اضافی چارجز کیخلاف احتجاج پر پارک ویو سٹی انتطامیہ کی طرف سے مبینہ طور پر مظاہرین پر تشدد
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پوش علاقے پارک ویو سٹی میں رہائشیوں نے اچانک عائد کیے گئے بھاری ‘ہیڈن چارجز’ کے خلاف احتجاج کیا، جس پر مبینہ طور پر پارک ویو انتظامیہ نے اپنے مبینہ غنڈوں کے ذریعے مظاہرین پر بدترین تشدد کیا۔
ذرائع کے مطابق رہائشیوں کو غیر اعلانیہ طور پر ہزاروں روپے کے اضافی چارجز کے نوٹس جاری کیے گئے تھے، جس پر علاقہ مکین سراپا احتجاج ہو گئے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان چارجز کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی، اور نہ ہی ان کے متعلقہ معاہدے میں کوئی ذکر موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کیا بحریہ ٹاؤن کےلیے زمینوں پر قبضہ میں قائم علی شاہ اور شرجیل میمن نے ملک ریاض کا ساتھ دیا؟
احتجاج کرنے والے رہائشیوں نے جب انتظامیہ کے دفتر کے باہر جمع ہو کر پُرامن احتجاج کیا، تو پارک ویو انتظامیہ نے مبینہ طور پر غنڈوں کو بلا کر نہ صرف مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی، بلکہ کئی افراد کو زدوکوب بھی کیا گیا۔
متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ پارک ویو سٹی کی پشت پر وفاقی وزیر علیم خان ہیں اور وہ مبینہ طور پر قبضہ مافیا کے ساتھ مل کر اس ہاؤسنگ سوسائٹی کو چلا رہے ہیں۔ رہائشیوں نے چیف جسٹس، وزیر اعظم اور چیئرمین سی ڈی اے سے نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
اس واقعے پر سوسائٹی انتظامیہ کی جانب سے تاحال کوئی باقاعدہ مؤقف سامنے نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیے: خیبرپختونخوا: 90 فیصد ہاؤسنگ سوسائٹیز غیرقانونی، عوام دھوکا نہ کھائیں، محکمہ بلدیات
سوشل میڈیا پر پارک ویو انتظامیہ کے خلاف ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں، جہاں شہریوں نے انتظامیہ کے خلاف سخت ردِعمل دیا ہے اور حکام سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پارک ویو سٹی ریئل اسٹیٹ انتظامیہ ہاؤسنگ سوسائٹی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پارک ویو سٹی ریئل اسٹیٹ انتظامیہ ہاؤسنگ سوسائٹی پارک ویو سٹی
پڑھیں:
کینیا: حکومت مخالف مظاہروں میں 8 افراد ہلاک، 400 سے زائد زخمی
کینیا میں حکومت مخالف ملک گیر مظاہروں کے دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہوگئے۔ یہ مظاہرے پچھلے سال 60 سے زیادہ افراد کی ہلاکت والے ٹیکس بل کے خلاف احتجاج کی برسی کے موقع پر کیے گئے۔
کینیا کے سرکاری انسانی حقوق کمیشن (KNCHR) کے مطابق ہلاک شدگان میں سے تمام کو مبینہ طور پر گولی مار کر قتل کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا کہ زخمیوں میں مظاہرین، پولیس اہلکار اور صحافی بھی شامل ہیں۔
مقامی میڈیا اور رائٹرز کے عینی شاہد کے مطابق پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔ بعض مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
کینیا کے مرکزی اسپتال کینیاٹا نیشنل ہسپتال میں 100 سے زائد زخمیوں کو لایا گیا جن میں سے اکثریت کو گولیاں یا ربر کی گولیاں لگنے کے زخم تھے۔ اسپتال انتظامیہ نے البتہ ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کی۔
مظاہرین کا ایک بڑا گروہ صدر کی سرکاری رہائش گاہ اسٹیٹ ہاؤس کی جانب بڑھا، جسے ٹی وی چینل NTV نے لائیو نشر کیا۔ تاہم کینیا کے نشریاتی ادارے نے ان چینلز کو براہِ راست کوریج سے روک دیا، جس پر عدالت نے پابندی کو معطل کر دیا۔
حالیہ مظاہرے ایک بلاگر البرٹ اوجوانگ کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد شدت اختیار کر گئے، جن کی موت نے سیکیورٹی اداروں کے خلاف عوامی غم و غصے کو مزید بھڑکا دیا۔
پولیس پر زیادتی، گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں۔ البرٹ اوجوانگ کے قتل پر 3 پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد پر قتل کا مقدمہ درج ہے، تاہم وہ قصوروار نہ ہونے کی استدعا کر چکے ہیں۔