’آپ کی بیگمات کتنی ہیں؟‘ ٹرمپ کا شامی صدر احمد الشرع سے دلچسپ سوال، ویڈیو وائرل
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
واشنگٹن(نیوز ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شام کے عبوری صدر احمد الشرع کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران ایک دلچسپ لمحہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ملاقات میں صدر ٹرمپ نے احمد الشرع کو اپنے برانڈ کا پرفیوم تحفے میں دیا۔ ٹرمپ نے پرفیوم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ “یہ دنیا کا بہترین پرفیوم ہے”۔
انہوں نے نہ صرف پرفیوم پیش کیا بلکہ خود احمد الشرع اور ان کے ہمراہ موجود شامی وزیرِ خارجہ اسعد الشیبانی کو بھی پرفیوم لگایا، جس کے بعد وہ پرفیوم شامی صدر کے حوالے کردیا گیا۔
اسی دوران ٹرمپ نے مسکراتے ہوئے کہا، “یہ ایک پرفیوم آپ کے لیے ہے اور ایک آپ کی اہلیہ کے لیے۔” پھر فوراً پوچھا، “آپ کی کتنی بیگمات ہیں؟” جس پر شامی صدر نے جواب دیا، “صرف ایک”۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ شام کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کریں گے۔ اسی موقع پر امریکی محکمہ خزانہ نے شام پر عائد اقتصادی پابندیوں کو عارضی طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: احمد الشرع
پڑھیں:
احمد الشرع کی وائٹ ہاوس یاترا
اسلام ٹائمز: ویسے تو جس طرح شامی و اسرائیلی مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں احمد الشرع کی وائٹ ہاوس کی یاترا کی منظوری اسرائیل سے حاصل کی گئی، اس سے لگتا ہے کہ احمد الشرع کے شام کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا کوئی بڑا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ وہ جب چاہیں ایسا کر گزریں گے اور اس کی عملی یقین دہانیاں کروا دی گئیں۔ اس سب کے باوجود اسرائیل احمد الشرع پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے آپ دروز اور کردوں کی بڑھتی طاقت کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ اب دروزوں کو دبانا احمد الشرع کے بس کی بات نہیں ہوگا۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
امریکی صدر سے صحافی نے سوال کیا کہ احمد الشرع اب آپ کے مہمان ہو رہے ہیں۔؟ مقصد یہ تھا کہ کل تک وہ دہشتگرد تھا، اب آپ کے پاس وائٹ ہاوس آرہا ہے۔ اس پر ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے ترکیہ اور کچھ دیگر ممالک بالخصوص اسرائیل کی درخواست پر پابندیاں ہٹائی ہیں۔ ایک وقت تھا، یہ داعش کا رہنماء اور عراق میں جنگ کر رہا تھا، امریکہ اور مغربی دنیا ان کے پیچھے تھی۔ پھر یہ ترکیہ پہنچ گئے، جہاں ان کی تربیت کی گئی اور خاص طور پر تیار کیا گیا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ کل کا جولانی اور آج کا احمد الشرع خطے میں امریکی و اسرائیلی اثاثہ ثابت ہو رہا ہے۔ یہ دن رات مزاحمت اور اسرائیل کے دشمنوں کے خلاف تو بات کرتے ہیں، مگر کسی بھی طور پر شام کے بڑے حصے پر قابض اسرائیل کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے۔ ٹرمپ کا بیان چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ موصوف اور اسرائیل کے تعلقات کیسے ہیں؟ ورنہ اسرائیل کبھی اپنے دشمن کی سفارش نہیں کرتا کہ اس سے پابندیاں ہٹا لی جائیں۔
بین الاقوامی ادارے اور نعرے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی حیثیت کھوتے جا رہے ہیں۔ احمد الشرع نے ملاقات کے لیے امریکہ پہنچنا تھا اور ان کا نام دہشتگردوں کی اقوام متحدہ کی فہرست میں موجود تھا۔ امریکہ کے لیے اقوام متحدہ سمیت ہر ادارہ لبیک کہتا نظر آتا ہے۔ 7 نومبر کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 2799 منظور کی، جس کے تحت احمد الشرع کا نام ان افراد کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے، جن پر دہشت گرد تنظیموں داعش اور القاعدہ سے تعلق کی بنیاد پر پابندیاں عائد تھیں۔ امریکی مسودے پر مبنی اس قرارداد کے ذریعے شام کے وزیرِ داخلہ انس خطاب پر عائد پابندیاں بھی ختم کر دی گئیں۔ قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے، جبکہ چین نے رائے شماری سے اجتناب کیا۔
