دشمن جنوبی ایشیا میں خود کو تھانیدار سمجھتا تھا، حکمت عملی سے دشمن کے ہوش اڑ گئے، وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
دشمن جنوبی ایشیا میں خود کو تھانیدار سمجھتا تھا، حکمت عملی سے دشمن کے ہوش اڑ گئے، وزیراعظم WhatsAppFacebookTwitter 0 16 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ وطن پرجان نچھاورکرنے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں، 1971میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا تھا، پوری قوم اللہ رب عزت کے سامنے سجدے میں تھی، ملک دشمن نے آخری حد بھی پارکر دی تھی، ہم نے دشمن کو مخلصانہ طور پرتحقیقات کی آفرکی تھی، طاقت کے غرورمیں مبتلا دشمن نے پاکستان پرحملہ کر دیا، دشمن کے حملے میں معصوم شہری شہید ہوئے ،پاک افواج نے دشمن بھارت کے 6 جہاز گرا دیے، دشمن جنوبی ایشیا میں خود کو تھانیدارسمجھتا تھا، دشمن سمجھتا تھا کہ پاکستان کوئی حیثیت نہیں رکھتا، ہمارے شاہینوں نے دشمن کے رافیل مار گرائے، دشمن اس ڈرانے خواب سے نہیں نکل سکے گا، آرمی چیف نے بتایا کہ دشمن نے میزائل مار دیے ہیں، آرمی چیف نے دشمن کے منہ پر تھپڑمارنے کی اجازت طلب کی، ہمارے جوانوں نے دشمنوں کو سر چھپانے کی جگہ نہیں دی۔
وہ جمعہ کو وفاقی دارالحکومت میں معرکہ حق اور آپریشن بنیان مرصوص میں شاندار فتح پر یوم تشکر کی خصوصی تقریب سے خطاب کر رہے تھے، تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا، جس کے بعد شہدائے وطن کے درجات کی بلندی، وطن عزیز کی ترقی،سلامتی اوراستحکام کیلئے دعا کی گئی۔خصوصی تقریب میں پاک فضائیہ کے شاہینوں نے شاندار فلائی پاسٹ کا مظاہرہ کیا، جس کے بعد ترانے اور ملی نغمے پیش کیے جارہے ہیں۔تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعظم ہیں جبکہ تقریب میں وفاقی وزرا ، اراکین کابینہ چیئرمین جے سی ایس سی، سروسز چیفس، مختلف ممالک کے سفارتکار، سول اور عسکری حکام تقریب میں شریک ہیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وطن عزیز اور اپنی جانیں نچھاور کرنے والے عظیم شہدا کے عظیم والدین، اہل خانہ، وفاقی وزرا، چیئرمین جوائنٹس چیف آف اسٹاف جنرل شمشاد ساحر مرزا، سپہ سالار بری فوج جنرل سید عاصم منیر، نیول چیف ایڈمرل نوید اشرف، ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر، جنرل افسران، سرکاری افسران اور معزز سفارت کاروں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ آج اس محفل میں ہمارے انتہائی قابل احترام صحافی، بہن اور بھائی موجود ہیں، پاکستان کے مایہ ناز فنکار موجود ہیں اور یہاں پر پاکستان کے انتہائی قابل احترام غازی بھی موجود ہیں۔