نیویارک یونیورسٹی کے ٹاپر طالبعلم کی ڈگری "فلسطین کی حمایت" کے باعث معطل
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
معروف امریکی یونیورسٹی کے ٹاپر طالبعلم کا سالہا سال کا تعلیمی کیریئر صرف اس وجہ سے معطل کر دیا گیا ہے کہ اسنے اپنی گریجویشن تقریب میں "غزہ میں جاری نسل کشی" کیخلاف بات کی ہے، جس پر مغربی صارفین نے اپنے گہرے غم و غصے کا اظہار کیا ہے اسلام ٹائمز۔ معروف امریکی نیویارک یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ لوگن روزوس؛ وہ طالب علم کہ جس نے اپنی گریجویشن کی تقریر میں اسرائیلی حملوں پر تنقید کی تھی، نے اس یونیورسٹی کے قوانین کی "خلاف ورزی" کی ہے اور اسے متعدد "تادیبی کارروائیوں" کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ آج منعقد ہونے والی گریجویشن کی تقریب سے خطاب میں فلسطینی حامی امریکی طالب علم لوگن روزوس نے، یونیورسٹی سے منظور شدہ متن سے قطع نظر، اس بات پر زور دیا کہ امریکی حکومت ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے غزہ میں جاری نسل کشی پر مبنی اسرائیلی مہم جوئی کی عسکری و سیاسی طور پر اندھی حمایت کر رہی ہے۔ لوگن روزوس کے ریمارکس کو نہ صرف اس تقریب میں موجود لوگوں کی جانب سے "زبردست" سراہا گیا بلکہ سائبر صارفین کی جانب سے بھی اس ہونہار طالب علم کی بڑے پیمانے پر حوصلہ افزائی کی گئی۔
-
مغربی ممالک کے ساتھ تعلق رکھنے والے صارفین نے فلسطینی حامی اس امریکی طالب علم کی ہمت کو سراہا اور نیویارک یونیورسٹی کی جانب سے لوگن روزوس کی ڈگری معطل کئے جانے کے فیصلے کی شدید مذمت کی۔ سائبر صارفین نے فلسطین کی حمایت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ نیویارک یونیورسٹی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ غزہ کے بے دفاع لوگوں کی حمایت میں "صرف ایک تقریر" کرنے کی وجہ سے اس طالب علم کی برسوں کی محنتوں کو یکسر نظر انداز کر دے۔
اس بارے ایک صارف نے اپنی نظر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اس نے اپنی ڈگری حاصل کر لی ہے اور اس بات پر زور دیا کہ ایسے طلبہ کا ہونا نیویارک یونیورسٹی کے لئے باعث فخر ہونا چاہیئے تھا جو "ایسی ناانصافیوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتا ہے جس میں خود امریکہ بھی ملوث ہے"! اس صارف نے لکھا کہ "ہم بھیڑیں نہیں!" ایک دوسرے صارف نے امریکہ میں تعلیمی نظام پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ہم طلباء کو بے دفاع لوگوں کی زندگیوں کی پرواہ کرنا نہیں سکھائیں گے، تو تعلیم کا مقصد ہی کیا ہے؟.
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یونیورسٹی کے لوگن روزوس طالب علم کی حمایت نے اپنی لکھا کہ علم کی
پڑھیں:
امریکی دفاعی تجزیہ کار نے ایک بار پھر بھارتیوں کو آئینہ دکھا دیا، پاکستان کے موقف کی حمایت
بین الاقوامی سطح پر سیکیورٹی امور کی جانی پہچانی ماہر اور امریکی دفاعی تجزیہ کار کرسٹین فیئر ایک بار پھر پاکستان کے مؤقف کی حمایت میں سامنے آگئی ہیں۔
ایک حالیہ پروگرام کے دوران انہوں نے بھارتی بیانیے پر نہ صرف کھل کر تنقید کی بلکہ بھارت کے کردار کو بھی بے نقاب کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، کرسٹین فیئر نے گفتگو کے دوران کہا کہ جس طرح بھارتی عوام یہ ماننے پر تُلے ہوتے ہیں کہ کشمیر میں پیش آنے والے ہر واقعے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے، بالکل اسی طرح پاکستانیوں کو بھی یہ پختہ یقین ہے کہ بلوچستان میں ہونے والے بیشتر دہشتگرد حملے بھارت کی کارستانی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارتی ناظرین اس حقیقت کو سننے یا تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ ان کے مطابق، بھارتی بیانیہ صرف یکطرفہ ہے اور اکثر اوقات حقائق کو نظرانداز کرتا ہے، حالانکہ سچ یہ ہے کہ بعض اوقات بھارت اپنی حدود سے تجاوز کر جاتا ہے۔
کرسٹین فیئر نے اپنے موقف کو تقویت دیتے ہوئے بھارتی مصنف اور تجزیہ کار اویناش پالیوال کی کتاب My Enemy's Enemy کا حوالہ بھی دیا، جس میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے شواہد پیش کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ الزام تراشی کا کھیل صرف ایک جانب نہیں چل رہا، بلکہ دوسری طرف بھی بہت کچھ ایسا ہے جس پر سوال اٹھائے جانے چاہئیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کرسٹین فیئر نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہو۔ اس سے قبل بھی وہ بھارتی فضائیہ کے ان دعوؤں کو کھلے عام مسترد کر چکی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ بھارتی ایئرفورس نے پاکستان کے کئی طیارے مار گرائے تھے۔ ایک پروگرام میں بھارتی صحافی کے سوال پر کہ بھارتی ڈی جی ملٹری آپریشنز نے پاکستان کے طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے مگر اس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں، کرسٹین فیئر کا برجستہ جواب تھا: ’’میں اسے بکواس سمجھتی ہوں، کیونکہ اس دعوے کی کوئی تصدیق موجود نہیں۔‘‘
کرسٹین فیئر کا یہ بے باک انداز اور حق گوئی کا جذبہ ایک بار پھر بھارت کے ان حلقوں کے لیے پریشان کن بن گیا ہے جو صرف اپنی مرضی کی کہانیاں سننا چاہتے ہیں۔