احمد الشرع کے ساتھ ساتھ ان کے دوست کو بھی نواز دیا گیا۔ ہر دو سے اقوام متحدہ کی پابندیاں ہٹا دی گئیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دہشتگرد بنانا اور امن کا عنوان دینا اس بات سے مشروط ہے کہ امریکہ کیا چاہتا ہے۔؟ جیسے ہی امریکہ چاہے تو کوئی بھی دہشتگرد بن جائے اور جیسے ہی امریکی ارادہ بدلے تو وہ دہشتگردوں سے نکل کر پرامن شہری بلکہ نام نہاد صدر بن کر وائٹ ہاوس کا مہمان بن جائے۔ امریکہ شام سے کیا چاہتا ہے۔؟ یہ بات تو واضح ہے کہ امریکہ جولانی کو مزاحمت کا راستہ کاٹنے اور اسرائیل کے تحفظ کے لیے لے کر آیا ہے اور اسی کے لیے استعمال کرے گا۔ اس ملاقات کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ نے پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں جو نقد مانگا ہے، میڈیا کے مطابق وہ یہ ہے کہ امریکہ دمشق کے قریب واقع المزہ فوجی ہوائی اڈے پر ایک فوجی اڈہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تاکہ شام اور اسرائیل کے درمیان پیش رفت پر بھی نظر رکھی جا سکے۔
اس سے اسرائیل بے فکر ہو کر جو چاہے کرے، اس بارڈر کی نگرانی امریکہ کے ہاتھوں چلی جائے گی۔ ہیرس کے بقول ٹرمپ کا شام کے لیے وژن، اس ملک کے ایک اسٹریٹیجک حصے پر اسرائیلی اثر و رسوخ کو آنے والے برسوں تک یقینی بناتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ امریکی افواج شام میں موجود نہیں ہیں یا اس کے اڈے نہیں ہیں۔ابھی تک شام میں تعینات امریکی فوج کی اکثریت شمال مشرق میں کرد افواج کے زیر کنٹرول علاقوں میں موجود ہے۔ بشار الاسد کی موجودگی میں امریکہ یا کسی بھی مغربی ملک کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ انہیں دمشق کے پاس کوئی فوجی اڈا مل جائے گا، مگر جولانی نے سب کچھ ممکن کر دکھایا ہے۔
ٹرمپ ابراہیمی اکارڈ کو بھی بار بار میڈیا کی زینت بنا رہے ہیں۔ اس ملاقات میں بھی ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ شام دیگر عرب ممالک کی طرح ابراہیمی معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لے آئے گا۔ ویسے تو جس طرح شامی و اسرائیلی مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں احمد الشرع کی وائٹ ہاوس کی یاترا کی منظوری اسرائیل سے حاصل کی گئی، اس سے لگتا ہے کہ احمد الشرع کے شام کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا کوئی بڑا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ وہ جب چاہیں ایسا کر گزریں گے اور اس کی عملی یقین دہانیاں کروا دی گئیں۔ اس سب کے باوجود اسرائیل احمد الشرع پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے آپ دروز اور کردوں کی بڑھتی طاقت کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ اب دروزوں کو دبانا احمد الشرع کے بس کی بات نہیں ہوگا۔
آخر میں یہ لطیفہ بھی سن لیں کہ جولانی کی قیادت میں قائم حکومت نے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اعلیٰ سطحی ملاقات کے بعد شام نے پیر کے روز شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف امریکی قیادت والے بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی۔ شام کے وزیرِ اطلاعات حمزہ المصطفیٰ نے اسے اور انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اعلان کیا کہ معاہدہ فی الحال سیاسی نوعیت کا ہے اور اس میں کوئی فوجی شق شامل نہیں، لیکن یہ شام کے لیے عالمی سطح پر ایک اہم شراکت داری کی علامت ہے۔ جس سے ''دہشت گردی کے خلاف شراکت دار کے طور پر اپنے کردار اور علاقائی استحکام کی حمایت‘‘ کی توثیق ہوتی ہے۔ ایسے عالی شان کارنامے امریکی صدر ٹرمپ ہی دکھا سکتے ہیں، جو ایک مدت تک داعش کے فیلڈ کمانڈر کو حکومت مل جانے کے بعد اسی داعش کے خلاف اتحادی قرار دے رہے ہیں۔