کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 19 مئی ۔2025 )بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے مالی سال 25-2024 کے لیے پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو کو کم کر کے 2.6 فیصد کر دیا ہے جو اکتوبر میں دی گئی 3.2 فیصد کی پیش گوئی سے کم ہے یہ کمی مالی سال کی پہلی ششماہی میں معاشی سرگرمیوں کی کمزوری اور عالمی غیر یقینی صورتحال کے باعث کی گئی ہے.

آئی ایم ایف نے اپنی تازہ رپورٹ”ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی“کے تحت پہلی جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ مالی سال 2024 میں جی ڈی پی کی شرح نمو 2.5 فیصد رہی پہلی ششماہی میں ترقی کی رفتار سست رہی اور پہلی سہ ماہی میں شرح سالانہ 1.3 فیصد جبکہ دوسری سہ ماہی میں 1.

(جاری ہے)

7 فیصد رہی جو اہم خریف فصلوں کی کم پیداوار اور صنعتی شعبے کی مسلسل سستی روی کو ظاہر کرتی ہے.

بزنس ریکارڈر کے مطابق رواں مالی سال میں موجودہ اخراجات جی ڈی پی کے 18.9 فیصد کے برابر رہے جو کہ آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق تھے اگرچہ شرح نمو کی پیش گوئی کم کی گئی ہے لیکن موجودہ اخراجات کی نئی پیش گوئی بھی اتنی ہی رکھی گئی ہے تاہم آئندہ مالی سال میں یہ اخراجات جی ڈی پی کے 17.8 فیصد تک لانے کا ہدف رکھا گیا ہے جس کا انحصار 3.6 فیصد شرح نمو کے حصول پر ہوگا.

پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کو اس سال فنڈ پروگرام کے تحت جی ڈی پی کے 2.3 فیصد کے برابر رکھا گیا تھا لیکن نئی پیش گوئی میں اسے 2.5 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے تاہم پلاننگ کمیشن کی جانب سے فنڈز کے اجرا کی رفتار اس اضافے کو عملی شکل دینے کی تائید نہیں کرتی دفاعی اخراجات اس سال بجٹ اور اجرا دونوں کی صورت میں جی ڈی پی کے 1.7 فیصد کے برابر رہے جبکہ اگلے مالی سال کے لیے ان کی پیش گوئی جی ڈی پی کے 1.9 فیصد کے طور پر کی گئی ہے.

نجکاری کی مد میں محصولات رواں سال اور آئندہ چار سالوں کے لیے صفر فیصد جی ڈی پی پر رکھے گئے ہیں اہم فصلوں کی پیداوار مالی سال کی پہلی ششماہی میں مایوس کن رہی جبکہ صنعتی سرگرمیاں بھی سست رہیں تاہم حالیہ بلند اشاریوں کی بنیاد پر مالی سال 2025 کی دوسری ششماہی اور اس کے بعد کے عرصے میں بہتری کی توقع کی جا رہی ہے. آئی ایم ایف کے مطابق مارچ میں مہنگائی سالانہ بنیاد پر کم ہو کر 0.7 فیصد رہ گئی جس کی بڑی وجہ سخت مالی و معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں کمی رہی تاہم بنیادی مہنگائی اب بھی تقریباً 9 فیصد کی بلند سطح پر ہے رواں مالی سال 2025 کے لیے مہنگائی کی پیش گوئی کو کم کیا گیا ہے اگرچہ آئندہ مہینوں میں اس میں نمایاں اضافہ متوقع ہے جس کی وجہ پچھلے سال کے کم اعداد و شمار کا اثر ہے اگر مالیاتی پالیسی سخت رہی تو مالی سال 2026 کے دوران مہنگائی کو ہدفی دائرہ (5 سے 7 فیصد) میں واپس لانے کی امید ہے.

مالی سال 2025 کے لیے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ تقریباً 0.2 ارب ڈالر رہنے کی توقع ہے جس کی وجہ برآمدات میں استحکام اور ترسیلات زر میں بہتری ہے مستحکم میکرو اکنامک اور زرمبادلہ کی صورتحال نے ترسیلات زر کو رسمی ذرائع سے بڑھاوا دیا ہے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درمیانی مدت میںکرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ معمولی طور پر بڑھ کر جی ڈی پی کے تقریباً 1 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے کیونکہ درآمدات میں اضافہ متوقع ہے مجموعی زرمبادلہ ذخائر میں بہتری کی امید ہے جسے کثیر فریقی اور دو طرفہ قرض دہندگان کی جانب سے فراہم کردہ مالی امداد اور آر ایس ایف کے تحت ممکنہ 1.3 ارب ڈالر کی ادائیگیوں سے تقویت ملے گی.

