفتگو میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور اسرائیل لبنان کے بعد عراق میں حشد الشعبی کو ختم کرنے کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ تاہم، مسٹر مالکی اور میں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اور عراق دونوں حشد الشعبی کو غیر مسلح کرنے کی مخالفت کریں گے اور اس کے خلاف کھڑے ہوں گے، خواہ وہ لبنان میں حزب اللہ کی تخفیف اسلحہ ہو یا عراق میں حشد الشعبی کو غیر مسلح کرنے کا اقدام ہو۔

انہوں نے مزید کہا: اگر حشد الشعبی نہ ہو تو امریکی عراق کو نگل جائیں گے، کیونکہ پاپولر حشد الشعبی عراق میں وہی کردار ادا کرتی ہے، جو حزب اللہ لبنان میں ادا کرتی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ لبنان میں حزب اللہ کی تخفیف اسلحے کو کیسے روکا جائے اور لبنان میں اندرونی محاذ آرائی کے لیے اسرائیلی اور امریکی منصوبوں کا مقابلہ کیسے ناکام کیا جائے، سپریم لیڈر کے بین الاقوامی امور کے مشیر نے کہا ہے کہ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ لبنانی دانشور ان لوگوں کے خلاف کھڑے ہوں، جو حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے اس منصوبے کی قیادت کر رہے ہیں۔ دوسری صورت میں مزاحمت اس کے خلاف کھڑی ہوگی اور ہم بھی مزاحمت کا ساتھ دیں گے۔ لبنانی دانشوروں کو اس غیر متعلقہ اور نقصان دہ منصوبے کو ناکام بنانا چاہیئے۔

ولایتی نے کہا ہے کہ لبنان شام جیسا نہیں ہے اور وہاں جولانی جیسے کو اقتدار میں نہیں لایا جا سکتا۔ میری رائے میں لبنان کے اندر ایسے دانشور موجود ہیں، جو اس کو روک سکتے ہیں۔ کیونکہ لبنانی عوام کی اکثریت جانتی ہے کہ داعش اور جولانی جیسے دہشت گردوں کے خلاف ان کی سلامتی، جان و مال اور عزت و آبرو کی محافظ صرف حزب اللہ ہے۔ شام کی قسمت اور ترقی ان کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ شام میں اب کیا ہو رہا ہے۔؟ شام میں بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا اور جولانی برسراقتدار آگیا، لیکن نتیجہ کیا نکلا۔؟ اسرائیل اس ملک کے خلاف ہر جرم کر رہا ہے اور شام کے ٹوٹنے کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ لبنانی عوام ان واقعات کو دیکھ رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کے پاس جو تحفظ ہے، وہ حزب اللہ کی موجودگی ہے۔

لبنان میں حزب اللہ کے خلاف صیہونی حکومت کے حالیہ حملوں کے بارے میں جو تخفیف اسلحہ کی سازش کے ساتھ ساتھ ہو رہے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ "موجودہ جنگ بندی اسرائیل کے مفاد میں ہے، اسرائیل نے بنیادی طور پر اس جنگ بندی کو استعمال کرتے ہوئے خود کو برقرار رکھا ہے، جبکہ جنگ بندی کو حزب اللہ کے دفاع میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیئے۔" اس گفتگو کے ایک اور حصے میں ولایتی نے یمنی مزاحمت کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یمن مزاحمت کے محور کے بیچ میں ایک روشن ستارہ ہے، جسے خدا نے مزاحمت کی مدد کے لیے بھیجا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ "یمن کے لوگ نہ صرف علاقے میں مزاحمتی بلاک کی مدد کر رہے ہیں بلکہ ان کے پاس باب المندب بھی ہے اور وہ آبنائے باب المندب میں اپنے اہداف کو میزائلوں سے نشانہ بناکر امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور دیگر کے منصوبے کے خلاف کھڑے ہیں۔" امریکی طیارہ بردار بحری جہاز ہیری ٹرومین اس کی ایک مثال ہے، جسے درجنوں بار نشانہ بنایا گیا اور وہ بالآخر ٹرمپ کے حکم پر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا۔

رہبر معظم کے مشیر برائے بین الاقوامی امور نے تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج یمنیوں نے صیہونی حکومت اور امریکہ کو مایوس کر دیا ہے اور مستقبل میں شام کی مزاحمت بھی ابھرے گی اور اسرائیل کے منصوبوں کو پہلے سے زیادہ ناکام بنا دے گی۔ ولایتی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دشمن کے پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کے باوجود آج کی مزاحمت ماضی کی نسبت زیادہ مربوط اور طاقتور ہوگی اور خطے میں امریکی اور صیہونی منصوبوں کی روک تھام کرے گی۔ ڈاکٹر ولایتی کا کہنا تھا کہ ایران مزاحمت کا مرکز ہے اور مزاحمت کی حمایت واضح اور جرأت کے ساتھ کرتا ہے اور جلد ہی خطے کے تمام لوگ دیکھ لیں گے کہ علاقے کے عوام اور مزاحمت کے درمیان کتنا گہرا تعلق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پورا فلسطین، فلسطینی عوام ہے اسرائیل کا غزہ میں قبضے کے منصوبہ قابل مذمت ہے، حاجی حنیف طیب
  • رہنما خالصتان تحریک کی آپریشن سندور کے حقائق منظر عام پر لانے والی پاکستانی کتاب کی حمایت
  • موجودہ علاقائی اور عالمی مسائل کے بارے میں ایک اہم انٹرویو(2)
  • بلوچستان کی ترقی و خوشحالی اور عوام کی فلاح و بہبود اولین ترجیح ہے ، وہاں کے نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں،وزیر اعظم محمد شہباز شریف
  • یوکرائنی صدر کا بیان مسترد، اسرائیلی توسیع پسندانہ اقدامات خطے کیلئے کشیدگی کا باعث: پاکستان
  • اسرائیل خطرناک اقدامات فوری طور پر بند کرے، چینی وزارت خارجہ
  • شہباز شریف کا اسرائیلی کابینہ کے فیصلے پر اہم بیان سامنے آگیا
  • وزیراعظم کی ہدایت پر فلسطین کے مظلوم شہریوں کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، عطاتارڑ
  • وزیراعظم شہباز شریف کی غزہ پر غیرقانونی قبضے کے اسرائیلی فیصلے کی شدید مذمت، آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے غیر متزلزل حمایت کا اعادہ
  • اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات خطے کو کشیدگی کی طرف لے جائیں گے: دفتر خارجہ