ڈوبتی انسانیت: مودی حکومت کے ظلم و بربریت کا ایک اور داستان WhatsAppFacebookTwitter 0 18 May, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال

مودی حکومت کی سفاکی اور غیر انسانی رویے کی ایک اور دل دہلا دینے والی کہانی منظرِ عام پر آئی ہے، جو انسان کو شرمندگی سے سر جھکانے پر مجبور کر دیتی ہے—مگر مودی حکومت شرمندہ ہونے کو تیار نہیں۔ اس بار ظلم کی یہ داستان روہنگیا مہاجرین سے متعلق ہے—جو پہلے ہی دنیا کی سب سے زیادہ ستائی جانے والی اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں—اب ایک ایسے سفاک عمل کا نشانہ بنے ہیں جس نے بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ معتبر رپورٹس کے مطابق درجنوں روہنگیا مہاجرین کو بھارتی بحری جہازوں سے انڈمان سمندر میں اتار کر میانمار کی طرف تیرنے پر مجبور کیا گیا، اُس ملک کی طرف جہاں سے وہ نسل کشی اور منظم جبر سے بچ کر آئے تھے۔

یہ واقعہ نہ صرف خوفناک ہے بلکہ بین الاقوامی انسانی ہمدردی کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے میانمار، ٹام اینڈریوز، نے بالکل درست طور پر اسے “غیر اخلاقی اور ناقابل قبول عمل” قرار دیا ہے۔ تصور کیجیے کہ وہ لوگ، جو پہلے ہی ریاستی جبر اور بے وطنی کا زخم سہہ رہے ہیں، انہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر جبراً سمندر میں پھینکا جائے—یہ اقتدار کے ایوانوں میں اخلاقی گراوٹ کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عمل بین الاقوامی اصول نون ریفولمنٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو اُن افراد کو واپس اُن علاقوں میں بھیجنے سے روکتا ہے جہاں انہیں ظلم یا موت کا سامنا ہو۔

تفصیلات ہوش اُڑا دینے والی ہیں۔ درجنوں روہنگیا مہاجرین، جن کے پاس شناختی دستاویزات موجود تھیں، دہلی اور آسام سے گرفتار کیے گئے۔ ان میں سے تقریباً 40 افراد کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انڈمان اور نکوبار جزائر لے جایا گیا، جہاں انہیں بھارتی بحری جہاز پر سوار کیا گیا۔ پھر ایک وحشیانہ عمل کے تحت انہیں لائف جیکٹس دے کر سمندر میں اتار دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ وہ میانمار کے ایک جزیرے کی طرف تیر کر جائیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ اس خطرناک سفر میں بچ تو گئے، لیکن اُن کا انجام تاحال معلوم نہیں۔ اسی طرح، ایک اور گروہ، جس میں تقریباً 100 روہنگیا شامل تھے، آسام کے ایک حراستی مرکز سے نکال کر بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب منتقل کیا گیا، جن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

مودی حکومت کی خاموشی اور ان واقعات کو تسلیم تک نہ کرنا، معافی مانگنا تو دور کی بات، نہ صرف پالیسی کی ناکامی بلکہ اخلاقی زوال کا اظہار ہے۔ بھارتی بحری جہاز—جو بھارت کی قومی طاقت کی علامت سمجھے جاتے ہیں—کو اس طرح بے سہارا مہاجرین کے خلاف استعمال کرنا قومی وقار کی توہین ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ یہ واقعات کوئی اکا دکا نہیں، بلکہ اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب اور ظلم کا تسلسل ہیں۔

3 مارچ 2025 کو خصوصی نمائندے ٹام اینڈریوز نے بھارتی حکومت سے رابطہ کیا اور روہنگیا مہاجرین کی بلاجواز اور غیر معینہ مدت کے لیے حراست پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ریفولمنٹ کے خطرات سے آگاہ کیا اور مہاجرین کو منصفانہ سلوک اور حراستی مقامات تک رسائی کی اہمیت پر زور دیا۔ مگر بھارتی حکومت کا جواب نہ صرف سرد مہری پر مبنی تھا بلکہ متکبرانہ بھی—اور انہوں نے اصلاح کی بجائے ظلم میں اضافہ کر دیا۔

