امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ مشرقِ وسطیٰ کے دوران جہاں ان کی جانب سے کیے گئے تاریخی معاہدے خبروں کی ذینت بن رہے ہیں وہیں اس دوران ان کے شاہانہ استقبال پر بھی بات ہو رہی ہے۔

سعودی عرب سے شروع ہونے والے ان کے دورے میں پہلے ان کا سفید عربی گھوڑوں سے استقبال کیا گیا اور مقبول جامنی قالین بچھایا گیا۔ قطر آمد پر گھوڑوں کے ساتھ ساتھ اونٹوں کا اضافہ بھی کیا گیا اور محل لے جانے والے ان کے قافلے میں سائبر ٹرکس بھی موجود تھے۔

تاہم جب وہ متحدہ عرب امارات پہنچے تو وہاں ان کے استقبال کے لیے موجود سفید کپڑوں میں ملبوس مقامی لڑکیوں نے ایک مخصوص رقص کیا جو اکثر افراد نے اس سے پہلے نہیں دیکھ رکھا تھا۔

اس رقص کے دوران وہ اپنی لمبی زلفیں لہرا رہی ہیں اور اس دوران ٹرمپ ان کے بیچ سے ہو کر گزرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر جن صارفین نے یہ رقص پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ یہ سوال پوچھتے دکھائی دیے کہ یہ آخر ہے کیا، تاہم پاکستان میں اس حوالے سے یہ تنقید سامنے آئی کہ ایک کسی اسلامی ملک میں اس طرح کی پرفارمنس کیوں دی جا رہی ہے۔

العیالہ کیا ہے؟
ہم نے اس پرفارمنس کے بارے میں یونیسکو کی ویب سائٹ کے علاوہ، متحدہ عرب امارات کے محکمہ ثقافت و سیاحت سے بھی معلومات حاصل کی ہیں۔

دراصل العیالہ شمال مغربی عمان اور پورے متحدہ عرب امارات میں پیش کی جانے والی ایک مقبول ثقافتی پرفارمنس ہے۔ العیالہ میں گنگنانے، دف بجانے کے علاوہ رقص بھی شامل ہوتا ہے اور اس میں جنگ کا منظر دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ روایت عرب بدو قبائل کی ہے جو ایسا جنگ کے لیے اپنی تیاری یا کسی خوشی کے موقع پر کرتے تھے۔

تقریباً بیس آدمیوں پر مشتمل دو قطاریں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتی ہیں اور ان کے پاس بانس کی پتلی سوٹیاں ہوتی ہیں جو نیزوں یا تلواروں کے متبادل کے طور پر پکڑی جاتی ہیں۔

قطاروں کے درمیان موسیقار بڑے اور چھوٹے ڈھول، دف اور پیتل کی تھالیاں بجاتے ہیں۔ مردوں کی قطاریں اپنے سروں اور سوٹیوں کو دف کی تال کے ساتھ ہم آہنگی سے ہلاتے ہیں اور ساتھ ہی گیت بھی گاتے ہیں، جبکہ دوسرے فنکار تلواریں یا بندوقیں تھامے قطاروں کے گرد گھومتے ہیں، جنھیں وہ کبھی کبھار آسمان کی طرف پھینکتے اور پکڑتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں، روایتی لباس پہنے لڑکیاں اپنے لمبے بالوں کو ایک طرف سے دوسری طرف اچھالتی ہیں۔ اس مخصوص رقص کو ‘النشاعت’ کہا جاتا ہے جبکہ اس کی جدید طرز میں اسے خلیجی رقص بھی کہا جاتا ہے۔

بدو تہذیب میں یہ ان خواتین کی جانب سے مردوں کی جانب سے تحفظ فراہم کرنے کے عوض اعتماد کے اظہار کا طریقہ ہوتا ہے۔

