اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ لیمی نے ملاقات کی جس دوران جنوبی ایشیا میں حالیہ پیشرفت بالخصوص پاک بھارت جنگ بندی کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔دفتر خارجہ کے مطابق  اسحاق ڈار نے سیکرٹری خارجہ لیمی کا پاکستان کے پہلے سرکاری دورے پر پرتپاک استقبال کیا اور برطانوی سیکرٹری خارجہ کو بھارت کے بلااشتعال اور جنگجوانہ اقدامات سے آگاہ کیا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملکی خودمختاری،بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹرکی خلاف ورزی ہے، پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق استعمال کیا۔

بھارت نے  38 روہنگیا مہاجرین کو  سمندر میں پھینک دیا

اسحاق ڈار کا کہناتھا کہ پاکستان کا ردعمل محدود،عین مطابق اور متناسب رہا،شہری ہلاکتوں سے بچنے کیلئے پوری احتیاط برتی گئی۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے صورتحال کو کم کرنے میں مدد کرنے میں برطانیہ کی تعمیری اور نتیجہ خیز مصروفیت کو سراہا۔  فریقین نے مزید کشیدگی روکنے اور علاقائی امن واستحکام برقرار رکھنے کیلئے پائیدار مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا ۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق فریقین نے پاک برطانیہ دوطرفہ تعلقات پر بھی وسیع پیمانے پر بات چیت کی جبکہ تجارت،اقتصادی تعاون اور ترقیاتی شراکت داری میں مسلسل پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا ۔اسحاق ڈار نے ترجیحی شعبوں بشمول تعلیم، صحت اور موسمیاتی لچک میں برطانیہ کی گرانقدر حمایت کا اعتراف کیا ۔ ماحولیاتی کارروائی اور پائیدار ترقی سمیت باہمی دلچسپی کے شعبوں میں تعاون کے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا ۔ فریقین نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان پائیدار تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ 

اگلے ماہ تک غزہ سے متعلق بہت سی اچھی چیزیں ہونے جارہی ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا بیان

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: اسحاق ڈار نے

پڑھیں:

طالبان کے وزیرِ خارجہ کا اگلے ہفتے بھارت کا دورہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) ایک بڑی اور اہم پیش رفت میں جو خطے کی جغرافیائی سیاست کو بدل سکتی ہے، طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی 9 اکتوبر کو بھارت کا دورہ کریں گے۔ یہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کابل سے نئی دہلی کا پہلا اعلیٰ سطحی دورہ ہو گا، جو بھارت اور طالبان کے درمیان تعلقات کے نئے مرحلے کو ظاہر کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تصدیق کی ہے کہ متقی کو بین الاقوامی سفری پابندیوں سے عارضی استثنیٰ دیا گیا ہے، جس کے تحت وہ 9 سے 16 اکتوبر کے درمیان نئی دہلی کا دورہ کر سکیں گے۔ یہ استثنیٰ اس دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جسے طالبان انتظامیہ اور خطے کی دیگر طاقتیں دونوں ہی اہم سمجھتی ہیں۔

(جاری ہے)

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی سفارتی حلقے کئی مہینوں سے اس لمحے کی تیاری کر رہے تھے۔

جنوری سے ہی بھارتی حکام بشمول خارجہ سیکرٹری وکرم مِسری اور سینیئر آئی ایف ایس افسر جے پی سنگھ نے امیر خان متقی اور دیگر طالبان رہنماؤں کے ساتھ کئی مذاکرات کیے، جو اکثر دبئی جیسے غیر جانبدار مقامات پر ہوئے۔ دبئی میں وکرم مِسری اور افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ملاقات میں افغانستان کے لیے بھارت کی جاری انسانی ہمدردی، خاص طور پر صحت کے شعبے اور پناہ گزینوں کی بحالی پر۔

پر مبنی امداد پر بات ہوئی۔

اصل موڑ 15 مئی کو، بھارت کے پاکستان کے خلاف آپریشن سیندور کے فوراً بعد آیا، جب بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے امیر خان متقی سے فون پر بات کی۔ یہ 2021 کے بعد پہلی وزارتی سطح کی بات چیت تھی۔ اس موقع پر جے شنکر نے پہلگام دہشت گرد حملے کی طالبان کی مذمت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور افغان عوام کے ساتھ بھارت کی ''روایتی دوستی‘‘ کو دہرایا۔

