مودی کے زوال کا وقت آن پہنچا ہے، 13 سالہ عروج کا سورج غروب ہو رہا ہے، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا سیاسی ستارہ جو گزشتہ 13، 14 برس سے عروج پر تھا، اب بتدریج زوال پذیر ہے۔
خواجہ آصف نے یہ بات ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہی، ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں حالیہ سیاسی فضا، معاشی دباؤ اور عالمی سطح پر تیزی سے بدلتے رجحانات اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ مودی کی قیادت کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ’وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا‘، خواجہ آصف کی ٹوئٹ پھر وائرل
انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کی پالیسیوں نے بھارت کو نہ صرف اندرونی خلفشار کی طرف دھکیلا، بلکہ پڑوسی ممالک سے تعلقات بھی بگاڑے۔ اب بھارتی عوام بھی سمجھنے لگے ہیں کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست کا وقت گزر چکا ہے۔
وزیر دفاع کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب بھارت میں عام انتخابات قریب ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کے خلاف مضبوط اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک بھارت جنگ خواجہ محمد آصف مودی وفاقی وزیر دفاع وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بھارت جنگ خواجہ محمد آصف وفاقی وزیر دفاع وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف وزیر دفاع
پڑھیں:
امت کا زوال اور پھر امید نو اور بیداری
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: کنتم خیر امۃ خرِجت لِلناسِ ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لئے پیدا کی گئی۔’’ (سورہ آل عمران 3:110)
یہ امت، جو اللہ کے آخری نبی محمد مصطفی ﷺ کے ذریعے قیامت تک کے لئے ہدایت کا مرکز بنائی گئی، آج دنیا کے منظرنامے پر کمزور، منتشر اور مغلوب نظر آتی ہے۔ مگر یہ وہی امت ہے جس نے آغاز میں ایمان، اخلاص، علم، فقر اور وحدت کے ہتھیار سے دنیا کی دو عظیم سلطنتوں روم و فارس کو شکست دی اور پھر دنیا کی رہنمائی اور حکمرانی کی شاندار مثالیں قائم کیں ۔ اسلام کا آغاز مدینہ کے چند مخلصین سے،رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ منورہ میں ہجرت فرمائی تو آپ کے ساتھ محض چند سو افراد تھے۔ ان کا ایمان خالص، دل پختہ، نیت سچی اور ارادے مضبوط تھے۔ نبی ﷺ نے ان کو تعلیم و تربیت سے لیس اور تزکیہ نفس سے اور تقویٰ سے مزین کیا، ان کے دلوں و اللہ کے ایمان و اخلاص اور محبت سے آراستہ کیا۔
اللہ تعالیٰ نے اس دور کو قرآن میں یوں بیان فرمایا اور وہ لوگ جو ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا(سورہ الانفال 8:72) یہی چند افراد، جب رسولِ خدا ﷺ کی تربیت میں رہے تو ان میں وہ روحانی قوت آ گئی کہ وقت کی سپر پاورز رومی سلطنت اور ساسانی سلطنت (فارس) ان کے سامنے پاش پاش ہو گئیں نہ ان کے پاس کثیر دولت تھی، نہ بڑی فوجیں، مگر وہ دلوں کے فاتح تھے، اور آسمان سے مدد یافتہ۔آج کا مسلمان تعداد میں کثیر، ایمان میں فقیر،آج دنیا میں مسلمان قوم کی تعداد دو ارب سے زائد ہے، ان کے پاس عظیم تیل کے ذخائر، فوجیں، ٹیکنالوجی، تعلیمی ادارے اور دولت ہے مگر ایمان کی وہ قوت، وہ اخلاص وہ سچائی اور وہ روحانی طاقت نہیں جو آغازِ اسلام کے چند صدق دل لوگوں کے پاس تھی۔
نبی کریم ﷺ نے اس دور کی خبر پہلے ہی دے دی تھی،
’’ایسا وقت آئے گا کہ قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔صحابہؓ نے عرض کیا، کیا ہم تعداد میں کم ہوں گے؟‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا، نہیں، بلکہ تم تعداد میں بہت ہوگے، لیکن تم میں وہن پیدا ہو جائے گا۔پوچھا گیا، ’’وہن کیا ہے؟‘‘ فرمایا، دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔(ابو دائود، حدیث 4297)
علم، حکمت اور روحانی سچائی کا زوال،وہ امت جس نے علم، فلسفہ، طب، فلکیات، ریاضی اور روحانیت کے میدان میں دنیا کو رہنمائی دی آج تعلیم سے دور، ٹکڑوں میں بٹی ہوئی اور فکری غلامی میں جکڑی ہوئی ہے۔قرآن علم کی طرف بلاتا ہے۔
کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ (سورہ الزمر 39:9) اور حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(ابن ماجہ، حدیث 224) روحِ محمدی ﷺ اور امت کی تجدید کی امید، نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ زوال کے بعد بھی عروج ممکن ہے شرط یہ ہے کہ ہم پھر سے صفا و اخلاص، علم و عمل، وحدت و تقویٰ کو اپنائیں۔قرآن فرماتا ہے ،اگر تم اللہ کی مدد کرو (یعنی اس کے دین کو مضبوط کرو) تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔ (سورہ محمد 47:7) نتیجہ، ایک نئی بیداری کی ضرورت امت محمدی ﷺ اس وقت تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے اس کے پاس ظاہری وسائل ہیں، مگر باطنی خالی پن ہے۔ضرورت ہے،سچے ایمان کی سادہ اور پاکیزہ زندگی کی علم و حکمت کی بازیافت کی اور پوری امت کے اتحاد کی اگر آج ہم اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات، قرآن کی روشنی اور سلفِ صالحین کی سادگی و اخلاص کو اپنا لیں تو پھر سے وہی عروج ممکن ہے جو بدر سے فتح مکہ اور پھر شام سے فارس اور ہند تک اور اندلس سے قسطنطنیہ تک دیکھا گیا۔آخری دعا،اے اللہ!ہمیں حضرت محمد ﷺ کی پھر سے امت واحدہ بنا دے۔ ہمیں باہمی اخوت اور محبت سے اسلام کے جھنڈے تلے جمع فرما اور ہمارے درمیان تفرقہ اور تقسیم کو ختم فرما۔ایمان اور روحانی قوت عطا فرما، اور ہمیں حق کا متحدہ لشکر بنا جو ایمان و تقویٰ سے ناقابلِ شکست ہو۔