العیالہ سلطنت عمان اور متحدہ عرب امارات دونوں میں شادیوں اور دیگر تہواروں کے موقعوں پر پرفارم کیا جاتا ہے۔ اسے پرفارم کرنے والے مختلف قومیتوں اور عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔ سرکردہ پرفارمر کو یہ مقام وراثت میں ملتا ہے اور اس کے ذمے باقی پرفارمرز کی ٹریننگ کرنا ہوتا ہے۔ العیالہ پرفارم کرنے کے لیے عمر، جنس یا سماجی کلاس کی کوئی قید نہیں ہے۔

تنقید کی وجہ کیا ہے؟
خلیجی ممالک کے دوروں کے دوران ٹرمپ کو ملنے والے شاہانہ استقبال پر اس دوران تنقید بھی ہو رہی ہے۔

تاہم متحدہ عرب امارات میں ہونے والے استقبال پر تنقید کی وجوہات مختلف ہیں۔ صارف اشوک سوائن نامی نے لکھا کہ ’خلیجی ممالک ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں۔ جب مغربی حکومتوں کی خواتین رہنما ان ملکوں کا دورہ کرتی ہیں تو انھیں سر پر دوپٹہ کرنا پڑتا ہے، اب متحدہ عرب امارات کی خواتین ایک مغربی رہنما کے لیے سر ڈھکے بغیر رقص کر رہی ہیں۔‘

چیلسی ہارٹ نامی صارف نے لکھا کہ ’ایک وقت تھا جب یہ رقص نجی محفلوں میں ہوتا تھا تاہم اب اسے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اپنی ثقافت دنیا بھر میں اجاگر کرنے کے لیے اسے عام کیا جا رہا ہے۔‘

ایک صارف میاں عمر نے کہا کہ ’ایک اسلامی ملک میں یہ ہونا بدقسمتی ہے۔‘ ایک صارف نے انھیں جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’آپ بہت کم علم ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ تقریب پرانے دور کی روایت ہے جو عربی ثقافت کے بارے میں ہے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’جب میں عرب ملک میں کام کر رہی تھی تو وہاں مجھے کسی نے بتایا کہ عربی صرف ایک مضبوط رہنما کی عزت کرتے ہیں۔‘

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: متحدہ عرب امارات میں کی جانب سے ہیں اور کرنے کے لکھا کہ کے لیے

پڑھیں:

’لڑکیوں کو چھوٹے کپڑوں کی اجازت، لڑکوں کو چپل بھی منع‘، ملازم کمپنی کی دوغلی پالیسی پر پھٹ پڑا

آفس کے لباس کے بارے میں ایک نئی بحث نے ہلچل مچا دی ہے، جب ایک ریڈٹ یوزر نے اپنے دفتر میں چپل پہننے پر پابندی کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ ان کا سوال تھا کہ جب دفتر میں کرپ ٹاپز اور عام لباس کی اجازت ہے، تو پھر چپل کیوں نہیں؟ کیا یہ واقعی ایک ڈبل اسٹینڈرڈز ہے، یا کوئی جائز وجہ؟ اس بحث نے نہ صرف دفتر کے ڈریس کوڈز پر سوالات اٹھائے ہیں، بلکہ اس نے وہ خطوط بھی چھیڑے ہیں جہاں ذاتی آزادی اور پروفیشنل ازم کی حدود ملتی ہیں۔

ایک شخص نے کمپنی میں چپل پہننے پر پابندی لگانے کو غیر منصفانہ قرار دیا، اس نے اس معاملے کو ’ڈبل اسٹینڈرڈز‘ کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ اگر آفس میں کرپ ٹاپز پہننا ٹھیک ہے تو پھر چپل پر پابندی کیوں؟

اس نے اپنی پوسٹ میں بتایا کہ وہ ایک ڈیجیٹل نیوز ویب سائٹ پر کام کرتے ہیں، جہاں کوئی باضابطہ ڈریس کوڈ نہیں ہے۔ تاہم، ایک دن انہیں باس نے چپل پہن کر آفس آنے سے منع کیا۔ اس پوسٹ میں یوزر نے وضاحت کی کہ ان کا کام ایسی نوعیت کا نہیں ہے جس میں میٹنگز یا رسمی لباس کی ضرورت ہو، اور اس لئے چپل پہننے میں کوئی حرج نہیں۔