بھارت کے طالبان سے بڑھتے تعلقات

اس سے قبل اپریل میں طالبان نے کابل میں بھارتی حکام کے ساتھ اعلیٰ سطحی اجلاس میں پہلگام حملے کی مذمت کی تھی، جہاں بھارت نے اس حملے کی تفصیلات شیئر کیں۔ بھارت کے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم اشارہ تھا کہ بھارت اور افغانستان دہشت گردی کے معاملے پر ایک ہی صفحے پر ہیں۔

اس کے بعد بھارت نے افغانستان کو براہِ راست انسانی امداد میں اضافہ کیا، جس میں غذائی اجناس، ادویات اور ترقیاتی تعاون شامل ہے۔

ستمبر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد بھارت سب سے پہلے امداد بھیجنے والوں میں شامل تھا، جس نے فوری طور پر ایک ہزار خیمے اور 15 ٹن خوراک متاثرہ صوبوں کو روانہ کی۔ اس کے بعد مزید 21 ٹن امدادی سامان بھیجا گیا جس میں ادویات، صفائی کے کٹس، کمبل اور جنریٹر شامل تھے۔ اسے افغان عوام کی مدد کے لیے بھارت کے عزم کا اظہار قرار دیا گیا۔

اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارت تقریباً 50 ہزار ٹن گندم، 330 ٹن سے زائد ادویات اور ویکسینز، اور 40 ہزار لیٹر جراثیم کش ادویات فراہم کر چکا ہے۔ یہ مستقل کوششیں لاکھوں افغان عوام کو خوراک کی کمی، صحت کے مسائل اور انسانی بحران سے نمٹنے میں اہم سہارا فراہم کر رہی ہیں۔

پاکستان کے لیے دھچکا؟

بھارتی تجزیہ کار اس دورے کو پاکستان کے لیے ایک دھچکا قرار دے رہے ہیں۔

کیونکہ پاکستان طویل عرصے سے کابل پر اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس سال کے اوائل میں اسلام آباد کی جانب سے 80 ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے نے طالبان کے ساتھ تعلقات کشیدہ کر دیے تھے، جس سے بھارت کو زیادہ فعال کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق متقی کی نئی دہلی آمد کابل کی پاکستان پر انحصار کم کرنے اور اپنے تعلقات کو متنوع بنانے کی خواہش کی علامت ہے۔

بھارت کے لیے یہ دورہ ایک نازک لیکن حکمتِ عملی پر مبنی قدم بتایا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ براہِ راست تعلقات بھارت کو افغانستان میں اپنے طویل مدتی مفادات کے تحفظ، خطے سے دہشت گردی کے خطرات روکنے، اور چین و پاکستان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔

افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورے کے دوران ہونے والی دوطرفہ ملاقات کو ایک ایسا موڑ سمجھا جا رہا ہے جو بھارت اور افغانستان کو محتاط تعاون کی نئی راہ پر گامزن کر سکتا ہے، ایک ایسی راہ جو پورے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو دوبارہ ترتیب دے سکتی ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • وزیر خارجہ کا مصری اور سعودی ہم منصب سے رابطہ، غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی مصری ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو، غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • غزہ معاملے پر ٹرمپ نے جن 20 نکات کا اعلان کیا ہے وہ ہمارے نہیں ہیں: اسحاق ڈار  
  • ٹرمپ نے جن 20 نکات کا اعلان کیا ہے وہ ہمارے نہیں ہیں: اسحاق ڈار
  • غزہ میں مکمل جنگ بندی اور تعمیر نو ناگزیر ہے، وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا قومی اسمبلی میں خطاب
  • طالبان کے وزیرِ خارجہ کا اگلے ہفتے بھارت کا دورہ
  • اسحاق ڈار سے جرمن سفیر کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • سعودی وزیر خارجہ اور شامی ہم منصب کی ملاقات‘ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • شہباز ٹرمپ ملاقات اور جنرل اسمبلی سے خطاب
  • اسحاق ڈار کا ایرانی ہم منصب کو ٹیلی فون، خطے میں امن کیلئے جاری کوششوں پر غور، باہمی تعاون گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