بھارت کو یورپ سے سبق سیکھنا چاہیے
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
گزشتہ صدی نے انسانیت کو ایک تلخ اور خونی سبق دیا۔ دو عالمی جنگوں، لاتعداد علاقائی تنازعات، اور نظریاتی تصادمات نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یورپ، جو تہذیب و تمدن کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا، میدانِ جنگ بن گیا۔ انسانوں کے بدن ہی نہیں، بلکہ اقوام اور ممالک کے وجود پارہ پارہ ہو گئے۔ بستیاں اجڑ گئیں، نسلیں مٹ گئیں، اور امن صرف ایک خواب بن کر رہ گیا۔مگر جب ہر طرف تباہی کا اندھیرا چھا گیا، تب عقل نے کروٹ لی۔زندگی کے اصل مقاصد پر غور شروع ہوا۔ امن کی اہمیت کو سمجھا گیا۔ بین الاقوامی اصول و ضوابط مرتب کیے گئے تاکہ آئندہ نسلیں ویسی ہولناکی نہ دیکھیں جو ان کے آبائو اجداد نے دیکھی تھی۔ یہی سوچ تھی جس نے ’’لیگ آف نیشنز‘‘ اور بعد ازاں ’’اقوامِ متحدہ‘‘ جیسے اداروں کو جنم دیا۔ ان اداروں کا مقصد یہی تھا کہ اختلافات کو بات چیت اور سفارتی کوششوں سے حل کیا جائے، نہ کہ گولی اور بارود سے۔یورپ کی مثال سب سے روشن ہے۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ، اٹلی یہ وہ ممالک تھے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ لیکن انہوں نے ماضی کی تلخیوں کو پیچھے چھوڑ کر ’’یورپی یونین‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ایک مشترکہ کرنسی، آزادانہ سفر، اور باہمی انحصار پر مبنی معاشی نظام نے ان کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ آج ان کے درمیان جنگ کا تصور بھی محال ہے۔اب سوال یہ ہے: بھارت کب سیکھے گا؟پہلگام واقعے کے بعد جو جنگ چھڑی، اس نے ایک بار پھر یہ حقیقت عیاں کر دی کہ جنوبی ایشیا کے رہنما تاریخ کے ان سبقوں سے سبق نہیں سیکھ رہے جو یورپ نے بڑے خلوص اور قربانیوں سے سیکھے۔
پاکستان اور بھارت کبھی ایک ہی ملک کے دو حصے تھے۔ مختلف قومی نظریات کے باوجود دونوں کا تاریخی، ثقافتی، اور تہذیبی سرمایہ مشترک تھا۔ لیکن تقسیم کے بعد پیدا ہونے والے فاصلے وقت کے ساتھ کم ہونے کے بجائے مزید گہرے ہوتے چلے گئے۔ ان میں سب سے بڑا تنازعہ کشمیر ہے، جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ دنیا کی تسلیم شدہ قراردادوں کے باوجود بھارت اس دیرینہ مسئلے کو طاقت کے بل پر دبانا چاہتا ہے۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ، وہاں انسانی حقوق کی پامالی، اور کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کو مسلسل نظرانداز کرنا نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ خطے کے امن کے منہ پر طمانچہ ہے۔
بھارت نے نہ صرف کشمیر پر ناجائز تسلط قائم رکھا ہے بلکہ پاکستان کے حصے کے دریائوں پر ڈیمز بنا کر بین الاقوامی آبی معاہدوں کی بھی دھجیاں اڑائی ہیں۔ پانی جیسے بنیادی انسانی حق کو ہتھیار بنا کر بھارت اس خطے کو ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر لا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں دہشت گردی کی پشت پناہی اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں بھی مسلسل جاری ہیں۔
کیا بھارت کو اب بھی یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ جنگوں سے نہ کبھی امن ملا، نہ خوشحالی؟ اگر واقعی بھارت ایک ذمہ دار اور بڑی طاقت بننا چاہتا ہے تو اسے ماضی کی رعونت اور تکبر کو ترک کرنا ہوگا۔ اسے چاہیے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے، کشمیریوں کو ان کا جائز حق دے، پاکستان کے ساتھ برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرے، اور خطے میں خوشحالی کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ اب اسے یقین ہو جانا چاہئے کہ وہ اپنی جنگی قوت ، معیشت اور حجم سے پاکستان کو کبھی مرعوب نہیں کر پائے گا ۔ ہوش اور عقل کے ناخن لے کر اچھا پڑوسی بننے کی عادت ڈالے ۔
عارضی فائر بندی ضرور ہوئی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ خاموشی کب تک قائم رہے گی؟ اگر بھارت نے اب بھی اپنے رویے پر نظر ثانی نہ کی، تو خطہ مستقل جنگی کیفیت میں چلا جائے گا اور اس کا سب سے بڑا نقصان دونوں ملکوں کے عوام کو ہوگا۔
یورپ کی طرح بھارت اور پاکستان بھی ’’ایشین یونین‘‘ کا خواب دیکھ سکتے ہیں اگر نیت ہو، اگر ضد چھوڑی جائے، اگر عوامی بھلائی کو ترجیح دی جائے۔
ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں سے کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہوئی، صرف برباد ہوئی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
بچوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون، والدین کو کیا کرنا چاہیے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اگست 2025ء) جرمنی میں بچوں کو اوسطاً سات سال کی عمر میں اسمارٹ فون استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ بات ڈیجیٹل ایسوسی ایشن بٹ کوم کے ذریعے پیش کیے گئے والدین کے ایک سروے سے سامنے آئی۔ زیادہ تر والدین (38 فیصد) اپنے بچوں کو دس سے بارہ سال کی عمر کے درمیان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پروفائل بنانے کی اجازت دیتے ہیں، جبکہ 77 فیصد والدین چھوٹے بچوں کے لیے اسے ممنوع سمجھتے ہیں۔
بچوں کو اوسطاً نو سال کی عمر میں اپنا ذاتی اسمارٹ فون دیا جاتا ہے۔بٹ کوم کے منیجنگ ڈائریکٹر بیرن ہارڈ روہلیڈر نے کہا کہ اتنی کم عمر میں اسمارٹ فون کا استعمال حیران کن ہے۔ سروے میں شامل تقریباً تمام والدین (99 فیصد) نے کہا کہ ان کے لیے یہ اہم ہے کہ ان کا بچہ ہر وقت رابطے میں رہے۔
(جاری ہے)
اس مقصد کے لیے بچوں کو اوسطاً گیارہ سال کی عمر میں سمارٹ واچ دی جاتی ہے۔
انڈر 15 بچے: سوشل میڈیا کا استعمال ممنوع، ماکروں کی تجویز
چھ سے نو سال کی عمر کے بچوں کے 94 فیصد والدین اسمارٹ فون کے استعمال کے لیے قوانین بناتے ہیں، جبکہ 13 سے 15 سال کے نوعمر بچوں کے لیے یہ شرح 40 فیصد ہے۔
تاہم والدین کی تقریباً نصف تعداد نے تسلیم کیا کہ ان کا بچہ اکثر طے شدہ وقت سے زیادہ اسمارٹ فون استعمال کرتا ہے۔
روہلیڈر نے والدین کی رول ماڈل کے طور پر اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ والدین کو خود بھی موبائل پر کم وقت صرف کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا: مواقع اور خطراتوالدین سوشل میڈیا کے بارے میں مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ 78 فیصد والدین کا خیال ہے کہ ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بچے اپنے دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہ سکتے ہیں۔
تاہم 80 فیصد والدین کو خدشہ ہے کہ ان کا بچہ سوشل میڈیا پر 'غلط سلوک‘ کا شکار ہو سکتا ہے اور 53 فیصد نے بتایا کہ ان کے بچوں کے ساتھ یہ واقعہ ہو چکا ہے۔سوشل میڈیا کا بھوت اور بچوں کی ذہنی صحت
ایک تہائی والدین نے کہا کہ ان کے بچے کے ساتھ آن لائن اجنبی بالغ افراد کی طرف سے ''رابطہ کیا گیا یا انہیں ہراساں کیا گیا۔‘‘ روہلیڈر نے ایک اور مطالعے کا حوالہ دیا، جس کے مطابق 16 فیصد بچوں نے خود کو آن لائن بُلنگ کا شکار بتایا، جبکہ سات فیصد نے اجنبیوں کی طرف سے رابطے کی اطلاع دی۔
والدین کی ذمہ داری اور کمزوریاںخدشات کے باوجود صرف 38 فیصد والدین باقاعدگی سے اپنے بچوں سے سوشل میڈیا کے تجربات پر بات کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً نصف والدین پلیٹ فارمز کی رازداری کی سیٹنگز کو تبدیل نہیں کرتے حالانکہ یہ تمام پلیٹ فارمز پر ممکن ہے۔ 47 فیصد والدین اپنے بچوں کی تصاویر آن لائن شیئر نہ کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔
روہلیڈر نے کہا کہ والدین کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے اور انہیں بچوں سے سوشل میڈیا اور موبائل فون کے استعمال کے حوالے سے باقاعدگی سے گفتگو کرنی چاہیے۔پاکستان: سولہ برس سے قبل سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کا بل کیا ہے؟
انہوں نے اسکولوں میں ڈیجیٹل خواندگی کی تعلیم کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس کی 79 فیصد والدین نے سروے میں حمایت کی۔
ایک چوتھائی والدین خود کو ڈیجیٹل طور پر کم ماہر سمجھتے ہیں، جبکہ 41 فیصد کو سوشل میڈیا سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ''دوسرے خاندان سب کچھ بہتر طریقے سے سنبھالتے ہیں‘‘۔ تاہم 24 فیصد والدین نے آن لائن تربیتی مشورے بھی حاصل کیے ہیں۔سروے میں بٹ کوم نے چھ سے 18 سال کی عمر کے بچوں کے ایک ہزار سے زائد والدین سے ٹیلی فون پر بات کی اور نتائج اخذ کیے۔ادارت: شکور رحیم