پروگرام کے دوران بیرونی کمرشل فنانسنگ تک رسائی محدود رہنے کی توقع ہے تاہم مالی سال 2026 میں چھوٹے پیمانے پر ”پانڈا بانڈ“ کے اجرا کی توقع ہے جبکہ مالی سال 2027 میں یوروبانڈ/گلوبل سکوک مارکیٹ میں تدریجی واپسی کی امید ہے بشرطیکہ پالیسی میں اعتماد بحال ہوآئی ایم ایف نے مالی سال 25-2024 کے لیے برآمدات کی پیش گوئی کم کر کے 31.305 ارب ڈالر کر دی ہے جو پہلے 31.751 ارب ڈالر تھی جبکہ درآمدات کی نئی پیش گوئی 57.634 ارب ڈالر ہے، جو پہلے 57.180 ارب ڈالر تھی.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جی ڈی پی کے 1 آئی ایم ایف کی پیش گوئی مالی سال کی توقع فیصد کے گیا ہے کے لیے گئی ہے

پڑھیں:

پاکستان ٹیکسٹائل کونسل کا برآمدات میں نمایاں کمی  اور عالمی کمپنیوں کی بندش پر اظہارِ تشویش

اسلام آباد:

پاکستان ٹیکسٹائل کونسل  نے برآمدات میں نمایاں کمی اور صنعتوں کی بندش پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کونسل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں برآمدات 3.83 فیصد کمی کے بعد 7.61 ارب ڈالر رہ گئی ہیں، جبکہ صرف ستمبر کے مہینے میں برآمدات میں 11.71 فیصد کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی جس کی مالیت 2.51 ارب ڈالر رہی۔

پی ٹی سی کے مطابق اس سہ ماہی میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 9.37 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جس کی بڑی وجہ درآمدات میں 13.49 فیصد اضافہ ہے، جو بیرونی کھاتوں پر شدید دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس  طرح کی صورتحال کے باعث گل احمد ٹیکسٹائل نے اپنے ایکسپورٹ اپیرل سیگمنٹ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے ہزاروں ملازمین متاثر ہوئے ہیں۔

اسی طرح کئی عالمی بڑی کمپنیاں بھی پاکستان سے نکلنے یا اپنے آپریشن محدود کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ پروکٹر اینڈ گیمبل، مائیکروسافٹ، شیل سمیت دیگر اداروں کا انخلا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک میں توانائی کے نرخ، ٹیکس بوجھ اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال بڑے مسائل کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

پاکستان ٹیکسٹائل کونسل نے حکومت سے فوری اصلاحات پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو مزید صنعتوں کی بندش اور سرمایہ کاری میں کمی کا خطرہ ہے۔

چیئرمین پی ٹی سی فواد انور نے کہا ہے کہ برآمدی صنعتوں کے لیے خطے کے مطابق توانائی کے نرخ فراہم کیے جائیں اور ٹیکس اصلاحات کے ساتھ ساتھ ریفنڈ سسٹم کو بھی بہتر بنایا جائے تاکہ برآمدات کو سہارا دیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کی صورتحال میں مزید برآمدات کا سکڑنا ایک بڑا خدشہ ہے، جس سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ایکسپورٹ میں کمی، ٹیکسٹائل سیکٹر برآمدی بحران سے دوچار، مزید یونٹس کی بندش کا خطرہ
  • پنشن اخراجات پر قابو پانے کے لیے حکومت کی کنٹری بیوٹری اسکیم، نیا مالی ماڈل متعارف
  • رکاوٹوں کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے تیار
  • پاکستان ٹیکسٹائل کونسل کا برآمدات میں نمایاں کمی  اور عالمی کمپنیوں کی بندش پر اظہارِ تشویش
  • پہلی سہ ماہی میں برآمدات 3.83 فیصد کم، درآمدات میں 13.49 فیصد اضافہ
  • ملکی معیشت مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہے،گورنر اسٹیٹ بینک،جمیل احمد
  • رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارے میں 33 فیصد اضافہ
  • رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 32.92 فیصد بڑھ گیا
  • مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 32.92 فیصد بڑھ گیا
  • اے پی ڈی اے کا وزیراعظم سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی پالیسی پر نظرِ ثانی کا مطالبہ