وزیراعظم شہباز نے کہا کہ آج کا دن یوم تشکر ہے، یہ دن دنیا کی تاریخ میں کسی کسی کو ملتا ہے اور صدیوں بعد ملتا ہے، اللہ تعالی فضل و کرم ہے کہ آج سے تقریبا 50 سال قبل ایک دلخراش واقعہ پیش آیا تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری مخلصانہ پیشکش کو دشمن نے ٹھکرایا ہے جس میں ہم نے کہاتھا کہ ایک عالمی تحقیقاتی کمیٹی بناتے ہیں جو پوری تحقیقات کیبعد دنیا کو حقائق بتادے گی، مگر دشمن نے انتہائی تحکمانہ انداز میں، غرور کے نشے میں بدمست ہوکر پاکستان پر حملہ کردیا اور بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا جن میں چھ سالہ بچہ بھی شہید ہوا، مائیں، بہنیں، بزرگ اور جوان شہید ہوئے، اور دشمن نے یہ پیغام دیا کہ ہم پاکستان کے اندر جاکر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دشمن کے چھ جہاز گرائے ، جو کہ جنوبی ایشیا میں خو د کو تھانیدار سمجھتا تھا، اور یہ سمجھتا تھا کہ پاکستان اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اسی پاکستان کے شاہینوں نے جھپٹ جھپٹ کر ان کے رافیل بھی گرائے، مگ اور رافیل بھی گرائے، اور ایسا ڈرانا خواب دکھایا کہ قیامت وہ اس خواب سے نکل نہیں سکیں گے، مگر اس کے باوجود بھی دشمن دھمکیاں رہا، اور پھر 9 مئی کی رات کو ہم نے فیصلہ کیا ہم جواب دیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس کے بعد جنرل عاصم منیرنے مجھ سے کہا کہ اجازت دیں کہ دشمن کے منہ پر ہم ایسا تھپڑ رسید کریں گے کہ وہ عمر بھر یاد رکھے گا، اور پھر آپ نے دیکھا کہ کس طرح پٹھان کوٹ، ادھم پور اور دوسرے مقامات پر ہمارے شاہینوں اور الفتح میزائلوں نے حملے کیے اور دشمن کو سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ جنرل عاصم منیر کا پھر مجھے فون آیا اور کہا کہ ہم نے دشمن کو بھرپور جواب دیا ہے اور اب ہمیں سیز فائر کرنے کی درخواست کردی ہے، میں نے کہا کہ اس سے بڑی عزت کی کیا بات ہوسکتی ہے کہ آپ نے دشمن کو سیزفائر پر مجبور کردیا ہے، میں نے کہا کہ آپ سیزفائر کی پیشکش کو قبول کرلیں۔شہباز شریف نے کہا کہ ہمارے ایئرچیف اور ان کے شاہینوں نے جس طرح ملک میں تیار کردہ ٹیکنالوجی کو چینی طیاروں کے ساتھ استعمال کیا اس سے دنیا کے ہوش اڑگئے اور دوستوں کا اعتماد آسمان سے باتیں کرنے لگا، امریکا سے لے کر جاپان تک اور ہر جگہ آج یہ بات ہورہی ہے کہ پاکستان کی افواج نیکس طرح خاموشی سے یہ صلاحیت کرلی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبریوم تشکرکے سلسلے میں پاکستان مونومنٹ پرخصوصی تقریب، شاہینوں کا شاندار فلائی پاسٹ یوم تشکرکے سلسلے میں پاکستان مونومنٹ پرخصوصی تقریب، شاہینوں کا شاندار فلائی پاسٹ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کا نکاح جرم قرار، قومی اسمبلی سے بل منظور نئے مالی سال کا بجٹ 2جون کو پیش کیے جانے کا امکان، حکومت کی تیاریاں عروج پر، اہم اجلاس طلب بھارتی بحریہ نے روہنگیا مہاجرین کو سمندر میں دھکیل دیا؟ اقوام متحدہ کا چونکا دینے والا انکشاف غزہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، جلد امریکا سب ٹھیک کردیگا، ٹرمپ کا دعوی ایس ای سی پی نے تمام کمپنیوں کیلئے ایڈوائزری جاری کردیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جنوبی ایشیا میں دشمن کے
پڑھیں:
حکمت کی واپسی
بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتے تھے‘ جس ملک کے پاس اچھی نسل کے گھوڑے ہوتے تھے‘ وہ ملک فوجی اور معاشی لحاظ سے دوسرے ملکوں سے بہت آگے ہوتا تھا‘ اس زمانے میں سپہ گری تین فنون کا مجموعہ ہوتی تھی‘ گھوڑا‘ تلوار اور نیزہ‘ جس شخص کو یہ تینوں ہینڈل کرنا آ جاتے تھے‘ وہ مرد میدان کہلاتا تھا اور جو ان میں کورا ہوتا تھا‘ لوگ اسے زنان کہتے تھے‘ تاتاریوں کے پورے انقلاب کی بنیاد گھوڑے تھے‘ چنگیز خان دنیا کا پہلا جرنیل تھا جس نے اپنے سپاہیوں کو چلتے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سونے اور دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے تیر چلانے کی ٹریننگ دی‘ تاتاری سپاہی مسلسل سفر کرتے تھے‘ یہ آرام کے لیے نہیں رکتے تھے۔
یہ گھوڑی کے دودھ کی لسی پیتے تھے اور گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے سو جاتے تھے‘ گھوڑا بھاگتے بھاگتے مر جاتا تھا تو یہ اس کی گردن کاٹ کر اس کا خون دوسرے گھوڑے کو پلاتے اور چھلانگ لگا کر اس پر بیٹھ جاتے تھے یوں وہ ایک ماہ کا سفر دس دن میں طے کر لیتے تھے‘ تاتاریوں سے پہلے تیر چلانے کے لیے بھی گھوڑا روکنا پڑتا تھا لیکن چنگیز خان نے دوڑتے گھوڑے سے تیر چلانے کی تکنیک ایجاد کر لی‘ اس تکنیک اور اس اسپیڈ نے تموجن کو خان اعظم چنگیز خان بنا دیا چناںچہ دنیا میں اگر گھوڑا نہ ہوتا تو شاید چنگیز خان بھی نہ ہوتا‘ آج سے اڑھائی ہزار سال قبل ہندوستان میں گھوڑا‘ افیون‘ ستون اور پائجامہ نہیں ہوتا تھا‘ یہ چاروں چیزیں سکندر اعظم نے یہاں متعارف کرائیں‘ یونانی فوج گھوڑوں پر بیٹھ کر ہندوستان میں داخل ہوئی‘ ہندوستانیوں کے لیے گھوڑا نیا تھا اور یونانیوں کے لیے ہاتھی چناںچہ پورس کے ہاتھی گھوڑوں کو دیکھ کر پسپا ہو گئے اور سکندر کے گھوڑوں نے ہاتھی دیکھ کر ہمت ہار دی‘ امریکا میں بھی گھوڑا نہیں ہوتا تھا‘ یہ جانور ہسپانوی تاجر لے کر امریکا پہنچے‘ یورپی رائفل اور گھوڑے یہ دو ہتھیار تھے جنھوں نے امریکا کے قدیم باشندوں ریڈ انڈینز کا صفایا کر دیا لیکن پھر ایک رات اسپین کے مہم جوؤں کے دو سو گھوڑے کھل گئے۔
یہ گھوڑے ریڈ انڈینز کے ہتھے چڑھ گئے‘ ریڈ انڈینز چند ماہ میں گھڑ سواری سیکھ گئے اور اس کے بعد انھوں نے گوروں کی مت مار دی‘ عربی لوگ بھی گھوڑوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتے تھے‘ یہ اسے آسمانی تحفہ سمجھتے تھے‘ یہ لوگ گھوڑے کے معاملے میں کس قدر ’’عصبیت پسند‘‘تھے‘ آپ اس کا اندازہ معراج کے واقعہ سے لگا لیجیے‘ نبی اکرمؐ نے جب فرمایا‘ میںرجب کی ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے عرش پر گیا تھا تو لوگوں نے آپؐ کی سواری براق کو دنیا کا تیز ترین گھوڑا قرار دے دیا‘ دنیا بھر میں آج بھی جب براق کی تصویر بنائی جاتی ہے تو مصور گھوڑے کے ساتھ دو پر لگا دیتا ہے اور یوں گھوڑا براق بن جاتا ہے‘ عربی گھوڑے دنیا کے بہترین گھوڑے سمجھے جاتے تھے‘ یہ جنگوں میں کام یابی کی ضمانت ہوتے تھے‘ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور میں طائف میں جنگی گھوڑوں کا پہلا اصطبل بنایا‘ یہ دنیا میں عربی گھوڑوں کا پہلا فارم تھا۔
