جنگلات کا رقبہ 18 فیصد کم ہوگیا، ماحول، معیشت اور قومی سلامتی خطرات سے دوچار
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
پشاور: ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں 18 فیصد کمی ماحول، معیشت اور قومی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر رہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا اور پورا ملک ایک نہایت سنگین ماحولیاتی موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ جنگلات کی کٹائی، چراگاہوں کی تباہی، جنگلات میں لگنے والی آگ اور ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے خطرات براہِ راست تباہ کن سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور کلاؤڈ برسٹ کا باعث بن رہے ہیں۔1992 سے اب تک جنگلات کا رقبہ 18 فیصد کم ہو چکا ہے جبکہ چراگاہیں صرف 20 سے 30 فیصد تک اپنی ممکنہ بایو ماس پیدا کر رہی ہیںجس میں خیبرپختونخوا کا حصہ زیادہ ہے ۔ 1992، 2010 اور 2025 کے تباہ کن سیلاب ثابت کرتے ہیں کہ جنگلات اور چراگاہوں کی تباہی نے بالائی علاقوں کے واٹر شیڈز کو ’’سیلابی فیکٹریوں‘‘ میں بدل دیا ہے۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے جنگلات محض درخت نہیں بلکہ ماحول، معیشت اور قومی سلامتی کی پہلی دفاعی لائن ہیں یہ بارش کے پانی کو جذب کر کے فلش فلڈز روکتے ہیں زیر زمین پانی ری چارج کرتے ہیں زرعی زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں اور معیشت کے لیے پانی اور مٹی کی زرخیزی کو برقرار رکھتے ہیں۔جنگلات آب و ہوا کا توازن قائم رکھتے ہیں درجہ حرارت کم کرتے ہیں اور کاربن ذخیرہ کر کے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرتے ہیں دیہی آبادی کے لیے چارہ ایندھن پھل دوائیں اور سیاحت کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کرتے ہیں، یہ ملک کو سیلاب لینڈ سلائیڈ اور قحط جیسے خطرات سے بھی بچاتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ اگر فوری طور پر بحالی اور مضبوط اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو بڑے ماحولیاتی اور معاشی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ مؤثر پالیسی اور عملدرآمد ملک کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 1992 میں 3.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جنگلات کا رقبہ کا کہنا ہے کہ کلاو ڈ برسٹ کرتے ہیں کے مطابق ہیں اور فیصد کم کے لیے
پڑھیں:
سوڈان خانہ جنگی: سلامتی کونسل نے متوازی حکومت کا قیام مسترد کر دیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سوڈان میں ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کی جانب سے اپنے زیرتسلط علاقوں میں متوازی حکومت قائم کرنے کا اعلان مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام ملکی یکجہتی کے لیے خطرہ ہے اور اس سے خانہ جنگی میں مزید شدت آئے گی۔
آج جاری ہونے والے بیان میں کونسل کے ارکان نے کہا ہے کہ 'آر ایس ایف' کی جانب سے گزشتہ ماہ کیے جانے والے اس اعلان سے سوڈان کی علاقائی سالمیت کو نقصان ہو گا، ملک تقسیم ہو جائے گا، جنگ بڑھ جائے گی اور سنگین انسانی بحران بدترین صورت اختیار کر جائے گا۔
کونسل کے ارکان نے سوڈان کی خودمختاری، آزادی اور یکجہتی کے لیے اپنی غیرمتزلزل حمایت کی توثیق کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایسے یکطرفہ اقدامات سے یہ اصول متاثر ہوں گے اور ناصرف ملکی مستقبل بلکہ پورے خطے کا امن و استحکام بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
(جاری ہے)
ارکان نے 'آر ایس ایف' اور سوڈان کی مسلح افواج (ایس اے ایف) سے کہا ہے کہ وہ پائیدار جنگ بندی کے لیے مذاکرات کریں اور ایسے سیاسی تصفیے کے لیے حالات پیدا کیے جائیں جسے تمام سیاسی و سماجی گروہوں کی حمایت حاصل ہو۔
انہوں نے کہا ہے کہ شہریوں کی قیادت میں ایک ایسی حکومت کی جانب قابل بھروسہ اور جامع منتقلی عمل میں لائی جانی چاہیے جو ملک کو جمہوری انتخابات کی جانب لے جائے اور سوڈانی عوام کو ان کی امن، استحکام اور خوشحالی کی امنگوں کے مطابق بہتر مستقبل فراہم کر سکے۔
بیان میں کونسل کی قرارداد 2736 (2024) کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جو 'آر ایس ایف' سے ریاست شمالی ڈارفر کے دارالحکومت الفاشر کا محاصرہ اٹھانے، لڑائی روکنے اور علاقے میں کشیدگی ختم کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔
یہ شہر گزشتہ سال اپریل سے زیرمحاصرہ ہے جہاں شدید غذائی قلت اور قحط پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
ارکان نے رواں ہفتے اس علاقے میں 'آر ایس ایف' کے نئے حملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس پر زور دیا ہے کہ وہ علاقے میں انسانی امداد کی بلارکاوٹ رسائی یقینی بنانے میں سہولت دے۔کونسل نے حالیہ ہفتوں کے دوران کردفان میں فریقین کے حملوں پر بھی تشویش ظاہر کی ہے جن میں بڑے پیمانے پر شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ ارکان نے کہا ہے کہ ان حملوں سے علاقے میں امدادی کارروائیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
امدادی رسائی کا مطالبہسلامتی کونسل نے تمام متحارب فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق شہریوں کو محفوظ اور بلارکاوٹ امداد پہنچانے کی اجازت دیں، لوگوں کو تحفظ مہیا کیا جائے اور قرارداد 2736 کے ساتھ جدہ اعلامیہ 2023 کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کی جائیں۔
انہوں نے حقوق کی سنگین پامالیوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی کیا ہے اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ سوڈان میں ایسی مداخلت سے گریز کریں جس سے تنازع اور عدم استحکام بڑھنے کا خدشہ ہو۔
ارکان نے کہا ہے کہ ملک میں پائیدار امن کے قیام کی کوششیں کی جائیں اور قرارداد 2750 سمیت متعلقہ بین الاقوامی قانون اور کونسل کی دیگر قراردادوں کی پاسداری یقینی بنائی جائے۔
سلامتی کونسل نے امن، سلامتی، استحکام اور خوشحالی کے لیے سوڈان کے لوگوں کی جستجو میں انہیں مدد اور تعاون مہیا کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا ہے۔
ارکان نے ملک کے لیے سیکرٹری جنرل کے ذاتی نمائندے رمتان لامامرا اور مذکرات کے ذریعے مسئلے کے پائیدار تصفیے کی خاطر متحارب فریقین سمیت سول سوسائٹی کے ساتھ ان کے کام کو سراہا ہے۔