عمران خان مذاکرات کے لیے راضی، گھر کو ٹھیک کرنا ضروری ہے!
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
اطلاع یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف عمران خان بآلاخر مذاکرات پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
اس حوالے سے گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان مذاکرات کے لیے راضی ہوگئے ہیں۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کی خاطر مذاکرات کے لیے تیار ہوں۔
میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انا کا مسئلہ بنانے والے پاکستان کو نقصان پہنچارہے ہیں،
ملک میں سیاسی استحکام نہ ہونے سے سرمایہ کاری نہیں آرہی، ہمیں ذات سے نکل کر ملک کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور پر اگرچہ خود پی ٹی آئی کے حلقوں کو بھی زیادہ اعتماد نہیں رہا اور اُنہیں عمران خان کی رہائی کے لیے چلائی جانے والی تمام تحریکوں کو ایک خاص نقطۂ اُبال پر لاکر ٹھنڈا کرنے اور پیچھے ہٹا کر حوصلوں کو شکستہ کرنے کے الزامات کا سامنا ہے تاہم اُنہوں نے یہ بات درست کہی ہے کہ ‘‘ انا کا مسئلہ بنانے والے پاکستان کو نقصان پہنچارہے ہیں، ملک میں سیاسی استحکام نہ ہونے سے سرمایہ کاری نہیں آرہی، ہمیں ذات سے نکل کر ملک کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے ’’ ۔
کم وبیش یہی اطلاع تحریک انصاف کے موجودہ چیئرمین اور مرنجان مرنج بیر سٹر گوہر نے بھی دی ہے۔ اُن کے حوالے سے ایک معاصر اخبار میں یہ اطلاع ایک ایسے نمائندے کے تبصرے کے ساتھ شائع ہوئی جو عمران مخالف جذبات کے ساتھ خبروں کو زاویہ بند کرنے کے ذمہ دار تصور کیے جاتے ہیں۔
اُنہوں نے بیرسٹر گوہر علی خان کے حوالے سے اپنی خبر میں واضح کیا ہے کہ ‘‘عمران خان نے پیر کے روز اڈیالہ میں ملاقات کیلئے آئے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کو مذاکرات کی اجازت دی۔ تاہم سابق وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ یہ مذاکرات ٹی وی کیمروں کی چکاچوند سے دور ہوں تاکہ بامعنی نتائج کو یقینی بنایا جا سکے ’’۔
علی امین گنڈاپور کے ساتھ بیرسٹر گوہر بھی اُن لوگوں میں شامل ہیں جنہیں خود اُن کی جماعت کے اندر نشانہ تنقید بنایا جاتا ہے، اور جنہیں انتہائی ‘‘اہم مواقع’’ پر خاموش رہنے اور اپنے کردار کو فعال نہ رکھنے پر موردِ الزام ٹہرایا جاتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو علی امین گنڈا پور، بیر سٹر گوہر دونوں ہی کی جانب سے یہ خبر جن حالات میں دی گئی ہے، وہ ایک بار پھر مخصوص حالات میں ایک سیاسی مشق اور ایک بار پھر گفتگو کا ڈول ڈال کر وقت گزاری کی ایک صورت ثابت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ کوششیں منظم طور پر ہوتی رہی ہیں اور اسے میڈیا کے مخصوص نمائندوں کی زاویہ بند خبروں سے بوقت ضرورت اعتبار دینے یا سبوتاژ کرنے کے دونوں کام لیے جاتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں معاصر اخبار میں ایک مخصوص ذہنیت کے ساتھ کام کرنے والے نمائندے کی خبر کا تناظر بھی یہی بنتا ہے۔ ظاہر ہے یہ بات چیت کی فضا وزیر اعظم شہباز شریف کے قومی اسمبلی سے حالیہ خطاب کے بعد اُبھری ہے ۔ قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران، وزیراعظم نے پی ٹی آئی کو قومی مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔ اُس وقت جہاں بیرسٹر گوہر علی خان نے تجویز کا خیر مقدم کیا تھا، وہیں پارٹی حلقوں نے واضح کر دیا تھا کہ عمران خان کی واضح رضامندی کے بغیر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت کی پاکستان کے خلاف جنگی مہم جوئی کے تناظر میں سیاسی مفاہمت کے مطالبات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔جنگ بندی کے باوجود بھارتی وزیراعظم کے خطاب میں‘‘نیو نارمل’’ کی جنگی اور پاکستان کی سرحدوں کا احترام نہ کرنے والی تعبیر نے پاکستان کے لیے ہمہ وقت جنگی خطرے کو ایک ‘‘نیا نارمل’’ بنا دیا ہے، جس میں چوبیس گھنٹے پلکیں جھپکائے بغیر وطن عزیز کا دفاع اب ناگزیر ہو گیا ہے۔ پاکستان کی شاندار فتح نے بھارت کے اوسان خطا کیے ہیں، وہیں بھارت کے اندر یہ شکست ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں ہورہی اور وہاں جارحیت کی مودی ڈاکٹرائن اور فالس فلیگ آپریشن کی اجیت ڈوال کی بغلی چھڑی سے پیٹھ پر وار کرنے کی مکروہ چالبازی پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔
چنانچہ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاک فوج اب اپنا کُل وقت سرحدوں کے تحفظ پر صرف کرے اور پاکستان کے اندر ایک مربوط سیاسی نظام کے ساتھ قومی ہم آہنگی کی خوشگوار فضا مستقل برقرار رہے۔
یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بھارت پہلے مرحلے میں اگر پاکستان کے خلاف سرحدی اور فضائی کھلے معرکے شروع نہیں بھی کرتا تو وہ اندرون ملک اپنی ‘‘پراکسیز ’’ سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی لانے کی کوشش کرے گا۔ پاکستان کے دو صوبے اس وقت مقامی افراد کی ناراضیوں کا شکار ہیں،اس فضا کو بھارت خوب خوب استعمال کر رہا ہے۔
یہ وقت بھی پاکستان پر آنا تھا کہ بھارت کے ساتھ معرکہ آرائی میں پاکستان کو ایک وفد کے ذریعے افغانستان جا کر یہ ‘‘تسلی ’’ حاصل کرنا پڑی کہ پاک بھارت زور آزمائی میں پاک افغان سرحد کسی خطرے کا باعث نہیں بنے گی۔
اس تناظر میں پاکستان کو اپنے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ آئندہ دنوں میں جتنے بڑے اور خطرناک محاذوں پر لڑنا ہے اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے اندر ایک ٹھوس سیاسی مفاہمت کی بنیاد ڈال دی جائے۔ اور عمران خان کے ساتھ مفاہمت کی حالیہ کوشش کو چند سیاست دانوں کے ذاتی مفادات اور ہوس اقتدار کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا جائے۔
ظاہر ہے کہ عمران خان کے ساتھ کسی بھی مفاہمت کی کوشش میں ایک خطرہ تو خود انتظامیہ کے بعض حصوں سے ہیں تو دوسری طرف عمران خان کی وسیع تر سیاسی حمایت سے خائف اُن حلقوں سے بھی ہیں جنہیں اصل میں ان مذاکرات کو کسی نتیجے تک پہنچا نا ہے اور خود اُنہیں ہی عمران خان کے ساتھ کسی بھی نتیجہ خیز مذاکرات کا ‘‘سیاسی نقصان’’ بھی پہنچنا ہے۔
پاکستان میں ایسے حکمران ابھی دکھائی نہیں دیتے جو اجتماعی مفادات میں اپنے قد سے بلند ہو کر سوچ سکیں ۔ جو عوامی جذبات کا خیال اپنے سیاسی مفادات کو تج کر رکھ سکیں۔ جو وقت کی آواز کو اپنے تعصبات کی مدہوشی میں سن سکیں۔ ان بدترین معروضی حقائق میں پاکستان میں جب بھی جس نے بھی اپنا حق حاصل کیا ہے یا کوئی سیاسی ہدف پایا ہے تو وہ کسی خوشگوار اُصولی یا قانونی طریقے سے اخلاقی چھتری تلے نہیں پایا۔
