Jang News:
2025-09-27@07:53:16 GMT

تینوں بہنوں کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہوگئی

اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT

تینوں بہنوں کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہوگئی

—فائل فوٹو

بانیٔ پی ٹی آئی عمران خان سے ان کی تینوں بہنوں کی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ملاقات ہوگئی۔

بانیٔ پی ٹی آئی سے علیمہ خان، نورین خان اور عظمیٰ خان نے ملاقات کی۔

واضح رہے کہ آج پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی ) کے بانی عمران خان کی تینوں بہنوں کو ان سے ملاقات کی اجازت مل گئی تھی۔

بانیٔ پی ٹی آئی کی تینوں بہنوں کو بھائی سے ملاقات کی اجازت مل گئی

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی ) کے بانی عمران خان کی تینوں بہنوں کو ان سے ملاقات کی اجازت مل گئی۔

اڈیالہ جیل انتظامیہ نے علیمہ خان، نورین خان اور عظمیٰ خان کو ملاقات کےلیے پیغام بھجوایا تھا جس کے بعد وہ اپنے بھائی سے ملنے اڈیالہ جیل پہنچی تھیں۔

بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر اور ظہیر عباس چوہدری بھی ملاقات کی اجازت ملنے کے بعد جیل کے اندر گئے تھے۔

بشریٰ بی بی کی بھابی مہرالنساء کو بھی ان سے ملاقات کی اجازت ملی تھی۔

اس موقع پر اڈیالہ جیل کے اطراف سیکیورٹی بہت سخت اور پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی، جیل آنے جانے والے راستوں پر پولیس نے ناکے لگا دیے تھے۔

پولیس نے ناکے داہگل اور گورکھپور کے مقام پر لگائے اور جیل کی طرف جانے والی گاڑیوں کو چیکنگ کے بعد جانے دیا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: سے ملاقات کی اجازت کی تینوں بہنوں اڈیالہ جیل پی ٹی ا ئی

پڑھیں:

پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: کیا افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر گرفت کمزور ہوگئی؟

19 اپریل کو پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کے دورہِ کابل اور اُس کے بعد مئی اور اگست میں پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے بعد یہ اُمید تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان دہشتگردی کے حوالے سے تحفظات دور کیے جائیں گے اور تعلقات آگے بڑھیں گے، جس سے خطّے میں استحکام اور سکیورٹی صورتحال میں بہتری آئے گی۔

افغان سرزمین سے حملے اور پاکستانی ردِ عمل

لیکن افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کی مسلسل دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان نے 27 اگست کو افغانستان میں موجود دہشتگرد ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جس کے بعد کابل میں پاکستانی سفیر کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:20 سال مزید جنگ کے لیے تیار ہیں، بگرام ایئربیس دوبارہ حاصل کرنے کی امریکی دھمکیوں پر طالبان کا ردعمل

دوسری طرف 17 ستمبر کو پاکستانی دفترِ خارجہ نے افغان سفیر احمد شکیب کو دفترِ خارجہ طلب کیا اور تحریکِ طالبانِ پاکستان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ پاکستان نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف سخت ایکشن لے۔

علاقائی عدم استحکام اور بین الاقوامی خدشات

صدر ٹرمپ کے بگرام ائربیس پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بیان نے بھی خطّے میں سیکیورٹی صورتحال کو عدم استحکام سے دوچار کیا ہے، لیکن پاکستان کا مسئلہ ٹی ٹی پی ہے جو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشتگرد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کو افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں آپریشن کی ضرورت درپیش ہے۔

اقوامِ متحدہ میں تنبیہ اور مطالبہ

18 ستمبر کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل کو خبردار کیا کہ افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانے پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرناک ہیں اور یہاں موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف بین الاقوامی طور پر ایکشن لیا جانا چاہیے۔

پاکستان کا مؤقف اور مسئلے کی نوعیت

پاکستانی دفترِ خارجہ اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں صحافیوں کو بتاتا ہے کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتے ہیں۔

ہم افغانستان کے ساتھ نارمل تعلقات چاہتے ہیں اور تجارت بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ ہمارا مسئلہ صرف تحریکِ طالبانِ پاکستان کے محفوظ ٹھکانے اور وہاں سے پاکستانی سرزمین پر دہشتگرد حملے ہیں۔

افغان طالبان کا کنٹرول اور متفرق گروہ

مبصرین کے مطابق ساری صورتحال کا خلاصہ یہ ہے کہ افغان طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں رکھتے؛ مختلف دہشت گرد گروہ افغانستان کے مختلف علاقوں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:طالبان نے بگرام ایئر بیس واپس لینے کے امریکی امکان کو سختی سے مسترد کردیا

اس کے ساتھ ساتھ بیرونی خفیہ ایجنسیوں کا کھیل دہشت گردی کی صورتحال کو مزید خراب کر رہا ہے۔

