افواجِ پاکستان کے تاریخی جواب پر دشمن سفید جھنڈے لہرانے پر مجبور ہوا: وفاقی وزیر عطاء اللّٰہ تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ— فائل فوٹو
وفاقی وزیرِ اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ کا کہنا ہے کہ مسلح افواج نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، اظہارِ تشکر ریلی میں بھرپور شرکت پر عوام کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔
لاہور میں اظہارِ تشکر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عطاء تارڑ نے کہا کہ ہم یہاں افواجِ پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، افواجِ پاکستان نے بہادری سے دشمن کے حملے کو پسپا کیا، ان کے تاریخی جواب پر دشمن سفید جھنڈے لہرانے پر مجبور ہوا۔
انڈین ایئر فورس نے رافیل کو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کا جواب دینے اور کروز میزائل سے زمین پر حملوں کے ٹاسک دیے تھے۔ یہ
عطاء تارڑ نے کہا کہ جو قوم سر پر کفن باندھ کر نکلتی ہو وہ کیسے شکست کھا سکتی ہے، دشمن کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کا پالا کس قوم سے پڑا ہے، افواجِ پاکستان نے دلیری سے دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملائے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاک فضائیہ نے دشمن کے جنگی طیارے مار گرائے، ہماری مسلح افواج نے دشمن کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز تباہ کیے، دشمن سفید جھنڈا لہرانے پر مجبور ہوا۔
عطاء اللّٰہ تارڑ نے یہ بھی کہا کہ ملک کے دفاع کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہداء کے خاندانوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: وفاقی وزیر عطاء الل دشمن کے ہ تارڑ کہا کہ
پڑھیں:
غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔
دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔
حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔
جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔
ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔
لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔
امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟
کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔
ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔
امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔
سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