’میرا کام ایسا نہیں ہے جس میں میٹنگز ہوں یا کسی خاص لباس کی ضرورت ہو۔ اگر دوسروں کو آرام دہ لباس پہننے کی اجازت ہے تو پھر میں چپل کیوں نہیں پہن سکتا؟‘ یوزر نے سوال کیا۔

اس پوسٹ نے فوری طور پر دیگر ریڈٹ یوزرز کی توجہ حاصل کی، جنہوں نے اس معاملے پر مختلف رائے دی۔ کچھ یوزرز نے باس کے فیصلے کا دفاع کیا، اور اس کی وجہ سمجھانے کی کوشش کی۔

’چپل ایمرجنسی کی صورتحال میں خطرناک ہو سکتے ہیں، جیسا کہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی آئی ایس او معیارات کے تحت، آپ کی کمپنی آپ کی حفاظت کو یقینی بناتی ہے۔ یہ تمام ملٹی نیشنل کمپنیز میں ہوتا ہے،‘ ایک کمنٹر نے وضاحت کی۔

دوسرے یوزرز نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ ’ننگے پاؤں جاؤ تاکہ تمہارا سپروائزر کم از کم چپل پہننے کے لیے کہے۔‘

تاہم، کچھ یوزرز نے آفس میں کسی بھی قسم کے لباس کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ایک نے کہا، ’جو بھی لباس آفس میں پہنا جائے، کم از کم وہ صاف ہونا چاہیے۔ چپل پہن کر آنا آفس کی وقار کے مطابق نہیں لگتا۔‘

اس شخص نے اس بات کا جواب دیا اور کہا، ’پوسٹ پڑھیں۔ یہاں کوئی ڈریس کوڈ نہیں ہے۔ آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ چپل میں کیا غلط ہے؟ یہ آفس کی وقار کو کیسے متاثر کرتے ہیں؟ اگر میں اپنا کام اچھی طرح کر رہا ہوں تو پھر لباس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘

ایک اور کمنٹر نے کہا، ’میں نے اپنے اسٹارٹ اپ میں باتھروم چپل پہنے، کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔‘

یہ بحث ورک پلیس ڈریس کوڈز، ذاتی اظہار اور کیا لباس کے مخصوص اصول ہمیشہ ضروری ہیں یا نہیں، پر سوالات اٹھاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے حفاظتی مسئلہ سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرے اسے آفس میں ڈریس کوڈز کے نفاذ میں تضاد کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • ایمازون سربراہ کی شادی: شہر بھر میں احتجاج اور دلہن کے لباس پر شدید تنقید کیوں؟
  • صدر ٹرمپ نے نیویارک کے ممکنہ میئر زہران ممدانی کو دھمکی کیوں دی؟
  • ایلون مسک کی ٹرمپ انتظامیہ پر کڑی تنقید، ریپبلکن پارٹی کو ’پورکی پگ پارٹی‘ قرار دے دیا
  • ’لڑکیوں کو چھوٹے کپڑوں کی اجازت، لڑکوں کو چپل بھی منع‘، ملازم کمپنی کی دوغلی پالیسی پر پھٹ پڑا
  • شدید تنقید کے بعد بھی ماہرہ خان اپنی اصل عمر راز کیوں نہیں رکھتیں؟ انٹرویو وائرل
  • رحیم یار خان کی باہمت خاتون روایتی پابندیوں سے آزاد ہوکر گھر کی خود کفیل بن گئی
  • مصر میں المناک ٹریفک حادثہ 19 لڑکیوں کی جان لے گیا
  • سیاسی مخالفین کمزور فوج چاہتے ہیں، صدر ٹرمپ کی ڈیموکریٹس پر کڑی تنقید
  • امریکا نے ایران پر حملے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت جائز قرار دے دیئے
  • پاکستانی آم متحدہ عرب امارات میں اتنے مشہور کیوں ہیں؟