بلکہ یہ ایک ‘‘سازشی ماحول’’ میں درون خانہ مفادات کی کھچڑی پکا کر ہی ممکن ہو سکا ہے۔ بظاہر عمران خان نے اس پورے کھیل کو اُتھل پتھل کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی رہائی میں دلچسپی نہ لے کرپاکستان کے موجودہ سیاسی چال چلن میں ایک ‘‘حیرت’’ کا تاریخی اضافہ کیا ہے۔ تاہم یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ جنگی ماحول میں بھی اس سیاسی مفاہمت کی فضا کو پید اکرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا نہیں، یا پھر یہ سب ماضی کی طرح کھیلے گئے ایک مکروہ چال چکر کا عمل ثابت ہوتا ہے۔
یہ خدشہ اس لیے بے بنیاد نہیں ہے کہ عملاً پاکستان کا سیاسی، قانونی ، انتظامہ اور عدالتی ڈھانچہ ہر اعتبار سے مکمل طور پر قابو کر لیا گیا ہے۔ جس میں کسی بھی نظیر ، دلیل ، اپیل اور وکیل کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی۔ تمام فیصلے، پہلے سے طے شدہ طریقے سے ہر سطح پر ہو رہے ہیں۔ 26ویں ترمیم نے عدالتی ڈھانچے کو انتظامی دستبرد میں دے دیا ہے۔ اور انصاف کی دیوی کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب بھارت کے ساتھ ہم جنگ بندی کے باوجود جنگ آزما حالات سے دوچار ہیں، ایک مرتبہ پھر عمران خان کے خلاف سوشل میڈیا کو حرکت دے دی گئی ہے۔ اور ایک مرتبہ پھر پاکستان کی انتظامی مشنری کی سخت چکی حرکت میں آگئی ہے۔
اس کی تازہ مثال گزشتہ روز انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) لاہور سے سامنے آئی جہاں عدالت نے عمران خان کے فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ اور پولی گرافک ٹیسٹ کی اجازت دے دی۔ انسداد دہشت گردی عدالت لاہور کے جج منظر علی گل نے 9مئی جلاؤ گھیراؤ کے 12مقدمات میں عمران خان سے تفتیش کے معاملے پر کیس کی سماعت کی اور وکلا کے دلائل کے بعد پراسکیوشن کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
عدالت نے رات گئے فیصلہ سنا دیا۔ دنیا میں شاید ہی ایسے کسی پراسیکیوش کی مثال ملے جہاں ایک ملزم کی گرفتاری کو 7سو 29 دن ہوچکے ہو ،اور اب جاکر اس نوع کے ٹیسٹ کرائے جا رہے ہوں۔ یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ ہمارا نظام بدترین خطرات میں بھی ایک خاص ڈگر سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اگر دنیا کی مختلف قوموں کی تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو یہ سوال ہمیشہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بڑی بڑی سلطنتیں اپنے اوج اور عروج میں دشمن پر غلبہ پانے کے باوجود کیوں تباہ ہوتی رہیں۔
مورخین نے ہمیشہ نشاندہی کی کہ زوال کے تمام اسباب داخلی ہوتے ہیں۔ جو بیرونی خطرات میں بھی جوں کے توں رہتے ہیں۔ پاکستان نے اپنے دشمن پر وقتی فتح تو حاصل کر لی ہے۔ مگر آئندہ ماہ وسال میں مقبولیت کی یہ فضا برقرار نہیں رہ سکے گی یہ قانون فطرت ہے۔ پاکستان کے داخلی تضادات میں حکمرانوں کے خلاف پائی جانے والی ہمہ گیر نفرت اپنا راستہ ڈھونڈ لے گی۔
ایسی صورت میں پھر یہ دن تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔ اس لیے حکمرانوں کو موجودہ پاکستان کی فضا میں سیاسی مفاہمت کے امکانات کو مجسم کرنے پر فوری توجہ دینی چاہئے۔ اور عمران خان کے ساتھ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا چاہئے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: عمران خان کے ساتھ سیاسی مفاہمت بیرسٹر گوہر پاکستان کی پاکستان کو پاکستان کے میں سیاسی مفاہمت کی علی امین بھارت کے رہے ہیں میں ایک کی کوشش کے اندر کے خلاف کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
