سیپا میں ریٹائرڈ ڈی جی نعیم مغل کا شکنجہ برقرار، نئے ڈی جی سے دھوکا
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
نعیم مغل کے دو قریبی افسران جعلی دستخطوں سے ماحولیاتی کیسز کی منظوری دینے لگے
نئے ڈی جی کو چالاکی سے چھوٹے معاملات میں الجھا کر بڑے پیمانے پر کرپشن جاری
محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت ادارے سیپا میں نئے ڈائریکٹر جنرل وقار حسین پھلپوٹو کی تقرری کے بعد بھی سابق ڈی جی نعیم مغل کے منظور نظر افسران کا بدعنوان نظام جاری ہے ، ماحولیاتی منظوری کے جعلی کیسز پر دستخط کرنے اور کروڑوں روپے کی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے ۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) سے دو ماہ قبل ریٹائرڈ ہونے والے ڈی جی نعیم مغل کے دو قریبی افسران جعلی دستخطوں کے ذریعے ماحولیاتی کیسز کی منظوری دے رہے ہیں۔ سابق ڈی جی نعیم مغل کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے افسران نئے ڈی جی کو دکھاوے کے لیے روزانہ ایک دو معمولی کیسز بھیجتے ہیں، جن میں کوئی گڑبڑ نہیں ہوتی، لیکن درپردہ بڑے صنعتی اور تعمیراتی منصوبوں کے لیے جعلی دستخطوں کے ذریعے منظوریاں دی جا رہی ہیں، افسران میں ایک کینیڈین نیشنل اور دوسرا کچھ سال قبل پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کے دوران بڑی کرپشن کرنے پر لاڑکانہ تبادلہ کیا گیا افسر شامل ہے ۔ ذرائع کے مطابق جو بھی افسر یا عملہ نئے ڈی جی کے روم میں زیادہ جانے لگتا ہے اسے دھمکایا اور ڈرایا جاتا ہے ۔ نئے ڈی جی کے ذاتی عملے میں اپنے مخبر بھیج کر وہاں کی پل پل کی خبر رکھی جا رہی ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ افسران نئے ڈائریکٹر جنرل کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ادارے کا نظام درست ہے ، جبکہ حقیقت میں وہ اپنے ذاتی مفادات پورے کرنے کے لیے ادارے کو بدنام کر رہے ہیں ،ان کی کارروائیوں سے نہ صرف ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے بلکہ صوبے کے ماحول کو بھی نقصان پہنچایا جارہا ہے ۔ سابق ڈی جی نعیم مغل کے دور میں بھی انہی افسران پر کئی بار بدعنوانی کے الزامات لگے ، مگر انہیں ہمیشہ تحفظ فراہم کیا گیا اب نئے ڈی جی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ادارے کو ان بدعنوان عناصر سے پاک کر کے شفاف نظام قائم کریں لیکن نئے ڈی جی کو بڑی ہوشیاری سے چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھا کر بڑے پیمانے پر کرپشن کی جارہی ہے ۔ ماحولیاتی حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے معاملے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر ایک آزاد انکوائری کمیٹی بنائی جائے جو تمام مشکوک کیسز کی تحقیقات کرے ۔ ذرائع کے مطابق نئے ڈی جی کو تمام حقائق سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور جلد ہی اس معاملے میں بڑی کارروائی متوقع ہے ۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ڈی جی نعیم مغل کے نئے ڈی جی کو کے لیے
پڑھیں:
ڈکی بھائی رشوت کیس؛ این سی سی آئی اے کے 6 افسران سے سوا چار کروڑ کی وصولی
اسلام آباد:ڈکی بھائی سے رشوت لینے کے الزام میں گرفتار این سی سی آئی اے کے 6 افسران سے 4 کروڑ 25 لاکھ 48 ہزار روپے ریکور کرلیے گئے، ملزمان کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثوں کی بھی تحقیقات شروع ہوگئیں۔
رشوت کے الزام میں گرفتار این سی سی آئی اے کے چھ افسران کو ضلع کچہری عدالت لاہور میں پیش کردیا گیا۔ ایف آئی اے نے تین روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر انہیں پیش کیا اور ملزمان کو ہتھکڑیاں لگاکر لایا گیا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے سماعت کی۔ ملزمان کی جانب سے رانا معروف ایڈوکیٹ اور فاروق باجوہ ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
یہ پڑھیں : ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
ایڈووکیٹ منیر بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض نے ڈکی بھائی کے 3 لاکھ 420 ڈالر اپنے ’’بائنانس (ڈیجیٹیل پلیٹ فارم) کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے لیکن ایک بھی ٹرانزیکشن کا ثبوت ان کے پاس نہیں ہے، اس کیس کی سوشل میڈیا پر ہائیپ بنا دی گئی ہے،جس کیس کی ہائیپ بنتی ہے اس کا فئیر ٹرائل نہیں ہوتا، جس کیس میں وزیر اعظم ، سی ایم ، چیف جسٹس، آئی جی پنجاب نوٹس لیتے ہیں اس کیس کا بھی فئیر ٹرائل نہیں ہوتا۔
ایڈووکیٹ منیر بھٹی نے کہا کہ کہا گیا کہ ملزمان کال سینٹرز سے ماہانہ لیتے تھے، لیکن ان کے پاس اس کا بھی ثبوت نہیں ہے، کہا گیا کہ سب ڈکی بھائی کو ریلیف دینے کے لئے کیا گیا، ہمیں بتایا جائے ڈکی بھائی کو ابھی تک کہاں ریلیف ملا ہے؟
ایف آئی اے نے بتایا کہ ملزمان سے رشوت کے 4 کروڑ 25 لاکھ 48 ہزار روپے ریکور کرلیے ہیں۔
ایف آئی نے ملزمان سے ہوئی تفتیش کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی جس میں بتایا گیا کہ رپورٹ کے مطابق ملزم علی رضا سے 70 لاکھ روپے ریکور کیے گئے، ملزم زوار سے نو لاکھ ریکور کیے گئے، یاسر گجر سے 19 لاکھ ریکور کیے گئے، اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض سے 36 لاکھ 48 ہزار روپے ریکور کیے گئے، ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری سرفراز سے ایک کروڑ 25 لاکھ 48 ہزار روپے ریکور کیے گئے۔
ایف آئی اے نے این سی سی آئی اے کے ان گرفتار افسران کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات بھی شروع کردیں۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ یہ تمام لوگ ٹرینڈ لوگ ہیں اس لیے ان سے تفتیش کرنا تھوڑا مشکل ہے، جن کیسز پر یہ تفتیش کر رہے تھے ہم نے ان کی تفصیلات اکٹھی کرنی ہیں، تمام ملزمان کے اثاثہ جات چیک کرنے ہیں۔
عدالت نے وکلا اور تفتیشی افسر کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