وہ بھارت، جو کبھی تبّت، بنگلہ دیش، افغانستان اور سری لنکا سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے بازو پھیلائے کھڑا ہوتا تھا، آج ان بے وطن روہنگیا مسلمانوں کو سمندر میں دھکیلنے کے الزامات کی زد میں ہے۔ اپنی تہذیبی روایات—مہمان نوازی اور رحم دلی—کے برعکس، مودی حکومت نفرت، تعصب اور امتیاز کے راستے پر گامزن ہے۔ روہنگیا مہاجرین کو حراست میں لینا، اُن کے بنیادی حقوق سے انکار کرنا، اور اب انہیں سمندر میں پھینک دینا صرف غیر ملکیوں سے نفرت نہیں بلکہ ایک دانستہ اور خطرناک سیاسی حکمتِ عملی ہے تاکہ شدت پسند ہندو قوم پرست حلقوں کو خوش کیا جا سکے۔

بین الاقوامی برادری، بالخصوص انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ کو فوری طور پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف تشویش کا اظہار یا بیانات جاری کرنا اب کافی نہیں۔ سفارتی، قانونی، اور اقتصادی اقدامات کے ذریعے مودی حکومت کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ اقوامِ متحدہ کو بھارت سے ان واقعات کی وضاحت طلب کرنی چاہیے، متاثرین تک رسائی حاصل کرنی چاہیے، اور ان سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں کو سزا دینی چاہیے۔ پناہ گزینوں کا تحفظ عالمی ذمے داری ہے، اور جب بھارت جیسا بڑا اور بااثر ملک اس ذمے داری سے اس درندگی کے ساتھ انکار کرتا ہے، تو یہ دوسروں کے لیے بھی ایک خطرناک مثال بن جاتی ہے۔

مسٹر اینڈریوز کی کوششیں حمایت کی مستحق ہیں۔ وہ اگرچہ نجی اور غیر معاوضہ حیثیت میں خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر ان کی آواز عالمی ضمیر کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کی تحقیقات کو آزادانہ طور پر جاری رہنے دیا جائے اور ان کی سفارشات کو بھارت سمیت ان تمام ممالک کو سنجیدگی سے لینا چاہیے جو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے دار ہیں۔

اگر یہ واقعہ درست ثابت ہو جاتا ہے، تو یہ محض ایک انسانی سانحہ نہیں بلکہ سیاسی اور اخلاقی تباہی ہے۔ یہ بھارت کے دعوے کردہ جمہوریت اور سیکولرزم کے نقاب کو نوچ کر پھینک دیتا ہے اور اس حکومت کی اصل تصویر دکھاتا ہے جو رحم دلی کو کمزوری اور سفاکی کو طاقت سمجھتی ہے۔ وہ روہنگیا، جو میانمار کی نسل کشی سے بچ کر بھارت آئے تھے، اور یہاں سمندر میں پھینک دیے گئے، عالمی ضمیر کی ناکامی کی علامت بن گئے ہیں—لیکن اس سے بڑھ کر، وہ مودی حکومت کی انسانیت دشمن پالیسیوں کا ثبوت ہیں۔

شرمندگی انسانیت کی علامت ہے۔ مگر مودی حکومت شاید اس صلاحیت سے بھی محروم ہو چکی ہے۔ عالمی برادری کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اگرچہ مظلوموں کی آواز شاید نہ ہو، مگر اُن کا درد دنیا تک ضرور پہنچے۔ اُن کی کہانی—زندگی کی جدوجہد، بے وطنی، اور ریاستی دھوکے کی—ہمیں مسلسل یہ یاد دلاتی رہے کہ بے حسی کی قیمت کیا ہے، درندگی کی ہولناکی کیا ہے، اور ہمیں اپنی اجتماعی انسانیت کو ریاستی بربریت سے واپس کیسے لینا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان نے جن طالبان کیلئے الزامات برداشت کیے، آج وہی بھارت و اسرائیل کیساتھ کھڑے ہیں،خواجہ آصف قصابوں کا اتحاد ہاتھی والے یہ خون تھا جو لفظوں سے بلند آواز میں بولا ماں کی محبت امن کیوں ضروری ہے یہ فوج ہماری ہے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: مودی حکومت ایک اور