بھارت کی ممکنہ مداخلت

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوامِ متحدہ میں سابق مستقل مندوب ایمبیسڈر مسعود خان نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تعلقات کی خرابی میں بھارت کا ہاتھ ہے۔

ان کے بقول یہ شواہد پر مبنی بات کی جا سکتی ہے کہ بھارت افغانستان میں طالبان کے دھڑوں کے بیچ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کر رہا ہے اور طالبان کو پاکستان کے خلاف بدگمان کرتا رہتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا بڑا نیٹ ورک کارفرما ہے۔

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوامِ متحدہ میں سابق مستقل مندوب ایمبیسڈر مسعود خان۔

مسعود خان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں جہاں سے انہیں اسلحہ اور تربیت ملتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں دہشتگردی کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوتی ہے۔

ایمبیسڈر مسعود خان نے کہا کہ افغانستان میں داعش بھی موجود ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔ ان کے مطابق بی ایل اے بھی وہاں سے سرحد پار کر کے پاکستان پر حملے کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی میں سی ٹی ڈی کی بڑی کارروائی، القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے 5 شدت پسند گرفتار

پاکستان اور امریکا کے درمیان دوطرفہ مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اس ساری صورتحال میں افغان قیادت کو پہل کرنی چاہیے۔

نظریاتی تعلق اور خفیہ ایجنسیوں کا کردار

ایمبیسڈر مسعود خان نے کہا کہ افغان طالبان اور تحریکِ طالبانِ پاکستان کے درمیان نظریاتی تعلق موجود ہے اور اس ملک میں بہت سی خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔

طالبان کا پورے ملک پر مؤقف نہیں، حماد حسن

سینئر صحافی حماد حسن نے وی نیوز کو بتایا کہ افغان طالبان کا اختیار عملی طور پر کابل تک محدود ہے۔ افغانستان میں نہ تو کوئی مستحکم سیاسی حکومت ہے اور نہ ہی جمہوری طرز حکومت، وہاں قبائلی نوعیت کے سردار اور وار لارڈز کا رجحان ہے۔

ان کے مطابق اس وقت افغانستان میں تقریباً 60 دہشتگرد گروہ کام کر رہے ہیں، جن میں جماعت الاحرار، حافظ گل بہادر گروپ، ٹی ٹی پی، آئی ایس خراسان وغیرہ شامل ہیں۔

سینئر صحافی حماد حسن

مختلف علاقوں میں مختلف گروہوں کا غلبہ ہے، جیسے کنڑ میں طالبان، ننگرہار میں داعش، پکتیا اور پکتیکا میں ٹی ٹی پی، خوست میں حافظ گل بہادر وغیرہ۔ لہٰذا طالبان جو کہتے ہیں وہ پورے افغانستان کی رائے نہیں سمجھا جا سکتا۔

بیرونی مداخلت اور محفوظ ٹھکانے

حماد حسن نے بیرونی مداخلت کے بارے میں کہا کہ افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے اور جنگ زدہ ممالک میں بیرونی ایجنسیاں اپنے مفادات کے لیے کام کرتی ہیں۔

بیرونی ایجنسیاں اپنی پراکسیز کو متحرک کر دیتی ہیں۔ انہوں نے مثال کے طور پر کہا کہ داعش کے اہم لیڈر سیف العدل اس وقت افغانستان میں موجود ہیں اور ان کے بارے میں سوال اٹھتا ہے کہ انہیں کس نے یا کن صلاحیتوں نے وہاں محفوظ ٹھکانے فراہم کیے۔

بین الاقوامی یکجہتی کی ضرورت

حماد حسن کا مؤقف یہ ہے کہ جب تک تمام ممالک دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ موقف اختیار نہیں کریں گے، پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان امریکا ٹی ٹی پی حماد حسن دہشتگرد طالبان کابل مسعود خان

متعلقہ مضامین

  • دادو میں 3 بہنیں سیلابی پانی میں ڈوب کر جاں بحق  
  • پاکستان میں سونے کی قیمت آج مزید کم ہوگئی
  • کراچی: کورنگی کراسنگ سے ملنے والی بچے کی لاش کی شناخت ہوگئی
  • فیملی ولاگنگ میں ماں بہنوں کو بلاوجہ دکھانا غلط ہے؛ شکیل صدیقی کی شدید تنقید
  • میو ہسپتال سے نامعلوم خاتون 2 روز کی بچی اغوا کرکے فرار 
  • سونے کی قیمت میں ہزاروں روپے کی کمی
  • جی ایچ کیو حملہ کیس؛ عدالت نے دو وکلاء کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دیدی
  • آن لائن گیم کھیلتے والدہ، بھائی، 2 بہنوں کے قاتل کو 100 سال قید کی سزا سنادی گئی
  • لاہور: پب جی گیم کھیلتے ہوئے والدہ، بھائی اور 2 بہنوں کو قتل کرنے والے مجرم کو 100 سال قید کی سزا
  • پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: کیا افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر گرفت کمزور ہوگئی؟