ان جیسے فارم بعد ازاں دنیا بھر میں قائم ہوئے اور ان فارموں کے گھوڑے جنگوں میں کام یابی کے ضامن بنے‘ عربی ادب کا ایک تہائی حصہ گھوڑوں پر مشتمل ہے‘ آپ آج بھی عربی ادب کی کوئی پرانی کتاب کھول لیجیے‘ آپ کو اس کے ہر صفحے پر گھوڑے کا ذکر ملے گا‘ عربی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ اس سے اگر گھوڑوں کا تذکرہ نکال دیا جائے تو پیچھے صرف حروف تہجی رہ جائیں گے‘ میں عربی زبان کو تین حوالوں سے دنیا کی مقدس ترین زبان سمجھتا ہوں‘ یہ وہ زبان ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ آخری بار انسان سے مخاطب ہوا‘ دوسرا‘ یہ وہ زبان ہے جو ہمارے وہ نبیؐ بولتے تھے جن کی آن اور شان پر ہم اپنی جان قربان کر سکتے ہیں اور تیسری خوبی‘ یہ دنیا کی وہ زبان ہے جو کائنات کی کسی چیز کو بے نام نہیں رہنے دیتی‘ یہ ہر چیز کو لفظوں کا لباس دے دیتی ہے‘ عربی کے بعد یہ خوبی فرنچ زبان میں ہے۔
شاید اسی لیے فرنچ کو سفارت کاری کی زبان سمجھا جاتا ہے کیوںکہ اس میں بھی عربی کی طرح کوئی ابہام نہیں ہوتا‘ اس میں بھی گھوڑا صرف گھوڑا نہیں ہوتا‘ یہ سفید‘ سیاہ‘ مشکی‘ چھوٹا‘ بڑا‘ موٹا‘ باربرداری‘ سواری اور جنگی گھوڑا ہوتا ہے‘ عربی زبان کس قدر گہری اور بلیغ ہے‘ آپ اس کا اندازہ صرف ایک لفظ سے لگا لیجیے‘ وہ لفظ ہے حکمت‘ عرب گھوڑے کی لگام کو حکمت کہتے تھے‘ یہ لوگ گھوڑے کو طاقت کی علامت سمجھتے تھے‘ ان کا خیال تھا‘ لگام اس طاقت کو قابو میں رکھتی ہے‘ یہ نہ ہو تو گھوڑا اپنے سوار اور سامنے موجود لوگ دونوں کو روند ڈالے چناںچہ عرب لگام کے استعمال کو حکمت کہتے تھے۔
معاشرے بھی اتھرے گھوڑے ہوتے ہیں‘ ان کے نتھنوں میں اگر حکمت کی لگام نہ ہو تو یہ بھی خود کو اور دوسروں کو روند ڈالتے ہیں‘ ادب‘ مصوری اور موسیقی یہ تینوں معاشروں کی حکمت ہوتی ہیں‘ معاشروں کی یہ لگام جتنی مضبوط ہو گی‘ ان کی طاقت اتنی ہی قابو میں رہے گی‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ پاکستان میں فنون لطیفہ کے زوال پر تحقیق کرلیں‘ آپ چند لمحوں میں ملک میں موجود عدم برداشت کی وجوہات تک پہنچ جائیں گے‘ ملک میں جب نثر‘ شاعری‘ مصوری‘ تھیٹر‘ موسیقی اور قوالی تھی تو اس وقت معاشرے میں امن‘ برداشت اور سکون بھی تھا لیکن جب ملک میں فنون لطیفہ سکڑنے لگے تو پھر دہشت گردی‘ عدم برداشت‘ بدامنی اور بے سکونی میں بھی اضافہ ہونے لگا‘ یہ ایک ایسا ملک تھا جس میں عطاء اللہ شاہ بخاریؒ جیسے خطیب موچی دروازے میں پوری پوری رات خطاب کرتے تھے اور جلسہ گاہ کے بالکل سامنے شرابی شراب خانے میں بیٹھ کر شغل مے کرتے تھے اور جلسے میں موجود کوئی شخص ان گناہ گاروں کے خلاف نعرہ لگاتا تھا اور نہ ہی یہ شرابی باہر نکل کر مولویوں کو مولوی کہتے تھے۔
یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں ہمارے علماء کرام لاکھ لاکھ لوگوں کو ساتھ لے کر مرزا غلام احمد قادیانی کے گاؤں قادیان چلے جاتے تھے‘ گاؤں میں پہنچ کر ختم نبوت پر تقریر کرتے تھے اور لوگ قادیانیوں کو گالی تک دیے بغیر واپس لاہور آ جاتے تھے اور یہ ایک ایسا ملک تھا جس میں فیض احمد فیض جیسے لبرل کمیونسٹ بھی تھے اور مولانا مودودی جیسے مذہبی اسکالر بھی اور یہ دونوں خوف ناک اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی بے انتہا عزت کرتے تھے‘ مولانا مودودی نے پوری زندگی فیض صاحب کو گالی دی اور نہ ہی فیض صاحب کے منہ سے مودودی صاحب کے خلاف کوئی فقرہ نکلا لیکن پھر فنون لطیفہ کو زوال آیا اور یہ زوال اپنے ساتھ طالبانائزیشن‘ فرقہ واریت اور دہشت گردی کا بھوت لے آیا‘ آج حالت یہ ہے‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فوج کے بغیر ربیع الاول اور محرم کے مہینے گزارنا مشکل ہوتے ہیں۔
امراء ان مقدس اسلامی مہینوں میں اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچانے کے لیے غیر اسلامی ملکوں کی طرف نکل جاتے ہیں‘ یہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ یہ حکمت کی اس کمزور ہوتی لگام کی وجہ سے ہوا جو معاشرے جیسے اتھرے گھوڑے کو قابو رکھتی ہے‘ دہشت گردی اور فنون لطیفہ دونوں ’’سی سا‘‘ کا تختہ ہوتے ہیں‘ فنون لطیفہ کی سائیڈ جب بھی زمین کی طرف آئے گی تو دہشت گردی‘ بدامنی اور بے سکونی کی سائیڈ آسمان کی طرف اٹھے گی اور جب بھی دہشت گردی کی سائیڈ نیچے زمین کی طرف بڑھے گی تو فنون لطیفہ اوپر اٹھ جائیں گے اور یہ وہ حقیقت ہے جسے یورپ ہم سے پانچ سو سال پہلے سمجھ گیا تھا چناںچہ ان لوگوں نے سو سو سال لمبی جنگوں میں بھی قلم‘ کتاب‘ برش‘ آواز اور وائلن کو مرنے نہیں دیا اور یہ ان کی وہ حکمت تھی جس نے آج یورپ کو یورپ بنا دیاجب کہ ہم معاشرے کو جنگ کے بغیر وہاں لے گئے جہاںہم کالموں میں فلم‘ موسیقی‘ پینٹنگ اور مجسموں کا ذکر کرتے ہوئے شرماتے ہیں اور جہاں ہمارے کالم نگار بھائی اپنی جان بچانے کے لیے آیات اور احادیث کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ہمارا بس نہیں چلتا ورنہ ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصویروں پر داڑھی لگا دیں اور فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کو برقعہ پہنا دیں‘ ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے‘ ہمیں دہشت زدہ پاکستان چاہیے یا پھر قائداعظم اور علامہ اقبال کا وہ پرامن اوربرداشت سے لبریز پاکستان جس میں ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری کی تقریب کے ابتدائی کارڈ کراچی کی ہندو‘ پارسی اور آغا خانی کمیونٹی کو جاری ہوئے تھے اور جس میں علامہ اقبال جیسے عظیم مسلم مفکر نے عیسائیوں کی درس گاہ مرے کالج میں تعلیم حاصل کی تھی اور جس کا پہلا قومی ترانہ کسی مسلمان نہیں بلکہ جگن ناتھ آزاد جیسے ہندو شاعر نے لکھا تھا‘ ہمیں اس بے لگام اتھرے معاشرے میں حکمت واپس لانی ہو گی ورنہ اسے وہ افغانستان بنتے دیر نہیں لگے گی جس میں افغان گلوکاراؤں کو سنگسار کر دیا جاتا ہے۔