پڑھیں:

یہ بربریت آخرکب تک؟

اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ اگر وہ کسی ملت کو اپنے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے کی ذمے داری سونپے، اس کے لیے انھیں تیار کرے، اسے مواقع اور سہولیات بھی فراہم کرے مگر وہ پھر بھی نہ صرف یہ کہ اس میں تساہل سے کام لیں بلکہ اپنی اس تفویض کردہ خدمت کو اپنے لیے اعزاز کے بجائے ایک سزا سمجھ بیٹھے۔

اس سے اعراض کرے اور مسلسل تفویض کردہ فرائض کی خلاف ورزی کرے تو پھر اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔

جب انسانی تاریخ میں انبیا کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اس وقت جب اللہ کسی قوم سے ناراض ہو جاتا تو ان کی جگہ دوسری قوم کو لاکھڑا کرتا اور یوں ایک ترقی یافتہ اور پسندیدہ قوم، ناپسند ہو کر عذاب کی مستحق ہو جاتی تھی اور اس لیے اس پر عذاب الٰہی مسلط کیا جاتا تھا۔ 

کبھی طوفانی ہواؤں کے ذریعے، کبھی نہ رکنے والی بارش کی شکل میں، کبھی پتھروں کی بارش کرکے اور کبھی ان کی زمین کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا جاتا تھا۔

مگر اب عذاب کی شکل مختلف نظر آتی ہے، اب نہ زلزلوں کے ذریعے، نہ دھماکوں اور چیخ کے ذریعے، نہ زمین سے اگلنے والے پانی کے ذریعے قوم پر عذاب مسلط نہیں کیا جاتا، اب اگر کوئی قوم بدکردار ہو جائے اور اس کی سلامت روی کا کوئی امکان باقی نہ رہے تو پھر اس قوم کو اس کی ہم عصر، کمزور اور بے طاقت قوم کے آگے اس طرح ڈال دیا جاتا ہے کہ ایک ناتواں طاقت سے کہہ دیا جاتا ہے کہ لو اسے نوچ نوچ کر کھا لو۔

غزہ ملت اسلامیہ کا ایک ہی ایک عضو ہے اور ملت اسلامیہ کے کسی حصے کو تکلیف پہنچے تو پورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے مگر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اہل غزہ کو ملت اسلامیہ کے من حیثیت القوم بدعہدی اور اپنے منصب کی خلاف ورزی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ اہل غزہ کو سزا نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کو سزا ہے۔

 اسرائیل جسے اپنے وقت کے فرعونوں کی حمایت حاصل ہے، اس طرح غزہ پر ٹوٹ پڑا ہے جیسے گدھ کسی مردار جانور پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ غزہ اور اسرائیل کے ارد گرد تقریباً 57 مسلم ممالک موجود ہیں مگر اہل غزہ پر ہونے والے مظالم پر کسی ایک مسلم ملک کی طرف سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی۔

غزہ میں روزانہ کے حساب سے مرنے، زخمی ہونے والے لوگوں کی تعداد اس طرح بیان کی جاتی ہے جیسے کرکٹ کے میچ میں کسی ماہر بلے باز کے چھکے اور چوکوں کی تعداد فخریہ پیش کی جاتی ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے سرپرست امریکا نے جو اپنا جنگ بندی کا منصوبہ پیش کیا ہے اس میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حماس 48 گھنٹوں کے اندر اندر اپنے آپ کو غیر مسلح کر دے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر امریکا کی طرف سے اسرائیل کو آزادی ہوگی وہ اہل غزہ سے جو سلوک چاہے کرے۔