مودی حکومت پاکستان کیخلاف جارحیت کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 14 مئی 2025ء ) صدر مملکت آصف زرداری نے کہا ہے کہ مودی حکومت پاکستان کیخلاف جارحیت کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے، پوری قوم کسی بھی جارحیت سے نمٹنے کیلئے متحد ہے، پاکستان کی قومی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ میڈیا کے مطابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے سی ایم ایچ راولپنڈی کا دورہ کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن رضا نقوی، کمانڈر 10 کور اور ہسپتال کی انتظامیہ بھی صدر مملکت کے ہمراہ تھی۔ صدر مملکت نے بلااشتعال بھارتی حملوں میں زخمی ہونے والے پاک فوج کے جوانوں اور متاثرہ شہریوں کی عیادت کی۔ صدر مملکت نے زخمیوں سے فرداً فرداً ملاقات ، ان کی بہادری، قربانی اور حب الوطنی کو سراہا۔ صدر مملکت آصف زرداری نے کہا کہ ہمیں اپنے بہادر جوانوں کی قربانیوں پر فخر ہے، پوری قوم، اپنے سپاہیوں اور شہریوں کی قربانیوں کو سلام پیش کرتی ہے ، پاکستانی قوم نے دشمن کی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، بھارت کا رویہ جارحانہ، شدت پسندانہ اور علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے، ہندوتوانظریے سے پورے خطے کی سلامتی کو شدید خطرات ہیں۔(جاری ہے)
صدر مملکت نے کہا کہ مودی حکومت پاکستان کے خلاف جارحیت کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے، پاکستان کی خودمختاری اور قومی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے، پوری قوم کسی بھی جارحیت سے نمٹنے کیلئے متحد، پرعزم اور ہوشیار ہے، پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے، صدر مملکت نے ہسپتال کے ڈاکٹروں، طبی عملے، نرسنگ اسٹاف اور انتظامیہ کا زخمیوں کی دیکھ بھال پر شکریہ ادا کیا ۔ دوسری جانب وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریسں کے درمیان آج ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں جنوبی ایشیا کی صورتحال پر تبادلہء خیال کیا گیا۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ تیسرا ٹیلیفونک رابطہ تھا۔ وزیر اعظم نے جنوبی ایشیاء کی کشیدہ صورتحال کو کم کرنے کے لیے سیکرٹری جنرل کی قیادت اور سفارتی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل کی سفارت کاری اور رابطے، اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کے تحفظ کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیاء میں امن کے حوالے سے ان کی دلچسپی کا مظہر ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے خطے میں امن کے وسیع تر مفاد میں جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ وزیر اعظم نے پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا، ہر قیمت پر دفاع کرتے ہوئے، جنوبی ایشیاء میں امن کے فروغ کے لیے اپنے مضبوط عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم نے بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات اور جارحیت کی مذمت کی اور اسے ایک خطرناک مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو اس کا مناسب نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے بھارتی قیادت کے مسلسل اشتعال انگیز بیانات پر بھی تشویش کا اظہار کیا، جو کہ علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازع کا منصفانہ حل جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے، اور سیکرٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ اس کے منصفانہ حل میں اپنا کردار ادا کریں۔