ٹرمپ کی طرف سے سیز فائر کا اعلان حیران کن ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
سچن پائلٹ نے کہا کہ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ امریکہ کے صدر نے سوشل میڈیا پر سیز فائر کا اعلان کیا ہے، جبکہ اس سے پہلے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ یہ انکا مسئلہ نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کے سینیئر لیڈر اور جنرل سکریٹری سچن پائلٹ نے کہا کہ حالیہ واقعات میں غیر معمولی تیزی آئی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سوشل میڈیا پر سیز فائر کا اعلان دنیا بھر کے لئے حیرت کا سبب بنا۔ سچن پائلٹ نے کہا کہ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ امریکہ کے صدر نے سوشل میڈیا پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہے، جبکہ اس سے پہلے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ تاہم صرف دو دن بعد امریکی صدر نائب صدر اور وزیر خارجہ نے یکے بعد دیگرے جنگ بندی کی بات کی اور بعد ازاں پاکستان اور ہندوستان کی طرف سے بھی اس کی تصدیق کر دی گئی۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ یہ معاملہ داخلی نوعیت کا ہے اور اسے بین الاقوامی رنگ دینا قابلِ قبول نہیں۔ اگر امریکہ کے کسی بیان میں کشمیر کا ذکر آتا ہے، تو یہ انتہائی حساس اور تشویشناک بات ہے۔ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ یہ ہزاروں سال پرانا مسئلہ ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ہند کو ابھی 76 سال ہی ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے اس طرح کی مداخلت اور ثالثی کا اشارہ اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعے کو دوبارہ عالمی مسئلہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا اس ثالثی کو ہندوستان نے قبول کیا اور اگر کیا تو کن شرائط پر۔ سچن پائلٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پہلگام حملے اور اس کے بعد کی صورتحال پر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلایا جائے تاکہ ملک متحد ہو کر اپنا مؤقف عالمی برادری کے سامنے پیش کرے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 1994ء میں کانگریس حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں پی او کے کو واپس لینے کی بات کی گئی تھی اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس قرارداد کو دہرا کر دنیا کو واضح پیغام دیں۔
سچن پائلٹ نے کہا کہ کانگریس ان شہریوں کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کرتی ہے جو سرحد کے قریب شیلنگ یا دہشت گردانہ حملوں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی فوج کی بہادری کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے، جس نے ہر موقع پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک کا دفاع کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیئے، کیونکہ ہر پارٹی نے اختلافات بھلا کر حکومت کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں مکمل حمایت دی تھی۔ انہوں نے زور دیا کہ اس بار جب آل پارٹی میٹنگ بلائی جائے تو وزیراعظم کو خود موجود ہونا چاہیئے تاکہ تمام فریقوں کو اعتماد میں لیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے فوری بعد بھی پاکستان کی طرف سے مسلسل سیز فائر کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں، جس سے اس اعلان کی ساکھ مشکوک ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنگ بندی کے باوجود فائرنگ جاری رہی تو پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ مستقبل میں ایسی خلاف ورزیاں نہیں ہوں گی۔ سچن پائلٹ نے کہا کہ پاکستان کا سیاسی اور فوجی ڈھانچہ ہندوستان سے بالکل مختلف ہے، اس لئے اس طرح کے جنگ بندی معاہدوں پر اعتماد کرنا مشکل ہے جب تک کہ واضح ضمانتیں نہ دی جائیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان تمام سوالات کے جواب دے اور واضح کرے کہ کیا واقعی کسی بین الاقوامی دباؤ یا ثالثی کے تحت جنگ بندی کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب تک ہماری گزشتہ کئی دہائیوں کی جو خارجہ پالیسی تھی، وہ بالکل واضح تھی۔ اس میں ثالثی، مذاکرات یا کسی تیسرے فریق کی شمولیت کی کوئی گنجائش نہیں تھی، چاہے وزیر اعظم کوئی بھی ہو یا حکومت کوئی بھی ہو لیکن امریکہ کے بیان کے بعد ان تمام باتوں پر سوال اٹھنا لازمی ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی لئے میں صرف اتنی اپیل کروں گا کہ حکومت کو فوری طور پر ایک آل پارٹی میٹنگ بلانی چاہیئے اور ہمارے فوجی جوانوں نے گزشتہ دنوں میں جو کارنامہ انجام دیا ہے، ہمیں اس پر بہت فخر ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ امریکہ کے کہا کہ یہ کی طرف سے حکومت کو کا اعلان سیز فائر
