مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نیا سلسلہ: جعلی اِنکاؤنٹرز اور بے گناہ شہریوں کی گرفتاریاں
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
پہلگام حملے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے ایک بار پھر جعلی سرچ آپریشنز اور جھوٹے انکاؤنٹرز کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔
کشمیری ذرائع ابلاغ کے مطابق پہلگام میں مبینہ حملے کو بنیاد بنا کر بھارتی فورسز نے بڑے پیمانے پر کارروائیاں شروع کی ہیں، جنہیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران بھارتی فورسز نے 40 سے زائد گھروں پر چھاپے مارے اور 25 سے زائد کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا۔ دوسری جانب دی اکنامک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی فوج نے گزشتہ تین دنوں میں 60 سے زائد کشمیری شہریوں کو مختلف کارروائیوں کے دوران حراست میں لیا۔
صورتحال اس وقت مزید تشویشناک ہوگئی جب الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 22 اپریل 2025 سے لے کر اب تک بھارتی فورسز نے دو ہزار سے زائد معصوم کشمیریوں کو گرفتار کیا ہے۔ صرف پچھلے ہفتے کے دوران 6 مختلف اضلاع میں جعلی انکاؤنٹرز میں کم از کم 5 نوجوانوں کو شہید کیا گیا، جس کی تصدیق کشمیر میڈیا سروس نے کی ہے۔
15 مئی 2025 کو پلوامہ میں بھارتی فوج نے تین کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا، جن کے بارے میں دی اکنامک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق مقامی آبادی سے تھا۔ ان ہلاکتوں کے بعد پہلگام حملے کی آڑ میں بھارتی فورسز نے 48 مزید نوجوانوں کو مبینہ طور پر جعلی مقابلوں میں شہید کر دیا، جیسا کہ کشمیر میڈیا سروس نے رپورٹ کیا۔
ان سرچ آپریشنز کے دوران خواتین اور بزرگ شہریوں پر بھی تشدد کیا گیا، جو کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں اس پہلو کو بھی اجاگر کیا ہے۔ کشمیری عوام کی آواز دبانے کے لیے بھارتی فورسز نے موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کو مسلسل بند رکھا ہوا ہے، جس سے اطلاعات کی آزادانہ ترسیل رک گئی ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے ان کارروائیوں کو ’’دہشت گردی کے خلاف آپریشن‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، تاہم شہید ہونے والے نوجوانوں کے اہلخانہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بچے بے گناہ تھے اور ان پر لگائے جانے والے تمام بھارتی دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارتی فورسز نے نوجوانوں کو میں بھارتی کے دوران
پڑھیں:
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے مقبوضہ کشمیر کو ایک پرتشدد تنازعہ میں تبدیل کر دیا ہے، مقررین
ذرائع کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 59ویں اجلاس کے موقع پر منعقدہ سیمینار کا اہتمام کمیونٹی ہیومن رائٹس اینڈ ایڈووکیسی سنٹر اور کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ جنیوا میں ایک سیمینار میں مقررین نے مسلح تنازعات کے تناظر میں انسانی حقوق کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ انسانی جانوں کا تحفظ، بنیادی حقوق اور وقار کو برقرار رکھنا تنازعات اور جنگ کے حالات میں بھی سب سے اہم ہے۔ ذرائع کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 59ویں اجلاس کے موقع پر منعقدہ سیمینار کا اہتمام کمیونٹی ہیومن رائٹس اینڈ ایڈووکیسی سنٹر اور کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ سیمینار میں دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کے علمبرداروں، صحافیوں اور ماہرین قانون نے شرکت۔ سیمینار کے مقررین میں کینیڈین صحافی رابرٹ فنٹینا، کنوینر کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ غلام محمد صفی، سید فیض نقشبندی، انسانی حقوق کی کارکن ریحانہ علی، سیدہ تحریم بخاری اور دیگر شامل تھے۔ نظامت کے فرائض نائلہ الطاف کیانی نے ادا کئے۔ مقررین نے اپنے خطاب میں بین الاقوامی انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن جیسے مختلف بین الاقوامی معاہدوں کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ ان قوانین کے تحت ریاستیں قانونی طور پرتمام انسانی حقوق بشمول معاشی، سماجی، ثقافتی، شہری اور سیاسی حقوق کے تحفظ کی پابند ہیں۔ تنازعہ کشمیر کو ایک کیس سٹڈی کے طور پر پیش کرتے ہوئے مقررین نے افسوس کا اظہار کیا کہ بھارتی قابض فورسز کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے خطے کو ایک پرتشدد تنازعہ میں تبدیل کر دیا ہے جہاں خوف و ہراس اور غیر یقینی کی صورتحال ہے انہوں نے طویل عرصے سے حل طلب تنازعہ کے تباہ کن اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پرتشدد تصادم نے کشمیریوں کی روزمرہ کی زندگی کو درہم برہم کر دیا ہے، بڑے پیمانے پر نقل مکانی، سماجی عدم استحکام اور نفسیاتی صدمے کا باعث بن رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ بھارتی قابض فورسز مقبوضہ علاقے میں ظلم و تشدد، انسانی حقوق کی پامالیوں، گرفتاریوں، قتل عام ،خواتین کی عصمت دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کر رہے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں نافذ کالے قوانین کے تحت بھارتی قابض فورسز کو نہتے کشمیریوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کالے قوانین مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیادی وجہ ہیں۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ بھارتی قابض فورسز گزشتہ 35برس کے دوران کشمیر میں خواتین اور بچوں سمیت دسیوں ہزار کشمیریوں کو شہید کر دیا ہے۔ اگست 2019ء میں جموں وںکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد بڑی تعداد میں کشمیریوں کے مکانات مسمار اور انہیں جبری طور پر ان کی املاک اور اراضی سے بے دخل کیا گیا جبکہ انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت ہزاروں کشمیری بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوںمیں قید ہیں۔مقررین نے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں غیر کشمیری ہندوئوں کو ڈومیسائل سرٹیفیکیٹس جاری کئے گئے اور ہزاروں کشمیریوں کو جبری طورپر انکی ملازمتوں سے برطرف کیا گیا ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کیخلاف جرائم پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرائے۔