ایسے بے رحمانہ انداز گفتگو کے بعد بھی امریکا بہادر کو امن کا علم بردار قرار دے کر اسے امن کے نوبل پرائز کے لیے امیدوار قرار دینا ملت اسلامیہ کی کمزوری کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے۔ اب متعدد ممالک کے نمایندوں پر مشتمل اہل غزہ کے لیے غذائی اجناس، ادویہ اور طبی آلات لے کر جانے والا جہاز غزہ کے پانیوں میں داخل تو ہو گیا ہے مگر اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس جہاز پر اسرائیلی جنگی بحری جہازوں نے قبضہ کر لیا ہے اور اس پر موجودہ 500 افراد میں سے دو سو کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔

اور خبر ہے کہ اسرائیل ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے اس اعلیٰ منصب پر فائز ہو گیا ہے کہ اس نے اس جہاز میں موجود امدادی سامان پر یہ کہہ کر قبضہ کر لیا ہے کہ اب یہ سامان اسرائیل اہل غزہ کو پہنچائے گا۔

اہل غزہ کے توسط سے ملت اسلامیہ پر یہ احسان اسرائیل کیوں فرمائے گا جب کہ غزہ کے لوگ ساحل پر کھڑے اس امداد کے منتظر ہیں، انھیں اس امداد سے بھی محروم کر دیا گیا ہے اور اس پر بھی دعویٰ یہ ہے کہ انسانیت کا دشمن اپنے سرپرستوں کی نگرانی میں ان کے منہ سے نوالے اور ان زخمیوں سے دوائیں بھی چھین چکے ہیں۔

امدادی سامان لے کر جانے والا یہ بحری جہاز ان اقوام اور افراد پر مشتمل ہے جن کی اکثریت مسلمان نہیں ہے، مگر اسرائیل کو غزہ کے ان زخم خوردگان کی مرہم پٹی، علاج معالجے اور بھوک پیاس سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ ان کو اس نہج پر خود اسرائیل ہی نے تو پہنچایا ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی یہودیوں کی نسل کشی کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے مگر اس ’’دور مہذب‘‘ میں غزہ کے مسلمانوں پر جس نوعیت کے مظالم توڑے جا رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ہٹلر کے مظالم کی کوئی وقعت ہی نہیں رہتی۔

غزہ کے لیے امداد کے لیے جانے والا یہ بحری جہاز مسلمان یا ملت اسلامیہ کا نمایندہ نہیں ہے۔ اس میں یورپی، افریقی اور ایشیائی غیر مسلموں کی بڑی تعداد شامل ہے مگر اسرائیل کو ان کی کاوشوں پر بھی شرم نہیں ہے اور وہ بے شرمی اور دیدہ دلیری سے بین الاقوامی دہشت گردی میں مصروف ہے اور یہ سب کچھ اسرائیل کے بس کی بات نہ تھی یہ اس کے سرپرستوں کی سرپرستی کی برکات ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ’’ بکھری ہے میری داستان ‘‘
  • شرمناک رویہ
  • یہ بربریت آخرکب تک؟
  • معرکہ حق میں شکست کے باوجود مودی سرکار کی افواج میں جارحیت کا سلسلہ جاری
  • معرکہ حق میں عالمی رسوائی کے باوجود انتہا پسند مودی کی  شکست خوردہ افواج  کا جنگی جنون برقرار 
  • ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت
  • مودی سرکار نے ویمنز ورلڈ کپ کو بھی نشانے پر رکھ لیا ،بھارت کا کرکٹ سے کھلواڑ جاری
  • مودی کی زبان نہ بولیں، اپنے چاچو کی حکومت ختم کرنی ہے کیا؟
  • فلوٹیلا پر حملہ اسرائیلی ظلم کی نئی داستان ہے، شیری رحمان
  • مودی راج؛ بھارت میں جرائم کی شرح خطرناک حد تک بلند، عوام بے یار و مددگار