پی ٹی آئی غائب نہیں ہوئی یہ حکومت کی بیان بازی ہے، فیصل چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
رہنما تحریک انصاف فیصل چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ جو گفتگو کی جا رہی ہے خاص کر وزیراطلاعات پنجاب کی غیر ذمے دارانہ گفتگو ہے، اس ماحول میں اس ساری چیز کا میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا کیوںکہ ماحول کو یکجہتی کا ماحول رہنے دیا جائے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نواز شریف کی بدقسمتی کی بات ہے، ہم نے آپ کے شوز میں بھی بات کی کہ وہ جب موقع تھا کہ تو تب تو وہ کچھ نہیں کر سکے، پی ٹی آئی غائب نہیں ہوئی یہ حکومت کی بیان بازی ہے۔
رہنما مسلم لیگ(ن) افنان اللہ خان نے کہا کہ یہ ایک عجیب اتفاق ہے اس ملک کے اندر کہ جب بھی اس ملک میں کوئی بڑا کام ہوا ہے تو نواز شریف اس کا لیڈر تھا یا وزیراعظم تھا، ہم کسی سے کسی کا کریڈٹ نہیں لے رہے مگر آپ پولیٹیکل لیڈر شپ کا کریڈٹ بھی کسی کو نہیں دے سکتے، نواز شریف جو ہیں وہ اس کے ہیڈ ہیں جو بھی سسٹم ہے اس وقت ملک کے اندر،تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے، میاں صاحب وہاں تھے انھوں نے اپنے تعلقات استعمال کیے، جہاں جہاں ڈپلومیسی میں وہ اپنی ان پٹ دے سکتے تھے انھوں نے دی،انھوں نے اسٹریٹیجی کے اندر اپنی ان پٹ دی، ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف بیانوں سے اوپر جا چکے ہیں۔
ریٹائرڈ ایئر مارشل ارشد ملک نے کہا کہ مودی کی ، مودی جنتا کی اور مودی کے جتنے حواری ہیں اور ان کا جو فاشسٹ نظریہ ہے یا بی جے پی کا جو نظریہ ہے اس میں ہمیں کوئی دو رائے نہیں رکھنی چاہییں، مودی اور اس کے لوگ آج نہیں کئی عرصے سے اسی طرح کا ایک راگ الاپ رہے تھے، بدقسمتی یہ ہے کہ وہ یہ راگ صرف مسمانوں کے خلاف یا پاکستان کے خلاف نہیں الاپ رہے تھے بلکہ ان کو جہاں بھی موقع ملا انھوں نے گندی ذہنیت کا مظاہرہ کیا، ان کا نظریہ جو ہے وہ فاشسٹ نظریہ ہے، ان کا ہندوتوا کا جو نظریہ ہے وہ صرف اور صرف انارکی پھیلانے کا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نواز شریف انھوں نے نظریہ ہے
پڑھیں:
بہار الیکشن ۔ہندوتوا نظریہ کی جیت ۔مقبوضہ کشمیر میں انتقامی کارروائیاں
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
دہلی دھماکے مودی کی مکاری اور گھناونی سازش بہار کے الیکشن جیتنے کے لیے تھی جس میں وہ کامیاب بھی ہو گیا ہے ۔بہار میں مودی ہندوتوا نظریہ جیت گیا اب بھارت میں کامیابی کا بیانیہ ہندوتوا نظریہ، پاکستان مخالفت ، فالس فلیگ آپریشن اور مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم ڈھانا اور نہتے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلنا۔
برق گرتی ہے بیچارے کشمیریوں پر
بھارت نے اس واقعے کو بہانے کے طور پر مقبوضہ کشمیر میں انتقامی کارروائیوں کی نئی لہر شروع کر دی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق، گزشتہ چند دنوں میں وادی کے مختلف علاقوں میں بھارتی فورسز نے 30سے زائد مقامات پر چھاپے مارے ، مکان منہدم کیے اور متعدد افراد کو گرفتار کیا۔ یہ کارروائیاں نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ کشمیری عوام کی زندگی اور امن کو بھی شدید خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں یہ انتقامی اقدامات کسی نئے مسئلے کی علامت نہیں بلکہ دہائیوں سے جاری تشدد اور ریاستی ظلم کا تسلسل ہے۔ دھماکے کے بعد فوری طور پر بھارتی فورسز کی جانب سے چھاپے ، گرفتاریاں اور املاک کی توڑ پھوڑ نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ وہاں انسانی زندگی اور بنیادی حقوق کی قدر نہ ہونے کے برابر ہے ۔ خاص طور پر، گھرانوں کی بنیاد پر قبضہ اور مکانوں کا منہدم ہونا ایک واضح انتقام کی حکمت عملی ہے ، جو مقامی آبادی میں خوف اور عدم تحفظ پیدا کرتی ہے ۔سرکاری ذرائع کے مطابق، مقبوضہ وادی میں یہ چھاپے صرف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے شواہد اکٹھا کرنے کے لیے کیے گئے ، لیکن مقامی افراد اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بیان کو مسترد کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، بیشتر گرفتاریاں اور چھاپے سیاسی بنیادوں پر کیے جا رہے ہیں، جس کا مقصد کشمیری عوام کو دبانا اور احتجاج کے حق کو محدود کرنا ہے ۔ رپورٹوں کے مطابق، جن علاقوں میں چھاپے مارے گئے ، وہاں نہ صرف رہائشی مکان متاثر ہوئے بلکہ دکانیں، تعلیمی ادارے اور دیگر سماجی ڈھانچے بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس صورتحال کو محدود اور یکطرفہ انداز میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس میں زیادہ تر دھماکے اور دہشت گردانہ حملوں پر زور دیا گیا، جبکہ وادی میں عام لوگوں پر ہونے والے حملوں اور گرفتاریوں کا ذکر بہت کم ہے ۔ اس طرح کی رپورٹنگ سے بین الاقوامی سطح پر صورتحال کا غلط تاثر پیدا ہوتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حقیقت چھپ جاتی ہے ۔ اعدادوشمار کے مطابق، گزشتہ دو ہفتوں میں بھارتی فورسز نے وادی کے مختلف شہروں میں کم از کم 30چھاپے مارے ، جن میں سے 12 مکان مکمل طور پر منہدم ہوئے ۔ 3,000سے زائد افراد کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا، جبکہ سیکڑوں گھروں میں رہائشیوں کو حفاظتی وجوہات کے نام پر نکلنے پر مجبور کیا گیا۔ مقامی تنظیمیں ان کارروائیوں کو ”انتقامی کارروائیوں کی واضح مثال ” قرار دے رہی ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اقدامات صرف امن قائم کرنے کے لیے نہیں بلکہ خوف پھیلانے اور مزاحمت کو دبا دینے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، اس قسم کی ریاستی کارروائیاں طویل المدتی اثرات رکھتی ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہوتا ہے ، تعلیم متاثر ہوتی ہے اور سماجی ڈھانچے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ اقتصادی نقصان بھی شدید ہے ، کیونکہ چھاپوں اور املاک کی تباہی کے بعد مقامی کاروبار مفلوج ہو جاتا ہے ، اور ہزاروں خاندان غربت کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، مقبوضہ کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی اس نوعیت کی کارروائیوں سے تقریبا 50,000 لوگ براہِ راست متاثر ہو چکے ہیں، جبکہ لاکھوں کی زندگی میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔
ان تمام مظالم کے باوجود کشمیری عوام اپنے صبر اور عزم کی مثال قائم کر رہے ہیں۔ مقامی تنظیمیں انسانی حقوق کی حفاظت، قانونی معاونت، اور بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں، اور بھارت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مقبوضہ وادی میں فوری طور پر غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنائے ۔یہ صورتحال نہ صرف مقامی عوام کے لیے خطرناک ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی امن اور استحکام کے لیے ایک چیلنج ہے۔ بھارت کی انتقامی کارروائیاں کشمیری عوام کی زندگی کو مسلسل خطرے میں ڈال رہی ہیں اور اس علاقے میں دیرپا امن کے قیام کو ناممکن
بنا رہی ہیں۔ اگر بین الاقوامی برادری خاموش رہتی ہے تو یہ تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی مزید بڑھ سکتی ہے ۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری انتقامی کارروائیاں صرف دہشت گردانہ حملوں کے ردعمل کے طور پر نہیں بلکہ ایک منظم حکمت عملی کے تحت شہریوں کے خوف اور دباؤ کے لیے کی جا رہی ہیں۔ مقامی عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے زیادہ سے زیادہ محفوظ اقدامات اختیار کریں، معلوماتی رابطے مضبوط کریں، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ تعاون جاری رکھیں۔ حکومت بھارت پر عالمی دباؤ ڈالنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی فوجی کارروائیوں کو محدود کرے اور مقامی شہریوں کی زندگی اور جائداد کی حفاظت کو یقینی بنائے ۔اس کے ساتھ ساتھ مقامی کمیونٹی اور بین الاقوامی ادارے مشترکہ طور پر کام کریں تاکہ متاثرہ افراد کو فوری امداد فراہم کی جا سکے ، تعلیمی اور معاشی نقصان کو کم کیا جا سکے ، اور کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت ممکن بنائی جا سکے ۔ سماجی سطح پر شعور اجاگر کرنے کے لیے میڈیا میں مستند رپورٹس شائع کرنا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے تعاون سے مظاہرین کو قانونی اور معاشرتی مدد فراہم کرنا ضروری ہے ۔ یہ اقدامات مقبوضہ کشمیر میں استحکام اور امن کی بحالی کے لیے ناگزیر ہیں۔
٭٭٭