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ نے غزہ جنگ بندی کیلئے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کردیا
ٹرمپ انتظامیہ نے عرب رہنماؤں کے سامنے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کردیا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے رپورٹ کیا ہے کہ ایک سینئر انتظامی عہدیدار اور معاملے سے واقف علاقائی ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے منگل کو عرب رہنماؤں کے سامنے غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لیے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا، جس کے نتیجے میں رہنماؤں کے درمیان اس بات پر تبادلۂ خیال ہوا کہ حتمی تجاویز پر کس طرح اتفاق کیا جائے جو ممکنہ طور پر اس تنازع کو ختم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
بدھ کے روز امریکا کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا تھا کہ آئندہ دنوں میں ’ کسی نہ کسی قسم کی پیش رفت’ ہو گی لیکن انہوں نے تفصیلات نہیں بتائیں۔
اسٹیو وٹکوف نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی وفد اور عرب رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد کہا کہ’ ہمارا اجلاس بہت نتیجہ خیز رہا’ ۔
اسٹیو وٹکوف نے نیویارک میں کونکورڈیا سمٹ کے دوران کہا کہ’ ہم نے جو پیش کیا اسے ہم مشرقِ وسطیٰ میں، غزہ میں، ٹرمپ 21 نکاتی امن منصوبہ کہتے ہیں۔’
انہوں نے مزید کہا کہ’ میرے خیال میں امن منصوبے میں اسرائیل اور خطے کے تمام پڑوسیوں کے خدشات دونوں کو مدنظر رکھا گیا ہے، اور ہم پرامید ہیں، بلکہ مجھے کہنا چاہیے پراعتماد ہیں، کہ آئندہ دنوں میں ہم کسی نہ کسی قسم کی پیش رفت کا اعلان کر سکیں گے۔’
امریکی انتظامیہ کے اس منصوبے میں کئی نکات شامل تھے جن کا پہلے بھی عوامی سطح پر ذکر کیا جا چکا ہے، جیسے تمام یرغمالیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی، ایک الگ ذریعے کے مطابق اس منصوبے میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ غزہ میں حماس کے بغیر حکومت قائم کرنے کا فریم ورک بنایا جائے اور اسرائیل بتدریج غزہ کی پٹی سے انخلا کرے۔
دو علاقائی سفارت کاروں کے مطابق علاقائی رہنماؤں نے ٹرمپ کے منصوبے کے بڑے حصے کی توثیق کی لیکن کچھ تجاویز بھی دیں جنہیں وہ کسی حتمی منصوبے میں شامل کرنا چاہتے ہیں، ان میں شامل نکات یہ تھے کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کا انضمام نہ ہونا، یروشلم کی موجودہ حیثیت برقرار رکھنا، غزہ کی جنگ ختم کرنا اور حماس کی تحویل میں موجود تمام یرغمالیوں کی رہائی، غزہ میں انسانی امداد میں اضافہ اور اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کا حل نکالنا۔
ایک سفارت کار نے کہا کہ’ یہ اجلاس بہت مفید رہا’ اور وضاحت کی کہ اس میں تفصیلات پر بھی بات ہوئی۔
یہ نئی پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے دوحہ میں حماس کی لیڈرشپ کو نشانہ بنانے کے لیے بمباری کی تھی جس کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کے ذریعے جاری تمام مذاکرات رک گئے تھے، اس حملے کے بعد خطے کے دورے میں وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مذاکراتی تصفیے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ وقت ختم ہو رہا ہے۔’
قطریوں نے اس ہفتے ٹرمپ سے ملاقات میں یہ پیشکش کی کہ وہ ثالثی کا کردار جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ انہیں یقین دہانی کرائی جائے کہ اسرائیل آئندہ ان کے ملک پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔
رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ جاری کوششوں پر مزید بات کرنے کے لیے دوبارہ ملاقات کریں گے، اور یہ ملاقات بدھ کے روز مارکو روبیو کے ساتھ ہوئی، مارکو روبیو نے اس ملاقات کے آغاز میں کہا کہ ’ غزہ اور فلسطینی عوام کے مستقبل کے حوالے سے اس وقت بھی بہت اہم کام جاری ہے۔’
یورپی حکومتوں کو بھی ٹرمپ انتظامیہ کے پیش کردہ منصوبے کا خلاصہ فراہم کیا گیا اور دو یورپی سفارت کاروں نے سی این این کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تنازع ختم کرنے کی ایک نئی سنجیدہ کوشش ہے۔
ایک افسر نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے مزید انضمام سے روک سکتا ہے، اور ایسا قدم معاہدہ ابراہیم کے پھیلاؤ کو تقریباً ناممکن بنا دے گا، جو ٹرمپ انتظامیہ کا ایک مقصد ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ منصوبہ سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والی دو ریاستی حل پر ایک کانفرنس کے موقع پر خلیجی شراکت داروں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
امریکا نے اس کانفرنس کا اس بنیاد پر بائیکاٹ کیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا حماس کو انعام دینے کے مترادف ہوگا۔